ڈنکی روٹ پر نکلے ہوئے باقر کو تیسرا سال ہے۔وہ ابھی راستے میں ہے۔ وہ ستر پچھہتر لڑکوں کے ساتھ یورپ پہنچنے کا خواب لے کر نکلا تھا۔اس کے ساتھ جانے والے سارے ناکام، نامراد واپس لوٹ آئے ہیں۔ان میں بہت سارے ذہنی مریض ہیں اور روزمرہ کی زندگی اور روزمرہ کے امور تک انجام دینے سے قاصر اور زیر علاج ہیں۔ بہت سے ایسے بھی ہیں جو دوبارہ رقم کا بندوبست کر کے ڈنکرز کے ذریعے اسی ڈنکی روٹ پر نکل گئے ہیں۔ باقر تین سال سے ترکی کے شہر استنبول میں ایک مہربان ترک کے گھر مقیم ہے۔ اس نے ابھی ناکام واپس لوٹنے کا ارادہ نہیں کیا۔اس کے دوستوں نے کہا بھی ہے کہ ادھر رکنے سے بہتر ہے واپس پاکستان آ جاؤ کہ "جگ جیوندیاں دا میلہ" ہوتا ہے۔جان ہے تو جہان ہے۔ وہ دو دفعہ ترکی کی ماکو پہاڑیاں کراس کرنے کی کوشش میں ناکام ہو چکا ہے۔لیکن Lovelyاٹلی پہنچ چکا ہے۔اس کی بحیرہ روم کے مغربی ساحل پر لطف اندوز ہونے کی ایک وڈیو وائرل ہے جس میں وہ وکٹری کا نشان بناتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ دیکھو وہ آخر کار یورپ پہنچ چکا ہے۔ Lovely اور باقر دو سمبل ہیں۔وہ پاکستان کے کسی حصے سے متعلق ہو سکتے ہیں۔وہ چار صوبوں کے کسی شہر ،کسی دیہات ،کسی گوٹھ ،کسی گاؤں میں پیدا ہو سکتے ہیں اور ڈنکی روٹ کے دوران کسی ملک کی گولی کا نشانہ بن سکتے ہیں۔وہ گولی سے بچ بھی سکتے ہیں اور یورپ کے کسی ملک میں پہنچ بھی سکتے ہیں۔اس ڈنکی روٹ پر اب افغانستان سے آئے افغانیوں کے بچے بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ڈنکی روٹ کو موت کا سفر کہا جاتا ہے۔اس میں جانے والوں کو منزل تک پہنچنے میں بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس میں نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے۔ یہ سفر پنجاب کے گوجرانوالہ ڈویژن سے شروع ہوتا ہے اور پاکستان کے بلوچستان، افغانستان، ایران، ترکی سے ہوتا یونان تک جاتا ہے۔یونان بھی آخری منزل نہیں ،آخری منزل اٹلی ہے جہاں اب Lovely پہنچ چکا ہے۔باقر مگر ابھی ترکی میں ہے اور ایک مہربان ترک خاندان کا بن بلایا مہمان ہے۔ Lovely باقر اور ان جیسے لاکھوں بے روزگار نیم خواندہ نوجوان اپنی زندگی داؤ پر لگا کر ڈنکی روٹ اختیار کرتے ہیں۔اس ڈنکی روٹ کا انتظام کرنے والے ڈنکرز کہلاتے ہیں۔یہ ڈنکی روٹ کیا ہے۔یہ پاکستان سے غیر قانونی طور پر بارڈر پارکرتے ہوئے یونان اور اٹلی تک پہنچنے کا مہیب، خطرناک اور جان لیوا سفر ہے۔ڈنکی روٹ پر جانے والے کون ہوتے ہیں۔یہ نوجوانوں کا وہ گروہ ہے جسے پاکستان میں کسی قسم کے منصفانہ نظام کی توقع نہیں ہے۔یہ حالات کے جبر کا شکار نوجوان ہیں جن کی عمر چودہ سے پچیس تیس سال کے درمیان ہوتی ہے۔