سال2016 ￿ میں ریاستی مشینری پوری قوت کے ساتھ حکمران خاندان کے خلاف بروئے کار تھی۔شنید یہی ہے کہ سال 2016 ء میںبھی اہم تعیناتی حکمران خاندان کی اُس قدیم خواہش کا مظہر رہی کہ جس کاذکر معروف سکالر شجاع نواز نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’دی کراسڈسوورڈز‘ میں تکرار سے کیا ہے۔عام مڈل کلاس پاکستانیوں کی طرح ادارے کے اندر بھی چند خاندانوں کی حکمرانی سے متعلق اکتاہت مگر اس قدر زیادہ تھی کہ توقعات پر پورا اترنا ممکن نہ ہو سکا۔ حریف سیاسی جماعت اس وقت مقتدرہ کے ساتھ شیروشکر تھی۔سال 2018ء کے عام انتخابات کا انعقاد اسی ماحول میںہوا تھا۔سال 2018 ء میں حکومت بنتے ہی شریف خاندان سے بظاہر محاذ آرائی مگردرونِ خانہ بات چیت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔مارچ 2019 ء میں دھرنے کی پشت پناہی، نتیجے میں لندن روانگی، اور زورو شور سے شروع ہونے والے احتساب کے طوفان کا تھم جانا۔بعدازاں لندن میں ملاقاتیں، مدتِ ملازمت میں توسیع کے لئے مذاکرات،حسین حقانی نیٹ ورک کی سرگرمیاں، اندرونِ ملک مغرب زدہ لبرلز کا غیر معمولی طور پرمتحرک ہوجانا،افغانستان سے امریکہ کی پسپائی، یوکرین کی جنگ اور پھر اپریل 2022ء کی تحریکِ عدم اعتماد، سب کڑیاں باہم ملتے چلی جاتی ہیں۔اپریل 2022 ء سے 9مئی تک کے مہینے تو ابھی ہماری آنکھوں کے سامنے زندہ کھڑے ہیں۔سٹیون لیوٹسکی اور ڈینئل زیبلاٹ جیسے سکالرز بتاتے ہیں کہ جب سیاست دان ایک دوسرے کو ملک دشمن ، دہشت گرد اور فتنہ قرار دے کر ایک دوسرے کا سرقلم کرنے کو نصب العین بنا لیں تو اس کا نتیجہ کچھ اورنہیں’جمہوریت کی موت‘ ہوتاہے۔چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ حکومتی للکار کہ ’اب تم نہیں، یا ہم نہیں‘ جمہوریت کے قتل کی منادی تھی۔ سیاسی کارکنوں اور احتجاج کے لئے نکلنے والے عام شہریوں پرنا قابلِ بیان ریاستی تشدد اورگرفتاریوں سے شروع ہونے والا سلسلہ، عوام کے حقِ رائے دہی سے انکار کے بعد9 مئی تک جا پہنچا۔ اگرتحریکِ عدم اعتماد سے پہلے کے چار برس ’نیم جمہوری ‘ (Hybrid)تھے، تو کہا جا سکتا ہے کہ اپریل 2022ء سے 9 مئی تک کاعرصہ جمہوری لحاظ سے ایک تاریک دور تھا۔ 9مئی کا سیاہ دن اب ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ آج نہیں تو کل مؤرخ کئی سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کے لئے تانے بانے جوڑے گا تو ان دنوں اورہفتوں کی داستان بھی لکھے گا ۔ ادارہ جاتی طیش کی آڑ میں جب سیاسی مخالفین کے گھروں پر حملے کئے گئے۔کاروبار تباہ ہوئے۔پارٹی کی پہلے دوسرے درجے کی قیادت روپوش ہو گئی، یا تائب ہو کر گھر جا بیٹھی۔ اکثردوسری جماعتوں میں جا ملے۔ ہزاروں کارکن پابندِ سلاسل ہو گئے۔انتخابات کا حتمی اعلان مگر اسی وقت ہوا جب انصاف کے مندر میںبڑی تبدیلی آگئی۔لیڈر جیل میں تھا۔پارٹی کی تنظیم کا شیرازہ بکھرچکا تھا ۔ مین سٹریم میڈیا پر مئوقف تو کیا ،نام تک لیناجرم تھا ۔تجزیہ کاروں سے اکثر سننے کو ملتا کہ جماعت کا زمین پر کوئی وجودباقی نہیں بچا، سب شور ٹویٹر اور ٹِک ٹاک پر ہے۔پھرفیصلہ ہوا کہ الیکشن سرکاری افسروں کی نگرانی میں ہوگا۔ ہائی کورٹ میں فریادکی گئی تو سپریم کورٹ نے کسی فیصلے کا انتظار کئے بغیربیک جنبشِ قلم کارروائی روک دی۔ الیکشن مہم کا آغاز ہوا تو شیر میدان میں گرجنے لگا۔ تیر گلی گلی برسنے لگا۔ پارٹی کو جلسے جلوس کیا، کارنر میٹنگ یا پریس کانفرنس تک کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ سپریم کورٹ کے ایک اورفیصلے نے پارٹی کے انتخابی تابوت میں آخری کیل ٹھونکی جب پارٹی سے اس کا انتخابی نشان چھین لیا گیا۔ پارٹی کے ہزاروں امیدوار رنگ برنگے مضحکہ خیز انتخابی نشانات کے ساتھ میدان میں اترے۔ سیاسی پنڈتوں کی اکثریت عام پاکستانیوں کی طرح ذہنی طور پر میاں صاحب کو چوتھی بار وزیراعظم قبول کر چکی تھی۔ انتخابات کو محض ایک رسمی کاروائی کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔دانشور جو دیکھ نہ سکے وہ کچھ اور نہیں دلوں پرتہہ در تہہ جما غبار تھا ۔نوجوانوں کی رگوں میں دوڑتا تازہ خون تھا۔ وہ صاحب کہ جو سپین میں بیٹھ کر اپریل 2022ء سے پہلے آئین و قانون کی حکمرانی اورسویلین بالادستی کے گیت انگریزی اخبار میں ہر اتوار بلا ناغہ لکھتے تھے ،گذشتہ بائیس مہینوں سے بیٹھے اِدھر اُدھر کی ہانکتے رہے ہیں۔ انتخابات سے چند روز پہلے آخری اتوار کے کالم میں انہوں نے لکھا کہ پی ٹی آئی کے ووٹر کاگھر سے نکلنے کا محض ایک آدھ فیصد امکان ہے۔ نکل آیا تو ایک معجزہ ہو گا۔ معجزہ ہو گیا تو ہم اسے’ جمہوریت کی خوبصورتی ‘کہیں گے۔پھر دنیا نے دیکھا 8 فروری کے دن معجزہ برپا ہو گیا ۔دنیا نے دیکھا کہ 8فروری کے دن ہمارے ہاںجمہوریت اپنی تمام تر آب وتاب کے ساتھ پورے جوبن پرکھڑی تھی۔ 8فروری کے بعدفارم 45اور فارم47کا بہت غلغلہ ہے۔ انتخابات میں سب سے بڑا گروہ بن کر ابھرنے والی سیاسی جماعت ایک غیر معروف شناخت اپنانے پر مجبور ہے۔ عوامی مینڈیٹ سے رو گردانی اور سیاسی بے یقینی کا سبب کچھ اور نہیں سپریم کورٹ کے وہی دو فیصلے ہیں، بالترتیب سرکاری افسروں سے انتخابات کروائے جانے پر اصرار اور انتخابی نشان کا چھینا جانا۔ سوشل میڈیا نے عام پاکستانی کو جو آگہی اورقوت اظہار عطا کی ہے، اس سے انہیں محروم کئے جانے کے لئے بسا اوقات حیران کن اقدامات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ٹویٹر اب کئی روز سے بند ہے۔ انگریزی اخبار کے صفحہ اول پر چھپنے والی تصویر میں چند افراد رات گئے آپس میں مل بانٹنے کے بعد ایک میز کے پیچھے تھکے ہارے بیٹھے دکھائی دیتے ہیں۔ عقب میں دیوار پرٹنگی بڑی تصویر کے نیچے جلی حروف میں لکھا ہے،’طاقت کا سرچشمہ عوام۔‘اسی اخبار کے اسی صفحے پر اس تصویر کے نیچے ایک اور تصویر میں سراپا احتجاج عوام کا سمندرٹھاٹھیں مارتا دکھائی دیتا ہے۔ 8فروری والے دن جمہوریت اگر اپنی تمام تر رعنائی کے ساتھ جوبن پر تھی توانگریزی اخبار کے صفحہ اول پر چھپی دو تصویریں جمہوریت کادوسرا چہرہ دکھاتی ہیں ۔ 8فروری کو جو ہوا ، وہ پہلی بار ہوا ہے۔لیکن اس کے بعد سے جو کچھ ہو رہا ہے وہ بہت پہلے سے ہوتا چلا آرہا ہے۔بتایا تو کچھ اور جاتا ہے ، ازکارِ رفتہ سپاہی کے دل میں امیداب بھی زندہ ہے کہ کہیں نہ کہیں یہ ادراک ضرور پیدا ہوگا کہ عوامی امنگوں سے تادیر لا تعلق رہنا ممکن نہیں۔اندازہ یہی ہے کہ کچھ بدگمانیاں آڑے آتی ہیںتووہیں شاید یہ گمان بھی باقی ہے کہ معیشت کو ایک بار مستحکم کرنے کی سر توڑ کوشش کر کے دیکھ لیا جائے تودل بدل جائیں گے ۔سب صاحب بصیرت لوگ ہیں۔کیا جانتے نہیں کہ غیر ملکی امدادوہی دوا ہے جسے ہم 76 برسوںسے آزما رہے ہیں؟ اندازہ تو یہ بھی ہے کہ کہیں نا کہیں یہ احساس بھی ضرور کلبلاتا ہوگا کہ چوری کے مال پر استوار عام کاروبار ہو یا کاروبارِمملکت، خیر و برکت اور استحکام سے محروم ہی رہتے ہیں۔