وزیر اعظم عمران خان نے حالیہ ضمنی انتخابات کے دوران عدم شفافیت اور بدنظمی کی شکایت پر این اے 75کے 20پولنگ سٹیشنوں پر دوبارہ پولنگ کی پیش کش کی ہے۔ وزیر اعظم نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ انہوں نے ہمیشہ شفاف اور آزادانہ انتخابی عمل کے لیے جدوجہد کی ہے اس لیے نظام کی شفافیت چاہتے ہیں۔ وطن عزیز میں جمہوری عمل کو جامد سرگرمیوں کا مجموعہ تصور کر لیا گیا ہے۔ اگرچہ وقفے وقفے سے مختلف جماعتوں کی حکومت رہی ہے لیکن معاشرے کو جمہوری بنانے پر توجہ نہیں دی گئی۔ نصاب میں ایسا کوئی مواد شامل نہیں جو بچوں کو اچھا ووٹر بننے کی تربیت دے۔ جمہوری اداروں سے کالج اور یونیورسٹی کے طلباء تک واقف نہیں۔ تعلیمی اداروں کے علاوہ معاشرہ اور سماجی ادارے نسل نو کی آگاہی کے لیے خاطرخواہ خدمات انجام دیتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں ان خدمات کی انجام دہی کو جمہوری عمل کی جزیات سمیت پیش نظر رکھتی ہیں۔ جمہوری لحاظ سے پھلتے پھولتے سماج میںسیاسی جماعتیں جس ڈھب پر کام کرتی ہیں اس میں رکنیت سازی بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ رکنیت سازی کے وقت سیاسی جماعتیں نئے آنے والے ہم خیالوں کو اپنا منشور پیش کرتی ہیں۔ پارٹی کے سینئر اراکین نئے ممبران کے سوالوں کا جواب دیتے ہیں۔ نچلی سطح پر پارٹی کارکنوں کو تنظیمی ذمہ داری سونپی جاتی ہیں۔ گلی محلے میں عوام سے رابطے کا کام یہ کارکن ہی کرتے ہیں۔ ان کارکنوں کے ذریعے انتظامیہ کی کارکردگی پر نظر رکھی جاتی ہے۔ یہ ایک جمہوری سماج کی تصویر ہے۔ افسوس کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں اور سیاسی کارکن یہ کام انجام نہیں دیتے۔یہاں سیاسی جماعتیں خاندانی اور شخصی بنیاد پر کام کرتی ہیں،پارٹی قائد جسے چاہے کوئی عہدہ عطا کر سکتا ہے،پارٹی کے اندر اختلاف رائے کا احترام موجود نہیں ہوتا اس لیے ہماری جمہوری روایات میں تشدد، دھاندلی اور مداخلت پروان چڑھے۔ دھاندلی اور تشدد صرف انتخابی عمل کو ہی متاثر نہیں کرتے بلکہ اس سے پورا سماج بد دلی، بیزاری اور ریاست مخالف ہو جاتا ہے۔ لوگ ریاستی اداروں سے رجوع کرنے کی بجائے طاقتور افراد کے ڈیروں پر حاضر ہو کر مسائل حل کراتے ہیں۔عوامی مینڈیٹ کو ریاستی مفادات کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے اور اس طرز عمل کو جمہوری حق قرار دینے کی ضد کی جاتی ہے ۔کراچی شہر میں 1985ء کے بعد جو کچھ ہوا وہ پوری قوم کے لیے سبق ہے۔ کراچی میںایک مخصوص جماعت کے امیدوار کو شاید ہی ایک لاکھ سے کم ووٹ پڑتے ہوں۔ مخالفین کو محض دوچار ہزار ووٹ ملتے۔ اس بھرپور مینڈیٹ کا یہ فائدہ ہونا چاہیے تھا کہ کراچی شہر کے مسائل حل ہوتے۔ ڈیڑھ کروڑ آبادی کے شہر کی حالت یہ ہو گئی کہ سرکاری اراضی پر بااثر افراد نے قبضہ کر لیا۔ کراچی کے مکینوں کی حالت اس المیے کے باعث مزید ابتر ہو گئی کہ صوبے کی حکمران جماعت شہری ووٹ کو اپنا مخالف سمجھ کر صفائی، صحت، سڑکوں اور ٹرانسپورٹ جیسے مسائل حل کرنے کو تیار نہیں۔ 2013ء کے عام انتخابات کے نتائج آئے تو تحریک انصاف نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔کئی جگہ سے انتظامیہ کی سرپرستی میں نون لیگ کی دھاندلی کے واقعات رپورٹ ہوئے، پیپلزپارٹی نے ان نتائج کو ریٹرننگ افسران کے نتائج قرار دیدیا۔ مولانا فضل الرحمان اور دوسرے سیاستدانوں نے بھی دھاندلی کی شکایت کی۔ یہ تاریخ کا اہم موڑ تھا جہاں سیاسی الزام تراشی اور سیاسی حکمت عملی کو الگ الگ کرنے کی ضرورت تھی۔ اس مرحلے پر صرف تحریک انصاف نے نتائج کے خلاف قانونی راستہ اختیار کیا۔ عمران خان نے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا لیکن ادارہ شکایت کا ازالہ نہ کر سکا۔ پارلیمنٹ میں معاملے کو اٹھایا گیا اور مایوسی سمیٹی۔عدالت سے رجوع کیا گیا تو وہاں سے بھی حوصلہ افزا جواب نہ ملا جس پر دھرنے کا فیصلہ ہوا۔ 126دن کے دھرنے کے بعد حکومت نے مذاکرات کے ٹی او آر طے کیے۔ عدالتی حکم پر چار حلقے کھولے۔ ان حلقوں میں متعدد شکایات درست قرار پائیں اور دھاندلی و بے ضابطگی کی تصدیق ہوئی۔ یہ عمران خان کی جدوجہد میں یہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھنے والا وقت تھا۔ وزیر اعظم بننے کے بعد ان کو اپنی جدوجہد مدنظر رکھ کر ایسے انتظامات کرنے چاہئیں تھے کہ کسی فریق کو دھاندلی اور تشدد کا موقع نہ ملتا۔ ہمارے ہاں انتخابی عمل الیکشن کمیشن کی نگرانی میں انجام دیا جاتا ہے۔ الیکشن کمیشن کے پاس اپنا عملہ ناکافی ہوتا ہے اس لیے انتخابات کے لیے ضلعی انتظامیہ، سرکاری اساتذہ ،محکمہ صحت اور ریونیو سٹاف سے مدد لی جاتی ہے۔ یہ لوگ لالچ یا خوف کے باعث ان امیدواروں کے آلہ کار بن جاتے ہیں جو غنڈہ گردی، جرائم کی سرپرستی اور قانون شکنی کی شہرت رکھتے ہیں۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے ٹکٹ تگڑے خاندانوں کو دیتی ہیں تا کہ دوسری جماعت کے طاقتور امیدوار کا مقابلہ کیا جا سکے۔ ان حالات میں پولیس اور انتخابی عمل میں معاونت فراہم کرنے والا عملہ بے بس دکھائی دیتا ہے۔ وزیر اعظم کی جانب سے ڈسکہ میں 20پولنگ سٹیشنوں پر دوبارہ انتخاب کی پیشکش معاملے کو خوش اسلوبی سے طے کرنے کا بہتر راستہ ہے۔ مسلم لیگ ن کے امیدوار کو اس پر غور کرنا چاہیے۔ یاد رہے کہ اس حلقے میں ادارے معاملات خراب نہیں درست کرنے کے لیے ہونے چاہئیں۔ ان اصولوں کی نفی کی گئی تو پھر پرامن انتقال اقتدار کی وجہ سے جمہوریت کو پسندیدہ نظام سمجھنے والے مایوسی کا شکار ہوں گے۔ یہ مایوسی سیاسی جماعتوں کی جگہ شدت پسند گروہوں کو آگے آنے کا موقع دے گی۔