پاکستان کے بارے میں ناگزیر اور پائیدار فیصلے کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے یہ Now or Never والی صورت حال ہے۔ ہم نے نت نئے تجربات کر کے اپنا حلیہ بگاڑ لیا ہے۔ ہم اگر ایک تجربہ گاہ نہیں ہیں بلکہ ایک قوم ہے جو ایک ملک میں رہ رہی ہے، تو ہمیں طویل المدتی فیصلے کرنا ہوں گے ۔ ایڈ ہاک ازم کی اب ہمارے پاس کوئی گنجائش باقی نہیں بچی۔پاکستان کا قیام بیسویں صدی کا ایک منفرد تجربہ تھا۔ لیکن پاکستان بہر حال کوئی تجربہ گاہ نہیں تھی،یہ ایک نعمت تھی اور ہم اس کا حق ادا نہیں کر سکے۔ سوال اب یہ ہے کہ ہم نے مزید اسے ’تجربہ گاہ‘ بنائے رکھنا ہے یا 75 سال کے تجربات کی روشنی میں کوئی واضح لائحہ عمل تیار کرنا ہے؟ پاکستان مختلف حوالوں سے ایک منفرد ملک تھا۔یہ اگر چہ رائج مغربی تصور جمہوریت کے تحت ایک نیشن سٹیٹ بھی تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ اسلامی تصور حیات کے تحت ایک اسلامی ریاست بھی تھی۔ یہ فکر کی دنیا میں ایک منفرد منزل تھی۔یعنی پاکستان ایک جمہوری ریاست تھی اور جمہوری ریاست کا تصور بے شک مغربی تھا لیکن پاکستان کا تصور جمہوریت مغربی نہ تھا بلکہ اس میں جمہوریت اسلام کے تابع تھی۔ چنانچہ پاکستان میں پارلیمان فیصلہ ساز تو قرار پائی مگر اس کے اختیارات اللہ کی امانت قرار دیے گئے۔ یہ تو طے ہوگیا کہ پارلیمان ہی کے پاس فیصلہ سازی کی ساری قوت ہو گی لیکن یہ بھی طے ہو گیا کہ پارلیمان فیصلہ سازی میں کامل اختیار نہیں رکھتی بلکہ ریاست پاکستان میں اقتدار اعلی اللہ کے پاس ہو گا اور حاکمیت بھی اللہ کی ہو گی ۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی واضح کر دیا گیا کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست تو ہو گی لیکن یہ تھیوکریسی نہیں ہو گی۔ حاکمیت اللہ ہی کی ہو گی لیکن خدا کی منشاء کے تعین کا اختیار کسی مذہبی شخص کے پاس نہیں ہو گا۔ نہ ہی کوئی یہاں نائب اللہ ہو گا۔ خدا کے حکم کے مطابق فیصلہ ہو گا لیکن فیصلہ عوام کی منتخب پارلیمان کرے گی۔ ایسا منظر نامہ دنیا میں پہلے کہیں نہیں تھا۔ یا تو تھیوکریسی تھی یا سیکولرزم تھا ۔ ان دو انتہائوں کے بیچ پاکستان اپنی نوعیت کا ایک منفرد واقعہ تھا۔یہ پہلا تجربہ تھا کہ مغرب کے مروجہ جمہوری نظام کو اختیار کرتے ہوئے اسلام کے دائرہ کار میں ایک ریاست تشکیل پا رہی تھی۔ یہاں اجتماعی زندگی تو اسلام کے اصولوں کے مطابق گزارا جانا طے ہوا مگر اسلام کی تعبیر پر کسی خاص گروہ کا حق تسلیم نہیں کیا گیا۔ اسی فکر کو اقبال نے عملی شکل دی جب انہوں نے کہا کہ فیصلہ سازی کی جہت تلاش کرنے کا کام اجتہاد ہی کے ذریعے ہو گا لیکن انہوں نے کہا کہ نئی ریاست میں اجتہاد تو ہوگا اور نظام زندگی اسلام ہی کے مطابق ہو گا مگر تعبیر دین میں پاپائیت یا ملائیت نہیں ہو گی بلکہ یہ پارلیمان ہو گی جو اجتہاد کرے گی۔ یعنی اقبال کا پارلیمان کا تصور یہ تھا کہ یہاں صاحب علم بیٹھے ہوں گے جو ملک کو درپیش معاملات کا حل قرآن و سنت کی روشنی میں تلاش کریں گے اور تعبیر دین میں انہی کی رائے کو قانون کا درجہ حاصل ہو گا۔ قیام پاکستان کی عملی جدوجہد میں قیادت کا منصب قائد اعظم کے پاس تھا اور ریاست کے فکری اور مذہبی خدوخال کے تعین میں یہ منصب بہت پہلے سے اقبال کے پاس تھا۔