معاشرے میں روزگار, تعلیم اور دیگر سہولیات کی عدم فراہمی انہیں اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ وہ کسی طرح اس چکی کے دو پاٹوں کے بیچ سے گزرتے ہوئے شب و روز کے زندان سے ہمیشہ کے لیے نکل سکیں۔ان نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد بوسنیا ترکی, ایران, مقدونیہ اور یونان کی سرحدوں پر بے رحم موت کا شکار ہو جاتی ہے: نہ دست و ناخن قاتل نہ آستیں پہ نشاں نہ سرخی لب خنجر نہ رنگ نوک سناں باقر کے ساتھ جانے والے سارے نوجوان ناکام واپس آ چکے ہیں۔ وہ ایران سے ماکو کی پہاڑی کراس نہیں کر سکے۔ نوجوان جن کو بچے کہنا زیادہ مناسب ہے ،ان کے مطابق ترکی کا بارڈر کراس نہ کرنے کی صورت میں اگر واپس اپنے ملک آنا چاہیں تو ڈنکرز کو دوبارہ رقم پہنچائی جاتی ہے۔ پھر ان کو واپسی کی اجازت دی جاتی ہے۔عدم ادائیگی کی صورت میں نہ باقر ترکی میں رہ سکتا ہے نہ Lovely اٹلی پہنچ سکتا ہے۔ ڈنکی روٹ اصل میں انسانی سمگلنگ کا دوسرا نام ہے۔اس انسانی سمگلنگ کا مشہور زمانہ راستہ پنجاب, کوئٹہ , تافتان, زاہدان, شیراز, تہران, ماکو اور وان ہے۔یہ چار ممالک کا سفر ہے اور اس میں مہینوں سے لے کر کئی برس صرف ہو سکتے ہیں۔ ان چار ملکوں بلکہ بلقان روٹ کی ریاستوں تک ان ڈنکرز کو پیسے بھیجے جاتے ہیں۔معلوم ہوا ہے کہ بوسنیا میں پاکستانی نوجوانوں کا ایک جم غفیر ہے جو روزانہ بارڈر کراس کرنا چاہتا ہے مگر ناکامی پر رات کو واپس آ جاتا ہے۔بوسنیا میں پاکستانی سفارت خانہ ان پر مہربان ہے۔ ان کے قیام کے لیے ایک جگہ مخصوص ہے جہاں وہ رات گزارتے ہیں اور اگلے دن دوبارہ قسمت آزمائی کے لیے سرحدوں پر پہنچ جاتے ہیں۔سفارت خانہ ان کو ڈی پورٹ کرنے کی مفت سہولت کی آفر بھی کرتا ہے۔ستم ظریفی ہے کہ یہ سہولت اور آفر نہ باقر نے قبول کی اور نہ Lovely نے۔ان کا مقصد حیات ہی یہی ہے کہ کسی طرح یورپ میں داخل ہو جائیں۔وہ کسی صورت واپس پاکستان آنے کا رسک نہیں لیتے۔تیرہ سال کی عمر میں باقر نے پاکستان چھوڑا تھا۔اسے یقین ہے کہ وہ ایک دن یونان پہنچ جائے گا۔وہاں اٹھارہ سال سے کم عمر ہونے کی وجہ سے وہ خصوصی سلوک کا مستحق ہو گا۔اسے جیل نہیں بھیجا جائے گا بلکہ اس کی تعلیم کا بندوبست تک یورپ کا ہر وہ ملک کرنے کا پابند ہے جہاں وہ کسی طرح داخل ہونے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ Lovely کا ہمیں علم نہیں کہ وہ کہاں کا رہنے والا ہے ۔باقر کا ہمیں پتہ ہے کہ اس کا خاندان اس کی تعلیم اور روزمرہ کے اخراجات برداشت کرنے سے قاصر تھا۔ یہ دو نوجوان پاکستان کی سماجی اور معاشی صورت حال کی مکمل تصویر ہیں۔Lovely وائرل ویڈیو میں وکٹری کا نشان بنا کر کہہ رہا ہے دیکھو وہ اٹلی میں ساحل سمندر پر مزے کر رہا ہے۔اس کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اسے کسی کے ٹیوب ویل پر نہانے کی بھی اجازت نہیں تھی۔چھوٹی چھوٹی آزادیوں سے محرومی ہمارے نوجوانوں کو دیس نکالا دے رہی ہے۔