یہ تقریر فن خطابت اور متن کی فصاحت و بلاغت کاایک شاندار نمونہ ہے۔ کاش کہ او آئی سی کا ایک ہنگامی اجلاس بلایا جائے، جس میں 57 مسلمان ملکوں کے نمائندے موجود ہوں اور ایک بڑی سکرین پر اس ویڈیو کو سنایا بھی جائے اور دکھایا بھی جائے اور اس وقت تک یہ عمل دہرایا جائے جب تک ستاون اسلامی ملکوں کے نمائندوں کے ضمیر نہیں جاگتے۔ پھر ایک خیال آیا کہ عرب لیگ کے ممبر ملکوں کے نمائندوں کا ایک اجلاس ہو اور اس اجلاس کایک نکاتی ایجنڈا اسی تقریر کی سماعت گری ہو۔کیا خبر کے جذبہ ایمانی سے لبریز اس بچے کی یہ دہکتی ہوئی تاریخی تقریر مردہ ضمیروں پر کچھ اثر کر جائے۔ جب سے یہ ویڈیو دیکھی ہے ایک عجیب کیفیت ہے۔ 12 13 سال کے لڑکوں کا ایک گروہ فلسطینی جھنڈے کی قمیضیں پہنے کھڑا ہے پھر انہی میں سے ایک لڑکا ایک تمکنت اور توانائی کے ساتھ دو قدم آگے بڑھتا ہے اور دنیا کے اہل اختیار مسلمانوں کو خصوصا عرب حکمرانوں کو مخاطب کرکے ایک تاریخی خطبہ دیتا ہے۔ یہ تقریر خطابت کا ایک شاندار نمونہ ہے آواز کی تمکنت باڈی لینگویج ، اور تقریر کا متن جھنجھوڑ دینے والا ہے۔تقریر عربی زبان میں ہے اور اس پر مترجم کے طور پر اقبال حسین کا نام درج ہے ۔عربی کی فصاحت اور بلاغت کو اردو میں ڈھالنا ناممکنات میں سے ہے اور جو لوگ عربی سمجھ سکتے ہیں وہ اس تاریخی خطبے کا بھرپور متن سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ویڈیو آپ سرچ کر کے دیکھ سکتے ہیںترجمہ میں کالم کا حصہ بناتی ہوں اورمیںسمجھتی ہوں کہ پیغام ایسا ہے کہ جسے تحریر اور تقریر دونوں ہی صورتوں میں دنیا تک پہنچنا چاہیے۔ خطبے کا متن: کوئی ساحل نہیں بچا جہاں کشتیاں لوٹ جائیں، نہ کوئی ایسا ہوائی اڈا جہاں اداسی اترے،ہماری امیدیں ہی باقی ہیں جو ہمیں صبر عطا کرتی ہیں،تجھ سے منہ پھیر لیا گیا ہے اے شام،اے میری ماں جس کا میں نے دودھ پیا ہے۔ اے محبت کے مرکز کیا خبر اس کی کیا قیمت ہوگی،میں شرمندہ ہوں کہ زندہ ہوں جب کہ میری ماں نے کفن اوڑھ لیا ہے،کیا سبب ہے کہ میرا دل انکار کرنے لگا ہے،موت کو سلام کرو، جس میں زندگی اور سکون ہے۔ میں کیسے جی سکتا ہوں جب کہ میری رگیں زمین میں دب گئی ہیں،تو میرے پیاروں کے شہر مٹی ہو چکے ہیں کہاں جاؤں میں، پوری زمین مجھے دھتکار رہی !موت تو کتنی پیاری ہے۔ جب کوئی تیرے پاس شہید ہو کر آئے اور اس کا زخم وطن ہومیں نے غزہ کو الوداع کہا لیکن میں نے اپنا دل اس کی گلیوں میں چھوڑ دیااور میری یادیں اور میری روح دونوں کو اس ایک ہی بدن میں عافیت ملی ہے ۔ اور میں اپنے رب سے اپنے آنسوؤں کی کمی کی شکایت کرنے لگا ہوں تو وہ میرے دل میں پنہاں غم کے ترجمانی کو کافی نہیں ،وہ تمام لوگ جن سے مدد کی ہمیں امید تھی انہوں نے ہمیں چھوڑ دیا سو لکھوائے زمانے محلات والوں کے پیٹ خاک آلود ہوں ۔ یہ موٹے ہوتے جا رہے ہیں ان کی بے وقوفی اور بے حسی میں اور اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ صبح سوتے ہیں تو بے فکرمند ہوتے ہیں شام کو لیٹتے ہیں تو پھر بھی پریشان رہتے ہیں۔سکرینوں پر آکر قتل عام کی مذمت کرتے ہیں لیکن ان کے ہاتھ خون میں لتھڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ اے فرض کو ترک کرنے والے اور نفل پر قناعت کرنے والے ،قسم ہے اللہ کی روز قیامت ایسی سنتیں تیرے کام نہیں آئیں گی۔ اے فرض کو ترک کرنے والے اور نفل پر قناعت کرنے والے ،قسم اللہ کے روز قیامت سے سنتے تیرے کام نہیں آئیں گے،اے شام اگر خواب ہمیں بچا سکتے تو ہم بھی خواب دیکھتے ہیں لیکن یہ دھواں ہو جاتے ہیں ۔ تو اس جنگ کے سوا کوئی چارہ نہیں جس سے نبی ﷺ کا مقام اسرا طرح واپس لے سکیں،اسی سے فتنوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے ہم چاہتے ہیں کہ دنیا کو دوبارہ اپنے قبضے میں کر لیں۔اس لیے کہ اللہ کی عبادت کی جائے اور بتوں کی عبادت نہ کی جائے۔ ہم چاہتے ہیں ہمارا وطن وہی عزت حاصل کر لے،اور وہی دن لوٹ آئیں جب ہم ایک مٹی ہو کر امتحانوں کو ٹال دیتے تھے وہ دن جب یمن کو کوئی تکلیف پہنچتی تو دمشق اور بغداد چیخ اٹھتے ہم ہیں یمن۔ خوشی کبھی نہیں آتی اگر اس سے پہلے غم نہ ہوتا راز چاہے کتنا طویل کیوں نہ ہوئی ایک دن فاش ہو ہی جاتا ہے،بچے کے سامنے چاہے جتنی بھی خوراکیں رکھی جائیں اس کی پسندیدہ چیز دودھ ہی رہے گی،اس لیے میں اور میری طرح ہر مصیبت زدہ اس زمانے سے محبت کرتا ہے جو امتحانات سے خالی ہو۔میں اپنے گھر میں اطمینان کے ساتھ کیسے رہ سکتا ہوں۔ جب کہ میرے وطن کی بیٹیوں کے پاس رہنے کو گھر نہیں،اور میں کیسے دسترخوان سے لذت اٹھا سکتا ہوں جب کہ میرے وطن میں لوگ روٹی اور پنیر کو ترستے ہیں۔ جہاز و بم بر ساؤ !اے امت غضب ناک ہو جائو!سیاست دانوں مذمت کرو!اللہ تعالی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر تمہارا نگہہان ہے۔ اس لیے نہ دنیا سے خوف تھا اور نہ ہی غمگین ہو،زمین کا وطن کا دامن اس سے زیادہ کشادہ رہے گا۔ طبیب سے کہو کہ جب عمر کا سورج ڈھلنے لگے اور جب بجا لان پہنچے تو دعا کو کیا فائدہ ہے،اللہ آسمانوں اور زمینوں کے رب پر میرا توکل ہے،اسی پر میرا صبر ہے سب پوشیدہ اور ظاہر اسی کا ہے،ہر بد صورت پہلو کا خوبصورت طرف ضرور ہوتا ہے۔" بچے کا یہ خطبہ ایک فرض کفایہ کی طرح ہے ایسا لگتا ہے کہ ہم سب کے دل کی آواز ہے۔ فلسطین کی سرزمین پر صیہونی بربریت جاری ہے۔رمضان المبارک کے سحر اور افطار کے اوقات میں ہم اپنے دسترخوان پر بیٹھتے ہیں تو دل کٹ کے رہ جاتا ہے۔ نہ جانے عرب ملکوں کے عیاش حکمران کس بے حسی سے غزہ میں برپا قیامت کو نظر انداز کیے ہوئے سحری اور افطاری کے سجے ہوئے دسترخوانوں سے لذت کام و دہن کشید کرتے ہیں۔ محلات میں رہنے والو! تمہارے پیٹ خاک آلود ہوں ،یہ خطبہ نہیں ایک بپھرا ہوا سمندر ہے جو اہل دل اور اہل درد کو بہا لے جاتا ہے۔