دھند اور سموگ نے پنجاب میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ تواتر سے جاری اس فضائی آلودگی کی وجہ سے لاہو دنیا کا آلودہ ترین شہر بنتا جا رہا ہے۔ انسانی صحت کے لیے اس آلودگی کے خطرات تو سنگین ہیں ہی مگر اب انتخابی عمل بھی متاثر ہونے لگا ہے لہذاٰ اس اہم مسئلے کا حل نکال لینا چاہیے۔ دھند پورے پنجاب میں تھی لیکن ڈسکہ کے ضمنی الیکشن میں ٹرن آئوٹ 30 فیصد رہا۔ متنازعہ 20 پولنگ سٹیشنوں پر ٹرن آئوٹ 90 فیصد رہا ، عملہ انتخابی نتائج سمیت دھند میں کہیں کھو گیا۔ یہ وہ ’’سموگ‘‘ ہے جو ہمیشہ سے پاکستان کی سیاست پر چھائی ہوئی ہے اور اس کے خاتمے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ 1951ء کے جھرلو میں انتظامیہ بدنام ہوئی۔ 1970ء کے انتخابات فوج نے کروائے۔ کئی انتخابات عدلیہ کے زیرنگرانی ہوئے لیکن اب عدلیہ اور فوج انتخابی نگرانی سے معذرت کر چکے ہیں ۔ ڈسکہ کے ضمنی انتخابات میں 12 پولنگ آفیسرز سمیت انتخابی نتائج بھی غائب ہو گئے ۔ الیکشن کمیشن کو انتخابی نتائج روک کر کارروائی کا آغاز کر نا پڑا۔ کوئی الیکشن ایسا نہیں جس پر دھاندلی کا الزام نہ لگاہو۔ 35 پنکچر‘ 4حلقے اور اب 20 پولنگ سٹیشن۔ داستانیں زیادہ پرانی نہیں جو سیاسی جماعت ہار جاتی ہے وہ دھاندلی کا شور مچاتی ہے اور جو جیت جاتی ہے وہ اپنی جیت کو عوام کا اعتماد قرار دیتی ہے اور اگلی دفعہ ہارنے پر عوام کا اعتماد کھو دینے کو جواز سمجھنے کے بجائے پھر دھاندلی کا شور مچاتی ہے۔ ڈسکہ کا انتخابی المیہ پاکستان تحریک انصاف کے لیے تو چیلنج ہے ہی، الیکشن کمیشن اور اداروں کی ساکھ کے لیے بھی لمحۂ فکریہ ہے۔ بہت سے سوال پنجاب حکومت پر بھی اٹھتے ہیں کہ انتخابی عملہ ووٹوں کے تھیلوں سمیت لاپتہ ہوا اور آئی جی پنجاب سمیت تمام متعلقہ افسران کے نمبرز بند۔ کیا پنجاب حکومت ان افسران کے خلاف کارروائی کرے گی یا صرف ن لیگ کی جانب سے پولنگ سٹیشن کو یرغمال بنانے اور بعض سرکاری افسران کے ساتھ مل کر دھاندلی کا شور مچائے گی۔ 2013ء میں یہی شور مچاتے ہوئے تحریک انصاف نے پارلیمنٹ کے سامنے دنیا کا طویل ترین دھرنا دیا تھا اور 2018ء میں آر ٹی ایس کے بیٹھنے کا احوال بھی سب جانتے ہیں لیکن مولانا فضل الرحمن کے منع کرنے کے باوجود شہبازشریف اور بلاول بھٹو نے پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کرنے کے بجائے پار لیمنٹ کا حصہ بننا پسند کیا اور جمہوری عمل کا حصہ بنے۔ اس جمہوری عمل کی تاریخ بھی دلچسپ ہے۔ آئی جے آئی کیسے وجود میں آئی سب جانتے تھے لیکن 1988ء میں پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنائی اور پھر اگلی بار اپوزیشن بھی کی۔ مسلم لیگ ن تین بار اسی جمہوری عمل کا حصہ بن کر مسند اقتدار تک پہنچی اور عمران خان کو بھی 2013ء میں نوجوان قیادت کا فارمولا تیاگ کر منجھے ہوئے سیاسی کھلاڑیوں کو میدان میں اتارنا پڑا کہ جمہوری عمل کی مجبوریاں سب کو اقتدار کی خاطر ہر اصول کو بالائے طاق رکھنے پر آمادہ کر ہی لیتی ہیں۔ یہی وہ سب سے بڑا انتخابی و سیا سی سقم ہے جس سے ہر دھاندلی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ ان چند حلقوں کے ضمنی انتخابات سے کیا تحریک انصاف نوشتہ دیوار پڑھ پائے گی؟ شنید ہے کہ خیبر پختونخوا میں وزیراعظم سے ملاقات میں پاکستان تحریک انصاف کے 14 ارکان قومی اسمبلی جبکہ 6 ممبران صوبائی اسمبلی موجود نہیں تھے جبکہ نوشہرہ میں پاکستان تحریک انصاف کی پرویز خٹک کے حلقے میں شکست بھی پارٹی کے اندرونی اختلاف کی کہانی سنا رہی ہے۔ پی ڈی ایم اور پاکستان پیپلزپارٹی نے یوسف رضا گیلانی کو سوچ سمجھ کر میدان میں اتارا ہے اور ان کے کاغذات نامزدگی پی ٹی آئی کے اعتراضات کے باوجود منظور ہو جانے کو انہوں نے خود اپنے بیان میں اسٹیبلشمنٹ کی غیر جانبداری کی نشانی قرار دیا ہے اور شاید پی ٹی آئی کی بے قراری کی وجہ بھی یہی ہے کہ اسے سینٹ کے الیکشن سے دو مہینے پہلے اچانک ایوان بالا کے الیکشن خفیہ بیلٹ کے بجائے اوپن رائے شماری سے کرانے کا خیال آیا اور 26 ویں ترمیم ایکٹ کو پاس کروانے کی کوشش میں ناکامی کے بعد آرڈیننس کے ذریعے اس خیال کو حقیقت بنانے کا راستہ سجھائی دیا۔ پھر سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیاکہ حکومت آئینی ترمیم کے بغیر بھی سینٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کروا سکتی ہے۔ یہ بظاہر پاکستان تحریک انصاف کے احساس عدم تحفظ کے سوا اور کچھ نہیں۔ اندرونی اختلافات اس درجہ ہیں کہ پیر کو قومی اسمبلی کی کارروائی کے بعد کچھ اراکین نے واضح طور پر اپنے امیدوار حفیظ شیخ کی حمایت نہ کرنے کا اشارہ دیا جبکہ عامر لیاقت علی نے تو کھل کر حفیظ شیخ کو ووٹ نہ دینے کا اعلان کردیا۔ سننے میں یہ بھی آ رہا ہے کہ جہانگیر ترین بھی اپنے قرابت دار یوسف رضا گیلانی کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور وزیراعظم کی لاتعلقی کے بعد پیدا سرد مہری کو سینٹ الیکشن میں استعمال کر سکتے ہیں ۔ بہر حال3 مارچ کو یہ معمہ حل ہو جائے گا۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کو زرداری صاحب نے جمہوری عمل اور تحریک عدم اعتماد کا راستہ دکھایا ہے اور سینٹ انتخابات کو تحریک عدم اعتماد کی پہلی سیڑھی قرار دیا جارہا ہے۔سب جانتے ہیں مفاہمت کے بادشاہ زرداری ہر راستہ کھلا رکھتے ہیں اور سیاست میں ،کوئی دوست ہے نہ کوئی دشمن ،کی پالیسی پر عمل کرتے ہیں۔ ان سے غیر جانبداری کا وعدہ وفا ہو گا یا نہیں، تین مارچ کو یہ بھی واضح ہو جائے گا۔ اور یہ بھی کہ مارچ میں مارچ ہوگا یا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ مارچ کون کرے گا؟ پی ٹی آئی یا پی ڈی ایم؟