نواز شریف کو ایک عدالتی حکم کے ذریعے وزارت عظمیٰ کے عہدے سے رخصت کر دیا گیا۔ وہ ان دنوں ہر جلسے میں اپنی یہ آواز اور احتجاج بلند کرتے دکھائی دے رہے تھے میں نے کراچی کے ’’موون پک‘‘ ہوٹل کے کمرے میں دریافت کیا۔ آخر کیا وجہ بنی کہ سسٹم آپ کو قبول نہیں کر رہا۔ مجھے یاد ہے میاں صاحب کی آواز میں جذباتیت آ گئی وہ رندھی ہوئی آواز میں بولے۔ جب تک آپ سسٹم کے ساتھ چلتے ہیں یہ آپ کو ہاتھوں میں اٹھائے رکھتا ہے۔ لیکن جیسے ہی آپ کمپرو مائز کرنے سے انکار کرتے ہیں،آپ خود کو بدلتے ہیں اپنی صلاحیتوں اور خوابوں کے متعلق کچھ کرنا چاہتے ہیں یہ سسٹم آپ کو اتار پھینکتا ہے۔ پھر وہ ذرا وقفہ کے بعد دوبارہ بولے۔ ’’لیکن آپ لکھ لیں میں واپس آئوں گا اور ملک کو ایک آئیڈل شکل دینے کے سارے خواب پورے کروں گا۔اللہ نے چاہا تو میں اپنا رول ادا کئے بغیر دنیا سے نہیں جائوں گا یہ میرا فیصلہ بھی ہے اور ایمان بھی۔ ایسا لگتا ہے آزمائشوں اور امتحانوں کا سمندر پار کر کے میاں صاحب کی خواہش بلکہ دعا پوری ہونے والی ہے اور شاید وہ جلد کرسی اقتدار پر جلوہ افروز ہونے والے ہیں۔ اگر چند روز بعد وہ انتخابات کے نتیجے میں برسر اقتدار آ گئے تو میں ابھی سے انہیں ان کے الفاظ یاد کرانا چاہتا ہوں اور ان سے عرض کرنا چاہتا ہوں۔دعائوں اور خواہشوں میں بولے جانے والے الفاظ اللہ تعالیٰ کے ساتھ وعدہ ہوتے ہیں۔اللہ تعالیٰ سب کچھ معاف کر دیتا ہے لیکن اس کے دربار میں وعدہ خلافی کے لئے معافی کی گنجائش نہیں ہوتی۔میاں صاحب اگر اقتدار آپ کے نصیب میں ہوا اور آپ کو مل گیا یاد دلا دوں اس صورت میں آپ نے پھر بھی اللہ کے ساتھ کئے ہوئے وعدے پورے نہیں کئے، اگر آپ نے اپنے وعدوں کو فراموش کر دیا۔ آپ نے سمجھوتے کر لئے آپ نے پسپائی اختیار کر لی۔ اگر آپ حکمرانی کے پرانے طور طریقے پر کاربند رہے۔ جیت کے بعد اگر آپ نے تدبر‘ تحمل رواداری اور راست بازی کا مظاہرہ نہ کیا۔ اگر آپ نے اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کا حساب مانگنے کی کوشش کی اگر آپ نے اپنے مخالفین سے اپنے پر گزری صعوبتوں کا قصاص طلب کرنے کی کوشش کی تو تاریخ کا سبق یہ ہے کہ 12اکتوبر 1999ء آنے میں ذرا دیر نہیں لگے گی یاد رکھیں۔ اللہ تعالیٰ ان حکمرانوں پر اپنے رحم اور مہربانیوں کے سارے دروازے کھول دیتا ہے، جو اس کے بندوں پر مہربانی کرتے ہیں، جو اس کی مخلوق پر رحم کرتا ہے اور ان لوگوں کے لئے اقتدار کو گرم توا بنا دیتا ہے جو اس کے بندوں پر زندگی کا دائرہ تنگ کر دیتے ہیں اور یاد رکھیں اگر خوش بختی سے آپ کو یہ موقع مل گیا اور آپ نے پسپائی اختیار کی اس بار بھی وعدہ خلافی کی تو پھر آنے والے دن آپ کے دن نہیں ہونگے۔ جوں جوں الیکشن قریب آ رہے ہیں بلاول بھٹو زرداری پورے جوش و خروش سے اپنی اس خواہش کا برملا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ آئندہ الیکشن کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ کے عہدہ جلیلہ تک پہنچنے میں کامیاب رہیں گے۔ وہ عوام کے سامنے اپنی پارٹی کے منشور کا کتابچہ لہرا لہرا کر انہیں یقین دلا رہے ہیں کہ ان کی تقدیر بدلنے والی ہے وہ پاکستانیوں کو آنے والے وقت میں اچھے دنوں کی نوید سنا رہے ہیں بلاول بھٹو زرداری در حقیقت اپنی والدہ اور نانا کی Legacyکو آگے بڑھاتے ہوئے یہ کوشش کر رہے ہیں کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو جس انداز سے اس دنیا سے رخصت ہوئے ان اندوہناک حالات نے ان کے نام کے ساتھ ان کے تمام تر کمزور فیصلوں کے نتائج کو یکسر دھوکہ صرف ان کے کارناموں کو ان کی ذات کے ساتھ چسپاں کر دیا ہے۔ اس لئے وہ فخر سے اپنے بڑوں کا نام لے رہے ہیں۔ ساتھ ساتھ یہ حقیقت ہے کہ وہ سندھ پر اپنی پارٹی کی گزشتہ پندرہ(15) سالہ طرز حکومت اور اس کے نتائج پر اٹھنے والے سوالات پر اطمینان بخش جواب نہیں ڈھونڈھ پا رہے۔ بلاول ابھی نوجوان ہیں ان کے پاس ابھی بہت وقت ہے ان کی خدمت میں عرض ہے کہ کامیابی اور ناکامی میں صرف دو چیزوں کا فرق ہے۔پہلی چیز آپ کا ارادہ اور نیت ہے اور دوسرا اس پر عملدرآمد کی تیکنیک اور آپ کی قابلیت ہے ارادہ کبھی اللہ تعالیٰ کی مرضی کے بغیر مضبوط نہیں ہوتا۔ جوں ہی کوئی انسان اللہ کو اپنے ارادے کی سنجیدگی کا یقین دلا دیتا ہے مراد پا لیتا ہے عمران خان جیل میں ہیں الیکشن سر پر ہیں لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ ان کے لئے یہ صورتحال کب تک جاری رہے گی، وہ اگر انا اور ضد کے تخت سے اتر کر فیصلے کرتے تو شاید وہ فیصلوں میں ان غلطیوں سے بچ جاتے جن کا وہ ادراک نہ کر سکے۔ زمینی حقائق کو نہ سمجھ سکے۔ کاش وہ صورتحال کا اندازہ کر پاتے تاریخ بتاتی ہے سیاست میں سر پٹ دوڑنے کے نتائج عموماً اچھے نہیں ہوتے۔میں سوچتا ہوں آپ جیل کی چار دیواری میں کیا سوچ رہے ہوں گے یہ تو بہت اچھا کیا کہ آپ نے مطالعے کی عادت کو پختہ کر لیا۔ قرآن پاک فہمی کی کوشش قابل تعریف ہے آپ اقبال کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں اقبال کے کلام کی فکر ہی یہ ہے کہ کسی قوم کا اصل اثاثہ اس کی خودی اور خودداری ہے۔ لیکن ہمیں من حیث القوم یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ پاکستان میں آج علامہ اقبال کی کسی سوچ کسی فکر کسی خیال کسی فلسفے اور کسی احساس کا کوئی رنگ نہیں۔میں پھر کبھی تفصیل سے لکھوں گا کہ اقبالؒ کیسا پاکستان چاہتے تھے لیکن یاد رکھیں کہ کامیابی اور شہرت اپنے ساتھ ہمیشہ منفی جذبوں کا لشکر لے کر آتی ہے یہ کیفیت انسان سے غلطیاں کرا سکتی ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ اپنی برداشت عاجزی انکساری ظرف اور حلیمی میں اضافہ کر لیں آپ اپنی کامیابیوں کو اللہ کا کرم تسلیم کر لیں۔ یقین کیجیے جس کامیابی کے ساتھ انکساری نہ ہو‘ جس خوشحالی کے ساتھ ذہانت نہ ہو‘ جس اقتدار کے ساتھ برداشت نہ ہو‘ جس اختیار کے ساتھ صبر نہ ہو‘ جس شہرت اور ترقی کے ساتھ رحم اور رواداری نہ ہو اور جس دولت کے ساتھ ظرف نہ ہو وہ کسی بھی انسان کے لئے دنیا میں بحران ثابت ہوتی ہے آپ گزشتہ نصف صدی سے اسکرین پر نظر آ رہے ہیں بحیثیت کرکٹر پھر سوشل ریفارمر اور آخر میں سیاست دان جب آپ تحریک انصاف کی بنیاد رکھ رہے تھے آپ کو یاد ہو یا نہ یاد ہو میں نے آپ سے کہا تھا کہ سیاست میں نہ جائیں میں کرکٹ کے دنوں سے آپ کو جانتا تھا مجھے معلوم تھا آپ کا مزاج کیسا ہے؟ آپ ایک فائٹر کی طرح پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے آپ کا سب سے بڑا اثاثہ وہ اعتبار اور محبت تھی جس کا اظہار لوگ شوکت خانم کی تعمیر کے دوران کر چکے تھے درحقیقت انقلاب سوچ اور عمل کا نام ہے پھر بھی جب اللہ تعالیٰ کے کرم نے آپ کو وزیر اعظم بنا دیا آپ نے پے درپے غلط اندازے لگانے سیاسی مخالفین کے نت نئے کھاتے کھولنے مفاہمت اور دور اندیشی کے بجائے ٹکرائو کی پالیسی اختیار کی یاد رکھیں محاذ آرائی کو ختم کئے بغیر راستہ نہیں ملے گا۔