بہت سے دن گزر گئے اور میں نہ کالم لکھ پائی نہ ڈھنگ سے کچھ پڑھ سکی۔ یہ تمام دن انتہائی خوشی بھری مصروفیت کے تھے۔ ہمارے سب سے چھوٹے بیٹے کی شادی تھی۔ بحیثیت ماں ہر چیز ہمیں کو دیکھنا تھی۔ خیر جسے کتابیں پڑھنے اور لکھنے کی جنون کی حد تک چاٹ لگی ہو اسے بے چینیاں ستاتی رہتی ہیں۔ اتنے ڈھیروں دنوں میں سیاست کے افق پر طرح طرح کے نئے پرندے اْڑانیں بھرتے رہے۔ کوئی اسمبلیاں توڑنے کا دانہ اپنی چونچ میں لیے پھینکنے کو بے تاب ہے۔ کوئی پکھیرو اپنی چونچ میں چھپے ہوئے رازوں کو آشکار کرنے کے دانوں کو زمین پر پھینکنا چاہتا ہے۔ مگر افسوس کہ کوئی بھی پرندہ ایسا نہیں جو اپنی چونچ میں پانی بھر کر لائے اور آگ بجھانے کی کوشش کرے۔ دوسری طرف ہمارے سیاست دان کہتے ہیں ہم اپنے ضمیروں کے خود تابع ہیں۔ جس کے آگے ہمارا دل کرے گا وہیں ہمارا ضمیر جھکے گا۔ بہت خوب! کیا شاندار خیالات ہیں۔ ریاست اور عوام جائے بھاڑ میں۔ تحریکِ انصاف کے رہنما فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ پرویز الٰہی صاحب کو 187ووٹ کی حمایت حاصل ہے۔ مزید ان کا کہنا ہے کہ ہمارے ایم۔ پی۔ ایز کو خریدنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ان کو مسلسل ٹیلے فون کالز آ رہی ہیں۔ جولائی کے ضمنی انتخابات میں سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی سمیت تمام اسمبلیوں کے اراکین پر یہ پابندی لگائی کہ اگرا اراکین اپنی سیاسی جماعت کی ہدایات کے الٹ اگر وہ اپنا ووٹ استعمال کریں گے تو نہ تو ان کا ووٹ گنتی میں شمار کیا جائے گا اور نا ہی وہ اسمبلی میں اپنی نششتوں پر رہ سکیں گے۔ وطنِ عزیز میں ہر لمحہ ایک نئی بحث چھڑی رہتی ہے۔ اس وقت پنجاب میں تحریکِ عدم اعتماد پر مباحثے جاری ہیں کہ تخت لاہور کس کا ہوگا؟ سیاسی جوڑ توڑ اور قانونی داؤ پیچ عروج پر ہیں۔ گورنر پنجاب نے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کریں۔ مئی 2022میں پنجاب میں حمزہ شہباز کی حکومت بنانے کے لیے تحریکِ انصاف کے کئی ایم پی ایز کو ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے منحرف کروایا گیا۔ جن لوگوں نے حمزہ کو ووٹ دیے وہ عدالتی فیصلوں کی جانب سے نا اہل قرار دیے گئے اور ان کی سیٹیں خالی ہو گئیں۔ جولائی میں ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی نے دوبارہ سے وہ سیٹیں جیت لیں۔ پی ڈی ایم عدم اعتماد کی تحریک کے لیے اپنے کارڈ جمع کر رہی ہے۔ مسلم لیگ ن نے ان 18اراکین اسمبلی جن پر موجودہ توڑ پھوڑ کا الزام تھا سپیکر پنجاب اسمبلی نے پابندی عائد کر رکھی تھی اب عدالت کے سامنے ان لوگوں کو اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنے کی استدعا کی ہے۔ ادھر عدالتی فیصلے کے بعد مسلم لیگ ن نے مسلم لیگ ق کو عمران خان سے اتحاد ختم کرنے کو کہا ہے۔ لیکن پرویز الہٰی کہتے ہیں کہ دل و جان سے عمران خان کا ساتھ دیں گے۔ پچھلی مرتبہ کی طرح زرداری اس دفعہ بھی شجاعت حسین اور سالک حسین سے مشاورت کرتے پھر رہے ہیں۔ یوں اگر ق لیگ کا اتحاد تحریکِ انصاف سے برقرار رہتا ہے تو مسلم لیگ ن عدم اعتماد کی تحریک منظور کروانے میں پوری طرح ناکام ہو جائے گی۔ پاکستان میں آئین سازی ابتدا ہی سے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ پاکستان میں تین آئین بنے۔ ایک 1956ء میں دوم 1962ء میں سوم 1973ء میں کسی بھی ملک کے لیے ایک سے زیادہ آئین بنانا غیر معمولی بات ہے۔ بہت سے آئین اور پھر ان میں بیشتر ترامیم پاکستان میں سیاسی عدمِ استحکام کی روشن دلیل ہے۔ آئین کا بنیادی مطلب ان اصولوں کا احاطہ ہے جن پر مملکتِ خداداد کی حکومت کام کرے۔ یعنی آئین ایک ایسا بنیادی قانون ہے جس سے مزید قوانین جنم لیتے ہیں۔ وطنِ عزیز میں مذہب اور صوبائی خود مختاری نے آئین سازی کو ہمیشہ ایک مسئلہ بنائے رکھا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پنجاب اسمبلی کو سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھانا کسی طور پر عقل مندی نہیں ہے۔ پی ڈی ایم کی ایک جماعت کے پاس سندھ کی حکومت ہے لیکن مسلم لیگ ن کے پاس وفاق کے علاوہ کہیں اور اقتدار نہیں ہے۔ 2022کا سال ختم ہوا چاہتا ہے مگر ملک بھر میں کہیں سیاسی استحکام دکھائی نہیں دے رہا۔ جب سے ملک معرضِ وجود میں آیا ہے کسی بھی حکومت نے آج تک اپنی آئینی مدت پوری نہیں کی۔ کوئی نہ کوئی وجہ بنا کر حکومت کا تختہ اْلٹا دیا جاتا ہے۔ کسی بھی ملک کی معیشت کا فروغ اس کے سیاسی استحکام پر منحصر ہوتا ہے۔ جب ریاست کی آمدنی اور لگان وغیرہ تک اللے تللے میں اڑا دی جاتی ہے تو پھر آئی۔ ایم۔ ایف اور دیگر ممالک کے قرضے کس طرح ادا ہو پائیں گے۔ جہاں ساری سیاست سرمایہ داروں اور حکمرانوں طبقے کے ہاتھ میں ہو وہاں جمہوریت کی بات کیسے ہوگی؟ زنگ سے لپٹے ہوئے اس آلودہ نظام میں حقیقی طور پر ایک جمہوری سیاسی پارٹی کا قیام از حد ضروری ہے۔ کبھی خیال آتا ہے کہ بھٹو اور شریف خاندان جو اپنی اپنی باریاں لیتے رہے قرض اتارو ملک سنوارو، روٹی کپڑا اور مکان، توشہ خانہ اور ملکی مسائل وغیرہ سے ہٹ کر اگر عوام کے مسائل پر توجہ دی جاتی تو آج ملک ترقی کی شاہراہوں پر بگٹٹ دوڑ رہا ہوتا۔ عوام نے ہمیشہ اپنے حکمرانوں پر اعتماد کیا مگر باوجود اس کے عوام اور سیاست بازوں کے درمیان جو خلیج ہے وہ پْر نہیں ہو سکی۔ ملک کی طرف بڑھتے ہوئے خطرات کو ہم کیسے برداشت کریں کہ ہمارا اعتبار بھی قائم رہے۔ حوصلہ بھی رہے اور ہر ہم وطن کو انصاف بھی ملے۔ سماج میں موجود طبقاتی فرق اور آپس کا کنھچاؤ کہیں مساوات نہیں آنے دیتا۔ آخر میں بغداد کی تاریخ یاد آ رہی ہے جب ہلاکو خان نے بغداد کا محاصرہ کیا تو وہاں اس وقت بحث چل رہی تھی کہ کوا حلال ہے یا حرام۔ اس وقت ہمارے یہاں بھی ایسا ہی ہے کہ وزیرِ اعلیٰ آئینی ہے یا غیر آئینی۔