سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ وہ شخصیت ہیں، جنہیں رسول پر نور شافع یوم النشورصلی اللہ علیہ وسلم نے بارگاہِ خداوندی سے مانگ کر لیا تھا۔ آپ اعلان نبوت کے چھٹے سال 27 برس کی عمر میں حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔علامہ شبلی نعمانیؒ آپ رضی اللہ عنہ کی سیرت وکردار کے متعلق کیاخوب کہتے ہیں:’’تمام دنیا میں تاریخ ہمیں ایسا کوئی حکمراں نہیں دکھا سکتی جس کی معاشرت یہ ہو کہ قمیص میں دس دس پیوند لگے ہوں۔ جہاں جاتا ہو، اکیلا و تنہا چلا جاتا ہو۔ اونٹوں کے بدن پر اپنے ہاتھ سے تیل ملتا ہو، اورپھر یہ رعب ودبدبہ ہو کہ عرب وعجم اس کے نام سے لرزتے ہوں۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سفر شام میں سواری کے اونٹ کے سوا اور کچھ نہ تھا لیکن چاروں طرف شور مچ گیا کہ مرکز عالم جنبش میں آگیا ہے‘‘۔ آپ رضی اللہ عنہ آسمان عدالت وشجاعت پر آفتاب بن کر چمکے اور اسلام کوعالم تاب و ماہ تاب بنا دیا۔جب سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے کلمۂ شہادت پڑھا تو مسلمانوں نے نعرۂ تکبیر بلند کیا جس سے وادی مکہ گونج اٹھی۔ انسانی تاریخ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے پہلے کوئی ایسی شخصیت نہیں ملتی جس نے باقاعدہ سرکاری سطح پر اصول وضوابط کے تحت یہ محکمہ قائم فرمایا ہو۔ اس کے علاوہ بھی آپ نے معاشرے کی عمومی اصلاح اور بلدیاتی نظام کو قائم کرنے کیلئے بے شمار ایسے اقدامات کئے جو آپ سے پہلے تاریخ کاحصہ نہ تھے اور ان سب چیزوں کے باوجود آپ نے اپنا دورخلافت کسی بادشاہ یاڈکٹیٹر کی طرح نہیں بلکہ قوم کے سچے خادم کی حیثیت سے گزارا۔صلاحیتوں کی بنیاد پر قضاۃ وعمال کا تقرر، تقرر سے پہلے ان کیلئے اثاثوں کے ظاہر کرنے کی لازمی شرط عام لوگوں تک انصاف کی رسائی، شکایات کا فوری ازالہ، اقربا پروری سے مکمل اجتناب اور کسی بھی صورت میں ہونے والے ظلم وزیادتی کا فوری سدباب، احساس ذمہ داری اور آخرت میں جواب دہی کا تصور ’’عہد فاروقی کے نظام عدل‘‘ کے یہ وہ بنیادی اصول ہیں جنہیں اپنا کر دنیا آج بھی عدل وانصاف اور امن وآشتی کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے امور خلافت چلانے کیلئے مہاجرین وانصار کی مجلس شوری قائم کی ، اس حیثیت سے آپ اسلام کے شورائی نظام کے بانی ہیں ۔ ملک کو ڈویژنوں میں تقسیم کرکے ان پر حاکم اعلی اور گورنر مقرر فرمائے ۔ کاتب ، کلکٹر ، انسپکٹر جنرل پولیس ، افسر خزانہ ، ملٹری اکاو نٹنٹ جنرل اور جج وغیرہ کے عہدے مقرر کئے ۔ باقاعدہ احتساب کا نظام قائم فرمایا ۔ زراعت کی ترقی کیلئے نہریں جاری کیں ، تالاب بنائے ، ڈیم بنوائے اور آب پاشی کا ایک مستقل محکمہ قائم فرمایا۔ بنجر زمینوں کے آباد کاروں کو مالکانہ حقوق دئیے، سرونٹ کوارٹر ، فوجی قلعے اور چھانیاں ، سرائے ، مہمان خانے اور چوکیاں قائم کرائیں ۔ کوفہ ، فسطاط ، حیرہ اور موصل سمیت کئی عظیم الشان شہروں کی بنیاد رکھی اور انہیں آباد کیا ۔ فوج اور پولیس کے نظام میں اصلاحات کیں اور انہیں منظم کیا ۔ بہترین نظام عدل وانصاف قائم کیا ، جو ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے۔ مساجد کے آئمہ ، موذنین ، فوجیوں اور ان کے اہل خانہ ، اساتذہ وغیرہ کی تنخواہیں مقرر فرمائیں ۔ اس کے علاوہ مردم شماری ، زمین کی پیمائش کا نظام ، جیل خانے ، صوبوں کا قیام ، لاوارث بچوں کے وظیفے کا اجرا، مکاتب قرآنی کا قیام ، نماز تراویح کا باقاعدہ آغاز وغیرہ آپ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کی یاد گاریں ہیں ۔ بہت سے ایسے محکمے جوجدید دور کا خاصا سمجھے جاتے اور آج کل کی جمہوری حکومتوں میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ان کے بانی بھی دراصل سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہی ہیں۔آپ سے پہلے دنیا بھر میں کہیں بھی بیت المال یا قومی خزانے کا کوئی تصور نہ تھا۔ روم وفارس اور دنیا میں جہاں جہاں حکومتیں قائم تھیں وہاں بادشاہوں اور حکمرانوں کو بلاشرکت غیرے خزانوں کا مالک سمجھا جاتا تھا اور انہیں اس بات کا مکمل اختیار ہوتا تھا کہ وہ جیسے چاہیں اس خزانے میں تصرف کریں۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تاریخ انسانیت کے وہ پہلے حکمران ہیں جنہوں نے ’’قومی خزانہ قوم کی ملکیت‘‘ کا تصور پیش کیا اورصرف تصور ہی پیش نہیں کیا بلکہ اس پر عمل بھی کرکے دکھایا۔ خلافت کی ذمے داریاں سبھالتے ہی آ پ نے اس اہم ترین معاشرتی ضرورت کی طرف توجہ فرمائی اورباقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت عدالتی نظام قائم فرمایا،قاضیوں کو مقرر فرمایا اور خود اس کام کی نگرانی فرمائی۔ فوجی چھائونیوں کا قیام عمل میں لایا گیا، عارضی اور مستقل پڑائو مقرر کئے گئے، پرچہ نویس مقررکئے، دور دراز علاقوں میں جہاں مستقل چھائونیوں کی ضرورت تھی وہاں مستقل چھائونیاں قائم کی گئیں جو آگے چل کر بڑے بڑے متمدن شہروں میں بدل گئیں۔ کوفہ، بصرہ، فسطاط اور موصل وغیرہ اس کی روشن مثالیں ہیں جو آج تک موجود ہیں۔ پولیس کا محکمہ قائم کیا گیا۔ رضاکاروں کی تنخواہیں مقرر ہوئیں، دفتر مال قائم کیا گیا، گودا م بنوائے گئے۔ پیمائش کا طریقہ جاری کیا گیا، مردم شماری کرائی گئی، نہریں کھدوائی گئیں، نئے شہر آباد کئے گئے، ممالک کو صوبوں میں تقسیم کیا، دریائی پیداوار پر محصول لگایا گیا، حربی تاجروں کو ملک میں آنے اور تجارت کرنے کی اجازت دی گئی کہ بیرونی سرمایہ کاری مملکت میں لگے اور خوشحالی آئے ، جیل خانے قائم کئے گئے۔ راتوں کو گشت کرکے رعایا کا حال دریافت کرنے کا طریقہ نکالا،پرچہ نویس مقرر ہوئے، یتیم بچوں کی پرورش کیلئے وظیفے مقرر کئے گئے، مفلوک الحال غیرمسلموں کے وظیفے مقرر ہوئے، مکاتب قائم کئے گئے، معلموں ،مدرسوں اور طلباء کے وظیفے مقرر کئے گئے، مساجد میں روشنی کاانتظام کیا گیا، غرض یہ وہ سنہرا دور تھا کہ اگر ہمارا طرز حکمرانی اس طور پر ہو تو ہمیں کوئی اندرونی اور بیرونی خطرہ لاحق نہ ہو۔ تعلیم مفت نصیب ہوئی، اساتذہ، طلبائ، اماموں، مؤذنوں، فوجیوں وغیرہ اور ان کی اولاد کو باقاعدہ وظیفہ ملتا اور ان کے حقوق کی مکمل پاسداری کی جاتی۔