المیہ یہ ہوا کہ ہمارے پاس ان دونوں شخصیات کا کوئی متبادل نہ تھا۔ مسلم لیگ کے پاس ایسے افراد ہی نہیں تھے جن پرعلم و فکر کی تہمت دھری جا سکے۔قائد اعظم کے بعد سیاست بازیچہ اطفال بن گئی اور اقبال کے بعد مسلم لیگ میں کوئی ایسا نہ تھا جو فکری رہنمائی کرتا۔چنانچہ پاکستان نہ حقیقی معنوں میں ’اسلامی‘ بن سکا نہ ہی ’جمہوریہ‘ بن سکا۔ تجربات ہوتے رہے اور ہو رہے ہیں۔ مسلم لیگ کے بعد میں اتنے بٹوارے ہوئے کہ اس کی شکل تک نہیں پہچانی جا رہی ۔ اور پارلیمان کا حال یہ ہے کہ اس نے اجتہاد تو کیا کرنا تھا وہ آج تک ن آبادیاتی دور کے قوانین تک نہیں بدل سکی۔ چنانچہ ہمارا فوجداری اور دیوانی قانون آج بھی وہی ہے جو برطانیہ نے 1857 کی جنگ آزادی کے بعد محکوم ملک میں نافذ کیا تھا۔ یہ قانون شہریوں کے لیے نہ تھا۔ یہ رعایا کے لیے تھا۔ہم آج بھی اس قانون سے ہانکے جا رہے ہیں جو نہ یہاں کے لوگوں نے بنایا، نہ ان سے مشاورت کی گئی، نہ ان کی زبان میں لکھا گیا۔برطانیہ کے چند لوگوں نے بیٹھ کر اسے بنایا اور ہم نے آج تک اسی کو سینے سے لگا رکھا ہے۔یہ واردات اتنی تکلیف دہ ہے کہ نو آبادیاتی دور کے قوانین اور کلچر کی باقیات نے ہماری کمر دہری کر رکھی ہے اور ہم اس عذاب تلے کچلے جا چکے ہیں مگر احساس تک نہیں۔ روز یہاں ایک نیا تجربہ ہو رہا ہوتا ہے۔ کبھی قانون کی دنیا میں ، کبھی معیشت کی دنیا میں ، غیر سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ آج پچھتر سال بھی یہاں بحثیں ہو رہی ہیں کہ ہمارے لیے پارلیمانی نظام ٹھیک رہے گا یا صدارتی؟جو نظام موجود ہے اس پر عمل نہیں کرنا ، جو ڈھانچہ موجود ہے اسے بازیچہ اطفال بنا دینا ہے ، جو قوانین ہیں انہیںجی بھر کر پامال کرنا ہے اور اس کے بعد خلط مبحث کا شکار ہو کر لمبی لمبی بحثیں کرتے رہنا ہے۔ منزل تو دور کی بات ہے ہمیں اس وقت اپنی سمت کا بھی نہی پتا۔ فیصلہ ساز وہ ہیں جنہیں عوام کی محرومیوں کا کچھ پتا نہیں۔وہ اس سب سے لاتعلق مزے میں ہیں۔ چنانچہ ان کے مفادات الگ ہیں ، ان کی ترجیحات جدا۔ ان کا بیانیہ مختلف اور ان کے جھگڑے الگ۔عوام کے ساتھ ان کا کچھ بھی سانجھا نہیں۔ان کے پیٹ بھرے ہوئے ہیں اور ان کے مسائل عوام کے مسائل سے بالکل مختلف ہیں۔ ہم کبھی اسلامی ہونے لگتے ہیں کبھی ہمیں روشن خیالی کے دورے پڑنے لگ جاتے ہیں۔ کبھی ہم معاشی ٹائیگر بننے کے دعوے کر رہے ہوتے ہیں کبھی ہمیں دیوالیہ ہونے کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔کبھی ہم پارلیمانی نظام کی بلائیں لینے لگتے ہیں تو کبھی ہمیں صدارتی نظام اچھا لگنے لگتا ہے۔ معیشت ڈانواں ڈول ہے اور ہمارے پاس سرے سے کوئی معاشی منصوبہ ہی نہیں ہے۔ہماری معاشی مہارت کی داستان صرف اتنی سی ہے کہ ہم نے کشکول تھام رکھا ہے ، قرض مل جائے تو معیشت قدموں پر کھڑی ہو جاتی ہے نہ ملے تو وہ ڈگمگانے لگتی ہے۔ آدمی حیرت اور دکھ کے ساتھ سوچتا ہے کہ یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟ کوئی سمت ، کوئی منزل ، کوئی پالیسی اور کوئی زاد راہ تو ہونا چاہیے۔ایک ملک ایک تجربہ گاہ کے طور پر کیسے چلایا جا سکتا ہے۔ صدی ہونے کو آ رہی ہے اور ہمارے تجربات ختم نہیں ہو رہے۔ہم کب تک تجربہ گاہ میں کھڑے رہیں گے؟ ہمیں چند بنیادی فیصلے کر لینے چاہئیں ۔ ہمارے پاس ضائع کرنے کو اب مزید وقت نہیں رہا۔ ٭٭٭٭٭