آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے دو اعلیٰ فوجی افسران اور ایک سویلین افسر کی سزائوں کی توثیق کر دی ہے۔ آئی ایس پی آر کی جاری کر دہ تفصیلات کے مطابق ان افسران پر غیر ملکی ایجنسیوں کے لئے جاسوسی اور پاکستان کی حساس معلومات ظاہر کرنے کا الزام تھا۔ بریگیڈیئر (ر) راجہ رضوان اور حساس ادارے سے منسلک ڈاکٹر وسیم اکرم کو سزائے موت جبکہ لیفٹیننٹ جنرل(ر) جاوید اقبال کو 14سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی ہے۔ تینوں افسران کا پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل کیا گیا۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) جاوید اقبال کور کمانڈر گوجرانوالہ‘ ڈی جی ملٹری آپریشنز اور ایڈ جوٹنٹ جنرل کے عہدوں پر تعینات رہے ہیں۔ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ یکساں احتساب کی پالیسی پر آئندہ بھی سختی سے عمل کیا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ دو برسوں میں مختلف رینکس کے 400افسران کو سزائیں دی گئیں۔ متعدد افسران کو نوکری سے فارغ ہونا پڑا۔لیفٹیننٹ جنرل (ر) محمد افضل اور میجر جنرل (ر) خالد زاہد اختر کو این ایل سی کے 4.3ارب سٹاک مارکیٹ میں لگانے پر سزائوں کا سامنا کرنا پڑا جبکہ اسد درانی کو بھارتی ایجنسی را کے سابق سربراہ اے ایس دلت کے ساتھ مل کر کتاب لکھنے پر کورٹ مارشل کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ غلط طریقے سے کمائی رقم کرپشن ہے اور فوج میں کسی کے لئے کوئی رعایت نہیں۔ سب کا احتساب ہو گا۔ ریاست کا استحکام اس وقت تک قائم نہیں ہوتا جب تک تمام طبقات قانون اور آئین کی نظر میں برابر نہ ہوں اور ریاستی نظام کسی کی نسل‘ علاقے‘ طبقے یا حیثیت سے بالاتر ہو کر تمام شہریوں کے ساتھ مساوی سلوک نہ کرے۔ فوج ایک نظم وضبط کا پابند ادارہ ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں مسلح افواج میں نظم و ضبط برقرار رکھنے اور افسران کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کا نظام کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ کئی ایسے ملک ہیں جہاں فوجی افسران کے جرائم پر سزا معمول کا کام ہے۔ اس پر نہ کوئی تبصرہ ہوتا ہے نہ سیاستدان اسے اداروں کی تضحیک کا بہانہ بناتے ہیں۔ پاکستان کی صورت حال قدرے مختلف رہی ہے۔ ملک چار فوجی آمریتوں کو بھگت چکا ہے آمروں کی وجہ سے سیاستدانوں کی فوجی افسران پر تنقید بڑھی۔ یہ تنقید بعض اوقات ایسی حدود کو چھونے لگتی ہے جہاں اسے غیر منصفانہ کہا جا سکتا ہے۔ اس وقت فوج کی ان تمام خدمات کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے جو سہ ملکی دفاع‘ قدرتی آفات اور عمومی طور پر سویلین انتظامیہ کی نااہلی کی وجہ سے اس نے صحت‘ تعلیم امن و امان اور تعمیرات کے شعبوں میں انجام دی ہیں ہمارا یہ فکری مسئلہ ہے کہ سیاستدانوں نے خود کو جدید علوم اور مہارتوں سے آراستہ نہیں کیا پارلیمنٹ کے سینکڑوں اراکین میں سے دو چار ہی ہوں گے جو کسی مسئلے کا پالیسی کے تناظر میں جائزہ لینے کی اہلیت رکھتے ہوں یہ صورت حال اس وقت مزید پریشان کن ہو جاتی ہے جب فوج کو دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ خطے کی سیاست اور ملک کو ترقی دینے کے لئے ترتیب کر دہ منصوبوں میں سیاسی قیادت کی مفید مشاورت حاصل نہیں ہو پاتی۔ یقینا منتخب حکومتوں کو یہ حق آئین نے دے رکھا ہے کہ وہ مسلح افواج کے سربراہوں کا تقرر کریں‘ دفاعی بجٹ کی منظوری دیں اور ضروری ہدایات جاری کریں لیکن جس طرح امریکی کانگرس میں دفاعی کمیٹی فعال دکھائی دیتی ہے ایسا پاکستانی پارلیمنٹ میں اس لئے نظر نہیں آتا کہ سیاسی جماعتیں ٹکٹ دیتے وقت ان صلاحیتوں کو اہمیت نہیں دیتیں جو ریاست کے لئے کارآمد ثابت ہوں۔ پاکستان میں کچھ لوگ ہمیشہ سے یہ شور مچاتے رہے ہیں کہ سیاستدانوں کے خلاف جس طرح کرپشن اختیارات کے ناجائز استعمال اور دیگر جرائم کی پاداش میں مقدمات قائم ہوتے ہیں ایسے مقدمات فوجی افسران کے خلاف درج نہیں ہوتے۔ ڈئریکٹر جنرل آئی ایس پی آر کی فراہم کردہ تفصیلات میں صرف مقدمات درج ہونے کی بات نہیں کی گئی بلکہ واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ پچھلے دو سال کے دوران مختلف رینکس والے چار سو افسران کو سزائیں دی گئیں۔ اگر سیاسی سطح پر پچھلے دو سال میں مختلف رہنمائوں کے خلاف مقدمات اور ان پر عائد الزامات کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ مقدمات تو قائم ہوئے کچھ تفتیش بھی ہوئی مگر معاملات کو ماشگافیوں کے ذریعے الجھایا جا رہا ہے۔ جولائی 2017ء میں میاں نواز شریف کو صادق و امین نہ ہونے پر نااہلی کی سزا سنائی گئی سزا سے پہلے طویل تحقیقات ہوئیں سزا کے بعد نواز شریف جی ٹی روڈ سے ریلی لے کر لاہور آئے انہوں نے پاکستان کی عدلیہ‘ مسلح افواج اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں اور اہم شخصیات کے خلاف مسلسل تقاریر کیں۔ یہ کیس ابھی تک عدالت میں ہے۔ نواز شریف بعدازاں العزیزیہ ریفرنس میں سزا یافتہ ہو کر جیل گئے۔ اس سزا کے دوران بھی چھ ہفتے بیماری کا جواز پیش کر کے گھر پر چھٹیاں گزار چکے ہیں اور اب عدالت سے درخواست گزار ہیں کہ ان کے مرض کا علاج صرف لندن سے ہو سکتا ہے۔ اس لئے انہیں لندن جانے دیا جائے۔ جنرل پرویز مشرف نے بھی ان کے خلاف جو مقدمات بنائے انہیں انجام تک نہیں پہنچنے دیا گیا اور شریف خاندان ڈیل کر کے جدہ چلا گیا۔ ہم آصف علی زرداری کی آٹھ سالہ قید اور پھر کسی الزام کا ثابت نہ ہونا بھی دیکھ چکے ہیں۔ آج بھی عدالتوں اور نیب میں درجنوں سیاستدانوں کی کرپشن کے مقدمات زیر التوا ہیں۔ اس فضا میں افواج پاکستان نے اپنے افسران کی کڑی نگرانی اور پھر ان کے خلاف کارروائی انجام تک پہنچا کر ثابت کیا ہے کہ فوج پر اس سلسلے میں لگائے جانیوالے الزامات بے بنیاد ہیں اور ان کا مقصد اپنی نااہلی پر پردہ ڈالنے کے سوا کچھ نہیں۔