فلپ پل مین نے کرپشن ‘ حسد ‘اقتدار کی ہوس اور ظلم کو شیطانی غلاظت کے ایسے گڑھے قرار دیا ہے جن میں گرے ہوئے حکمران اپنے غیر اخلاقی افعال ‘ناانصافی اور ظلم پر فخر کرتے ہیں۔ایسے سماج کے انجام کے بارے میں ہی حضرت علی ؓ نے فرمایا تھا کہ کفر کی حکومت تو قائم رہ سکتی ہے ظلم و ناانصافی کی نہیں۔اب اسے پاکستان کی بدقسمتی کہیے یا پھر پاکستانیوں کی شامت اعمال کا نتیجہ۔ قائد اعظم کی وفات سے قبل ہی پاکستان کی سیاسی اشرافیہ نے اقتدار کے لئے عوام کی تائید و حمایت کے بجائے سازش اور طاقت کے سہاروں کی طرف دیکھنا شروع کر دیا تھا۔سیاست دانوں نے جب جب جمہور کو نظرانداز کر کے سازش اور طاقت کے ذریعے نام نہاد جموریت قائم کرنے کی کوشش کی تو اس کی قیمت پاکستان اور پاکستانیوں کو ادا کرنا پڑی۔ہوس اقتدار کی وجہ سے ہی ملک دولخت ہوا۔ہوس اقتدار نے ہی سیاست میں کرپشن لوٹ مار اور لوٹا کریسی کے کلچر کو فروغ دیا۔عوام سیاسی عمل سے بے زاراور لاتعلق ہوئے اور اقتدار کے فیصلے ووٹ کے بجائے طاقتوروں کی پسند ناپسند اور سازشوں کے ذریعے ہونے لگے تو سیاستدانوں نے بھی عوام کی بہبود اور ملکی ترقی کے بجائے فیصلہ سازوں کی خوشنودی اور مل بانٹ کر کھانے کو سیاست کا محور بنا لیا۔ ملکی وسائل لوٹ مار کے لئے کم پڑے تو عالمی مالیاتی اداروں سے پاکستانی قوم کے نام پر قرض لے کر بیرون ممالک محل، جزیرے اور جائیدادیں بنائی گئیں۔پاکستان مقروض اور قومی خزانہ خالی ہوتا گیامگر حکمرانوں غیر ملکی اکائونٹ بھرتے گئے ۔غریب کی زندگی جہنم بنتی گئی۔ غریب فاقوں کے خوف سے اپنے بچے فروخت کرنے پر مجبور ہوئے غریب کی عزت چند سو کے لئے بازار میں بکنے لگی۔ ریاض خیر آبادی نے شاید ہی ایسے حالات کے بارے میں کہا تھا: مفلسوں کی زندگی کا ذکر کیا مفلسی کی موت بھی اچھی نہیں غریب فاقوں سے مرنے والے بچوں کے کفن کے لئے خیراتی اداروں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ باپ کرایہ نہ ہونے کی وجہ سے اپنے بچے کی لاش سائیکل اور گدھا گاڑی پر گھر لے جانے پر مجبور ہو تو اس سے حب الوطنی کے تقاضے کی امید کیونکر رکھی جا سکتی ہے؟ جب سماج بے حسی اور لاتعلقی کی اس نہج پر پہنچ جاتا ہے تو حکمران بھی جلے گھر کے کوئلے سمیٹنے لگتے ہیں۔ عام آدمی کے پاس دو ہی راستے بچتے ہیں‘ بغاوت یا فرار۔ پاکستانی سماج آج اسی صورتحال سے دوچار ہے۔ کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی دھمک نے سماج کے اجتماعی ڈھانچے کو اس قدرکھوکھلا کر دیا ہے کہ اجتماعی بغاوت ممکن نہیں۔ پاکستان کی 65 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔جن میں بھی اکثریت ناخواندہ یا نیم خواندہ ہے۔یہ اکثریت روزگار کے لئے مارے مارے پھر رہی ہے جس کی ہمت جواب دے دیتی ہے وہ خودکشی کر لیتا ہے یا جرائم پیشہ گروہوں کا حصہ بن جاتا ہے۔ جو تعلیم یافتہ ہیں وہ بھی نظیر باقری کی طرح دوہائی دے رہے ہیں: کھڑا ہوں آج بھی روٹی کے چار حرف لئے سوال یہ ہے کتابوں نے کیا دیا مجھ کو 65 فیصد نوجوانوں میں جن کو تعلیم کی نعمت نصیب ہوئی، وہ بھی اپنے نصیب کو پیٹ رہے ہیں۔وہ کہتے ہیں ناںکہ تعلیم انسان کو بزدل بنا دیتی ہے۔ یہ ڈاکٹر انجینئرسائنسدان ہتھیار اٹھانے کی ہمت نہیں رکھتے اس لئے ملک سے فرار کی راہیں تلاش کر رہے ہیں۔ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور بے یقینی کے باعث برین ڈرین کی صورتحال سنگین تر ہوتی جا رہی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق بیرون ملک جانے والے نوجوانوں کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2019ء میں 6لاکھ 25ہزار نوجوانوںنے مل چھوڑا تھا۔عمران خان کے اقدامات اور کوششوں کی وجہ سے 2020ء میں ملک چھوڑنے والوں کی تعداد میں خاطر خواہ کمی ہوئی اور 2021ء میں 2لاکھ 25ہزار نوجوانوں نے ملک چھوڑا۔پھر فیصلہ سازوں کو امر مجبوری حکومت تبدیل کرنا پڑی توسازش اور ہوس اقتدار کی چالوں نے نوجوانوں کی مایوسی کو انتہا تک پہنچا دیا۔رواں سال 7لاکھ 65ہزار نوجوانوں نے ملک چھوڑنے میں ہی عافیت جانی۔ 2022ء میں ملک چھوڑ کر جانے والوں میں 92 ہزار ڈاکٹر انجینئر آئی ٹی ماہرین اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد شامل ہیں جو نکل سکتے ہیں ناانصافی اور بے یقینی کے اس ماحول سے نکل رہے ہیں۔ جو باہر جانے کی استعداد یا وسائل نہیں رکھتے وہ کرپشن مہنگائی اور بے روزگاری کے جہنم میں جل رہے ہیں۔ سٹیٹ بنک کے اعداد و شمار کے مطابق تجربہ کار حکومت اور معاشی جادوگر وزیر خزانہ کے دور میں روپے کی قدر میں 35 فیصد کمی ہوئی ہے۔ادارہ شماریات اور عالمی مالیاتی اداروں کے مطابق ملک میں مہنگائی کی شرح 26.6فیصد ہے۔اقتصادی ماہرین کے مطابق اول کو روپے کی قدر اگر 35فیصد کم ہوئی ہو تو مہنگائی میں 26.6فیصد اضافہ کی منطق ہی ناقابل فہم ہے اگر ان اعداد و شمار کو درست تسلیم بھی کر لیا جائے تب بھی موجودہ معاشی بحران اور ڈیفالٹ کا خطرہ جو مہنگائی اور بے روزگاری کا طوفان لانے والا ہے۔ اس سے حکومت آنکھیں چرا رہی ہے۔تاجر برادری مستقبل قریب میں ایل سیز بند ہونے کی وجہ سے خام مال کی عدم دستیابی کے باعث غذائی اجناس یہاں تک کہ ادویات کی قلت کی خبر دے رہی ہے۔ آغاز 70روپے میں بکنے والے پیاز کی قیمت 400روپے تک پہنچنے سے ہو چکا۔ ان حالات میں حکمران بشمول صاحباںاختیار مستقبل کی پیش بندی کے بجائے اقتدار کے لئے سازشوں اور سودے بازیوں میں مصروف ہیں۔ایک بھرے میں سابق آرمی چیف یہ اعلان کرتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ سیاسی معاملات سے خود کو کنارہ کش کرنے کا حتمی فیصلہ کر چکی ہے تو چند ہفتے بعد ہی وزیر داخلہ پریس کانفرنس میں عوام کو یہ اطلاع دیتے ہیں کہ حکومت اور تمام ادارے یہ پکا فیصلہ کر چکے ہیں کہ عمران خان کو راستے سے ہٹانا ہے۔ وزیر داخلہ ہر قیمت پر عمران خاں کو جیل بھیجنے اور نااہل کرنے کے دعوے مسلسل کرتے آ رہے ہیں اب تمام اداروں کے اس سازش میں حصہ ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ فلپ پل مین نے یہ تو بتا دیا کہ ہوس اقتدار اور کرپشن شیطانی غلاظت کے گڑھے ہیں مگر یہ نہیں بتایا کہ اگر کوئی معاشرہ اس گڑھے میں دھنستا ہی جا رہا ہو تو پھر اس سماج کے افراد کیا کریں۔ فلپ نے بھی یہ فیصلہ شاید عوام پر چھوڑ دیا ہے!!