آج امت مسلمہ کو ایک اور ابن سینا کی ضرورت ہے۔ آج مسلمان تحقیق اور تخلیق کی بجائے خرافات میں پڑے ہوئے ہیں۔ اسی بناء پر مسلمانوں کی حالت زار قابل رحم ہے۔ وسائل کی کمی نہیں ہے، صرف عقل اور عمل کا فقدان ہے۔ آج ایجادات کا محور و مرکز یورپ بنا ہوا ہے۔ ایل یورپ عسکری اور معاشی طور پر وہ اس قدر مضبوط ہو چکے ہیں کہ دنیا کو ان کو نا قابل شکست قرار دے رہی ہے۔ دل کے بہلانے کو کہہ دیا جاتا ہے کہ امریکہ کو افغانستان میں شکست ہوئی حالانکہ امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک پیسے کے بل بوتے پر مجاہدین کو استعمال کرکے اپنے اغراض حاصل کرتے رہے۔ ابن سینا کی بات کرنے سے پہلے اس افسوسناک صورتحال کا ذکر ضروری ہے کہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے امریکی سفیر سے ملاقات کرکے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں پاکستان کی مدد کی جائے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ بھاری سود پر قرضہ بھیک کے طور پر لیا جاتا ہے۔ ابن سینا و دیگر مسلمان سائنسدانوں کے عمل کو آگے بڑھایا جاتا تو آج مسلمان غربت، بیروزگاری اور پسماندگی کا شکار نہ ہوتے۔ اور یہ بھی دیکھئے کہ پاکستان میں ایک طرف غربت ہے دوسری طرف سینیٹ کے چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین اپنی بھاری مراعات کے بل سینٹ سے پاس کرا رہے ہیں۔ لوگ غربت اور بیروزگاری سے مر رہے ہیں۔ یونان کشتی حادثہ کیوں پیش آیا؟ کیا کبھی کسی نے غور کیا؟ اگر ملک میں بیروزگاری نہ ہوتی تو اتنی تعداد میں لوگ باہر کیوں جاتے؟ افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ یونان میں حادثہ پر بڑے بڑے احتجاجی جلوس نکلے مگر پاکستان جن کے نوجوان جاں بحق ہوئے وہاں خاموشی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کہتے ہیں کہ یونان کشتی حادثہ کے ذمہ داروں کو جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا، لیکن کب؟ ابھی چند دن پہلے اسی طرح کا حادثہ پیش آیا اگر ایکشن لے لیا جاتا تو اس حادثہ سے بچا جا سکتا تھا۔ سمگلنگ بہت بڑا جرم ہے اور انسانی سمگلنگ تو اتنا بڑا جرم ہے جسے کسی صورت معاف نہیں کیا جا سکتا۔ یونانی کشتی میں سوار سینکڑوں لوگ ابھی تک لا پتہ ہیں۔ کثیرتعداد پاکستانیوں کی ہے۔ اس اندوناک حادثہ سے آنکھیں کھل جانی چاہئیں اور انسانی سمگلروں کے خلاف کارروائی کے ساتھ ساتھ بہت ضروری ہے چکا ہے کہ پاکستان میں روزگار کے مواقع مہیا کئے جائیں اور ترقی کا وہ ماحول بنا دیا جائے کہ لوگ باہر جانے کا سوچنا بھی بند کر دیں۔ 22 جون عالم اسلام کے عظیم فلسفی ابن سینا کا یوم وفات ہے۔ وہ محض 56 سال کی عمر میں 1037 عیسوی میں ایران کے شہر ہمدان میں وفات پا گئے۔ وہ بہت بڑے فلسفی تھے عالم اسلام ان پر جتنا فخر کرے کم ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ابن سینا موجودہ دور کے ازبکستان میں بخارا کے نزدیک ایک گائوں میں 980عیسوی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد عبداللہ کا شمار نہایت قابل احترام افراد میں ہوتا تھا۔ وہ گورنر کے عہدے پر فائز تھے۔ انہوں نے ابن سینا کو اس دور کے اعلیٰ اساتذہ سے تعلیم دلوائی۔ بحیثیت شاگرد اور بحیثیت استاد ان کا کردار مثالی رہا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ذہین و فطین بچے کے ذہن و قلب کو جلا بخشی اور انہیں آزادنہ طور پر اپنے افکار کی تعمیرو ترقی میں معاونت کی۔ اپنی وفات سے پہلے انہوں نے غلاموں کو آزاد کر دیا اور اپنی جائیداد کا بیشتر حصہ غریبوں کی فلاح و بہبود کے لئے وقف کر دیا۔ آج ہمارے حکمرانوں کو ابن سینا کی تقلید کرنی چاہئے اور بینکوں میں پڑی ہوئی دولت کو واپس لانا چاہئے۔ دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جو ابن سینا کے بارے میں نہ جانتا ہو اور ان کے علم سے استفادہ نہ کر رہا ہو۔ پاکستان میں علم نہیں فرقے پڑھائے جاتے ہیں جبکہ ہمارے طالب علموں کو بھی سرسری طور پر سائنسی مشاہیر کے بارے میں بتایا جاتا ہے آپ سے 450 کے قریب کتابیں منسوب کی جاتی ہیں، جن میں سے صرف 240 کتابیں دست برد زمانہ سے بچ پائیں، ان میں 150فلسفہ کے موضوع پر ہیں اور 40 طب کے موضوع پر۔ خاص طور پر طب میں ابن سینا کی کتاب ’’القانون‘‘ ڈیڑھ ہزار سے زائد برسوں تک دنیا بھر میں طب کی بنیادی کتاب کے درجے پر فائز اور یورپ اور مختلف ملکوں کی جامعات میں بطور نصاب شامل رہی ہے۔ آج یورپ نے ترقی کر لی ہے تو یورپ کو بھی یہ ترقی پسماندہ ممالک کی طرف منتقل کرنی چاہئے۔ابن سینا کا ظہور اسلامی سلطنت کے سنہری دور میں ہوا جب فارسی، سنسکرت اور لاطینی زبانوں کی کتابوں کا عربی میں تراجم کا عمل جاری تھا۔ ان تراجم نے اسلامی اسلامی فکر میں غیر معمولی تبدیلیاں پیدا کریں۔ انہی تراجم کے باعث اسلامی معاشرے میں فلسفہ، علم الکلام اور فقہ جیسے علوم کو فروغ حاصل ہوا۔ ہمارے ہاں کتاب دوستی کا فقدان ہے حالانکہ قومیں کتاب سے بڑی ہوتی ہیں۔ ترقی کیلئے کتاب سے محبت ضروری ہے۔ ابن سینا کا شاہکار اس کی کتاب ’’القانون الطب‘‘ ہی مانا جاتا ہے۔ جو 17ویں صدی تک دنیائے اسلام سمیت یورپ بھر کی جامعات میں طب کی بنیادی کتابوں میں شمار ہوتی تھی۔ اس کتاب میں متعددی بیماریوں سے متعلق پہلی بار نہایت تفصیلی تحقیق شامل کی گئی تھی۔ ان بیماریوں کی علامات، ان کے اسباب اور ان کے علاج کے لیے دوائیں اور دیگر طریقہ ہائے کار کے بیان نے اس کتاب کو غیر معمولی اعتبار اور سند عطا کی۔ انٹرنیٹ کی وجہ سے کتاب کا مطالعہ بہت کم ہو چکا ہے۔ پاکستان میں مطالعہ کی صورتحال کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ ابن سینا سے جو استفادہ یورپ نے کیا ہے یہی کچھ ہمیں کرنا چاہئے بلکہ مسلم امہ کو کرنا چاہئے خصوصاً طب کے شعبہ میں۔ مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ارسطو کی اس بات سے اتفاق کیا کہ تپ دق ایک متعدد مرض ہے، جو ہوا کے ذریعے ایک شخص سے دوسرے کو منتقل ہو سکتا ہے۔ اس بات پر یورپ میں صدیوں تک بحث و مباحثہ رہا کہ وہ اسے متعدی تسلیم کریں یا نہ کریں۔ اس کے علاوہ ذیابیطس اور فالج جیسے امراض پر بھی ابن سینا نے گراں قدر تحقیقات سے یورپ نے بہت کچھ حاصل کر لیا ہے اب یہی کچھ مسلمانوں کو حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ ٭٭٭٭٭