الیکشن میں چند روز باقی ہیں۔د گھٹا گھٹا ماحول ہے،سہمے سہمے در و دیوار ہیں۔لوگوں میں خوف ہے کہ وہ اپنی پسند کی کسی پارٹی کا نعرہ لگائیں گے تو پکڑے نہ جائیں،کسی پارٹی کا جھنڈا لہرائیں تو سر بازار دھر نہ لئے جائیں۔ ایسا خو ف لوگوں کے ذہنوں میں بیٹھ گیا ہے کہ لوگ گھروں سے نکلتے ڈر رہے ہوتے ہیں ، ایسا ہو رہا ہے اور پوری طرح ہو رہا ہے۔حد تو یہ ہے کہ الیکشن کے دن ہیں اور دفعہ ایک سو چوالیس نافد کر دی گئی ہے۔ سوچتا ہوں کہ جمہوریت میں تو ایسا نہیں ہوتا، الیکشن مہم کے دوران میں تو یہ نہیں ہوتا۔ ووٹ دینے کی آزادی ہوتی ہے۔ اظہار خیال کی آزادی ہوتی ہے۔ اپنی پسند کی پارٹی کے بینر، پوسٹر اور جھنڈے لگانے کی کھلی چھوٹ ہوتی ہے۔تقریر اور تحریر کی آزادی ہوتی ہے۔یہی آزادی لیول پلیئنگ فیلڈ کہلاتی ہے ۔ انصاف کے علمبردار ذرہ سڑکوںپر نکل کر دیکھیں کہ عوام میں کس قدر مایوسی ہے اور کسی قدرلا تعلقی ہے۔ اور اس مایوسی کا سبب زیادہ تر حکومتی فیصلے ہیں یا پھر جو کچھ کسر رہ گئی تھی وہ اپنی عدلیہ نے نکال دی ہے۔ ان فیصلوں نے تو پلیئنگ فیلڈ کو ایسا لیول کیا ہے کہ بس کمال ہے۔جمہوریت تو جمہور کی مرضی کا نام ہے ۔اس کے فیصلوں کا نام ہے۔ اس کی سوچ کا نام ہے۔مگر یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جہاں سب کچھ ہے مگر جمہور کی مرضی نام کی کوئی چیز نہیں۔جمہور کے لئے کوئی سوچ نہیں ۔ عوام بے بس ہیں۔وہ ا ہل اقتدار کا کچھ نہیں کر سکتے ان کے پاس کوئی طاقت نہیں ہوتی ۔مگر ان میں دو چیزیں بڑی وافر ہوتی ہیں، ایک پیار، دوسرا نفرت۔میں حیران ہوں کہ پیار جو دنیا کی سب سے قیمتی نعمت ہے اسے کوئی سمیٹے کو تیار ہی نہیں اور نفرت وہ پیار کی طرح سمیٹی نہیں جاتی، اس کا اظہار تو لوگ سر عام ضرور کرتے ہیں مگر کچھ نہیں کر سکتے ۔ اس صدی میں جو شعور کی صدی ہے ، جو حقوق انسانی کی بحالی کی صدی ہے ، اس میں یہ قید وبند میری سمجھ سے بالا ہے۔ کیا کسی دوسرے جمہوری ملک میں ایسا ہو سکتا ہے۔مگر یہاں جمہوریت ہے کہاں۔ یورپ کے غیر مسلم ملکوں میں تو ایسے حالات کا سوچنا بھی گناہ ہے۔ افسوس کہ کمزور لوگ افسوس کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے مگر ان حالات میں انجام گلستان کچھ اچھا نظر نہیں آتا۔ہمیں اﷲکی معافی تو نظر آتی ہے غضب نہیں۔یہاں توبا شعور لوگ اب غضب کے طلب گار نظر آتے ہیں۔ اپنے ہی عوام کے ساتھ ایسا سلوک آپ کو اگر کہیں اور نظر آئے گا تو وہ بنگلہ دیش ہے۔ بنیادی طور پر ہماری اور بنگلہ دیش کے لوگوں کی تربیت اور انداز ایک ہی ہے ان دو ملکوں کے علاوہ جمہوریت دنیا کے کسی خطے میں اس قدر رسوا نظر نہیں آئے گی۔ بھارت ہمارا ہمسایہ ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ۔ ہم وہاں کے چھوٹے چھوٹے واقعات کو پیش کرتے اور ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہاں کی جمہوریت ہماری جمہوریت سے بہت ادنیٰ ہے۔ مگر سچ یہ ہے کہ اپنی تمام تر خامیوں کے باوجودوہاں جمہوری قدروں کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ میں اس سلسلے میں ایک چھوٹا سا واقعہ بتاتا ہوں جو ان کی جمہوریت کا ایک خوبصورت اور سنہری باب ہے۔بھارت میں ایک مسلمان ریاست تھی جونا گڑھ۔بھارت نے فروری 1948 میں اس ریاست پر زبردستی قبضہ کر لیا۔ آج یہ ریاست بھارت کے صوبہ گجرات کا حصہ ہے۔ یہ علاقہ ایشیا میں ہندوستانی شیروں کا سب سے بڑا مسکن ہے۔ کبھی اس علاقے میں بہت زیادہ شیر ہوتے تھے۔ لیکن ان کی حفاظت کا معقول انتظام نہ ہونے کے سبب بہت سے شیر طبعی یا غیر طبعی موت مر جاتے تھے۔بہت سے شکاریوں کے ہتھے چڑھ جاتے تھے۔شیروں کی نسل کو بربادی سے بچانے کے لئے نواب آف جونا گڑھ نے یہاں تلالہ گر کے علاقے میں ایک پارک بنایا جہاں شیروں کی حفاظت کا مکمل بندوبست کیا گیا تاکہ ان کی معدوم ہوتی ہوئی نسل کو بچایا جا سکے یہ مقام مشہور علاقے سومنات سے 43 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔1965 میں بھارتی حکومت نے اسے نیشنل پارک کا درجہ دے دیا ۔ آج یہ پارک گر نیشنل پارک (Gir National Park) کہلاتا ہے۔ اسے ساسان گر بھی کہتے ہیں۔258 مربع کلو میٹر پر بنے ہوئے اس پارک کو شیروں کی مکمل پناہ گاہ بنا دیا گیا ۔ جہاں شیروں کو انسانی مداخلت سے مکمل محفوظ کر دیا گیا۔ یہ پناہ گاہ خالصتاً شیروں کے لئے مخصوص ہے ۔اس وقت اس جنگل میں کل674 شیر ہیں جن میں 250 کے لگ بھگ شیرنیاں ہیں۔ دو سال قبل کسی بیماری کے سبب تین سو کے قریب شیر اور شیرنیاں ہلاک ہو گئیں مگر اس مرض پر جلد قابو پا لیا گیا۔ اب یہ شیر محفوظ ہیں۔اس پارک میں ایک بہت بڑی جھیل نل سارو ور (Nalsarover) بھی ہے جو اس پارک کو خوبصورت تر بنا دیتی ہے اور شیروں کو پینے کا پانی بھی فراہم کرتی ہے۔اس علاقے میں سات چھوٹے بڑے دریا بھی گزرتے ہیں، جن کی وجہ سے جانوروں کو پانی پینے کے تین سو پوائنٹ مل جاتے ہیں۔اس نیشنل پارک میں چار سو اقسام کے درخت بھی پائے جاتے ہیں۔ اس جنگل میں شیروں کی دیکھ بھال کے لئے ایک شخص مہنت بھرت داس درشن داس بھی رہتا ہے۔ جنگل ہی میں اس کا گھر ہے اور ارد گرد دور دور تک کوئی قصبہ یا گائوں نہیں ۔جمہوری حکومت نے یہ نہیں کیا کہ اسے کہے کہ ووٹ ڈالنے کے لئے پارک کو چھوڑو اور سو یا ڈیڑھ سو کلومیٹر پر واقع قصبے میں جائو اور ووٹ ڈال کر آئوبلکہ صرف اور صرف اس ایک آدمی کی سہولت کے لئے 2004 سے آج تک جنگل کے بیچ اس کا ایک ووٹ ڈالنے کے لئے باقاعدہ ایک پولنگ سٹیشن بنایا جاتا ہے۔ایک ووٹ اور ایک پورے پولنگ سٹیشن کے اخراجات، گو عجیب اور مہنگا عمل ہے مگر حکومت اپنے شہری کو اس کا جائز حق ادا کرتی ہے۔ یہی جمہوریت کا تقاضہ ہے اور اسی لئے بھارت کی جمہوریت ہماری جمہوریت سے بہت بہتر جانی جاتی ہے۔کاش ہم بھی سوچیں اور ایک سچی اور حقیقی جمہوریت کی بنیاد رکھیں۔