چار دہائیوں سے جن کی منفرد آو از جگمگارہی تھی سب کو لبھارہی تھی‘ نیرہ نور نے واقعی اپنی محتاط‘ باوقار اور پرسکون زندگی میں 72 بہاریں دیکھیں۔ وہ تو چلیں گئیں‘ لیکن اپنی لازوال غزلوں‘ گیتوں اور نظموں کی شکل میں یونہی مہکتی اور دمکتی رہیں گی۔ ان کی طرح ذرا خاموش اور چپ چپ رہنے والا انسان اپنے اندر زندگی بھر بہت کچھ چھپاکر جیتا رہتا ہے۔ پھر اچانک ہی زندگی کی مہلت ختم ہوجاتی ہے‘ لیکن یہ تو سچ ہے کہ وہ موسیقی کی موجودہ عہد کی روشن مثال تھیں۔ پاکستانی موسیقی کی 75 سالہ تاریخ پر ایک نظرڈالیں تو کیسی کیسی مدھر آوازیں سب کو مسحور کرتی رہیں۔ کتنے بڑے بڑے شاعروں نے وقت اور حالات کو سحر آفریں الفاظ میں جکڑ دیا۔ ان باکمال لوگوں کی کہکشاں نے موسیقی کے فن کو بام عروج پر پہنچادیا۔ مہدی حسن نے غزل گوئی میں جو سماں باندھا۔ وہ آواز آج بھی تابندگی اور تروتازوگی میں موسیقی کی آبرو بنی ہوئی ہے۔ میڈم نور جہاں کے بغیر پاکستان میں موسیقی کا باب مکمل نہیں ہوسکتا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میڈم کی آواز خدا کا ایک انمول تحفہ تھا۔ ان کی آواز یوں سمجھ لیں کہ روح اور جسم کیلئے ایک ٹانک ہے۔ان کی آواز کی لپک اور چاشنی ہمیشہ ہماری فلم انڈسٹری کیلئے نت نئے ریکارڈ بنانے کے ساتھ ساتھ فلموں کی کامیابی کی ضمانت بنتی رہی۔ 65ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران میڈم کی آ واز اس طرح گونجی جس نے پوری قوم میں نیا حوصلہ اور ولولہ پیدا کردیا۔ یہ نغمے آج بنھی قوم کے ساتھ فوجی جوانوں کا خون گرمانے اور ان میں نئی امنگ پیدا کرنے کیلئے سچ مچ ایک موثر ہتھیار ہیں۔ 65 کی جنگ کے بعد جب فیلڈ مارشل ایوب خان تاشقند میں بھارت کے وزیراعظم شاستری سے ملنے پہنچے تو اس وقت میڈم نور جہاں کے ملی ترانوں کی پورے برصغیر میں اس قدر دھوم تھی کہ شاستری نے صدر ایوب خان سے مسکراتے ہوئے کہا۔ کہ ہم خواہ مخواہ ایک دوسرے کے پڑوسی ہوکر بھی جنگ میں الجھے ہوئے ہیں۔ ہم آپ کو کشمیر دے دیتے ہیں‘ آپ ہمیں نور جہاں دیدیں۔ مجھے یاد ہے 1984میں ممتاز صحافی اسد جعفری کے ساتھ متعدد بار گلبرگ لاہور میں میڈم کے گھر جانے کا اتفاق رہا۔ جعفری صاحب اخبار جہاں میں قسط وار میڈم کی سوانح عمری لکھ رہے تھے۔ میڈم بڑی باغ و بہار شخصیت کی مالک تھیں۔ اس طرح موسیقی میں فریدہ خانم‘ رونا لیلیٰ‘ مہناز اور ناہید اختر جیسی خوبصورت آوازوں نے اس چمن کو خوب منور کیا۔ موسیقاروں میں بھی ایک طویل قطار ہے‘ جن کی صلاحیتوں کا ایک زمانہ معترف ہے۔ شاعروں میں فیض احمد فیض سمیت درجنوں نامور شاعروں نے اپنی شاعری سے ایک دنیا کو مسمرائز کیے ر کھا۔ اس طرح گزشتہ 75 سال میں اس گلدستے میں عالمگیر سمیت درجنوں پھول کھلتے چلے گئے۔ یہ غیر معمولی‘ جادوئی اور باکمال لوگ تھے‘ جنہوں نے پاکستان کی موسیقی کو چار چاند لگادیئے۔ پاکستان میں موسیقی کے بھی کئی ادوار آئے۔ بڑے بڑے استاد‘ موسیقار‘ طبلہ نواز اس شعبے میں اپنی آواز اور فن کو یکتا بناتے رہے۔ اس قطار میں نازیہ حسن جیسی من موہنی گلوکارہ نے بھی اپنی آواز کا ڈنکا بجایا‘ نیا ٹرینڈ دیا۔ ہر اسلوب اور ہر اسٹائل کا اپنا رنگ تھا۔ محترمہ نیرہ نور اسی قبیلے کا جگمگاتا ستارہ تھیں‘ لیکن بعض لوگ یہ سوال ضرور کرتے ہیں کہ نیرہ نور سفر زندگی میں اپنی تما م تر شہرت کے عروج کے دور میں گوشہ نشیں کیوں ہوگئیں۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھیں۔ کوئی بھی ایسا نہیں ملا جو ان سے ملا ہو اور ان کی سادگی اور پروقار شخصیت سے متاثر نہ ہوا ہو۔ جب گفتگو کرتیں تو ان کے لب و لہجے میں آہستگی اور دھیمے پن کو دیکھ کر یہ اندازہ کرنا زیادہ مشکل نہیں ہوتا تھا کہ وہ سنانے سے زیادہ سننا چاہتی ہیں۔ موسیقی کے متعلق جب بھی بات ہوتی تو وہ بڑی سادگی سے کہتیں۔ کہ بس میں کوشش کرتی ہوں کہ انصاف کرسکوں۔ انہیں یہ احساس ضرور تھا کہ ان کا ایک بڑا فین کلب ہے۔ وہ سب ان کی خداداد صلاحیتوں کا اعتراف کرتے۔ انکساری اور سادگی ان کی شخصیت کے رنگ تھے۔ شوبز کی دنیا میں رہ کر پورے کیریئر میں ان سے منسوب کوئی منفی بات میں نے آج تک نہیں سنی۔ وہ جس خوبصورتی سے نغمے گاتیں ان کے چہرے سادگی اور وقار نظر آتا ،وہ سچ مچ سب کیلئے قابل احترام تھیں۔ وہ اپنے دور اور عہد میں سب کیلئے ایک روشن مثال تھیں‘ جنہوں نے انہیں سنا ہے ‘ دیکھا ہے‘ وہ جانتے ہیں وہ ہم سب کیلئے کتنا قیمتی اثاثہ تھیں۔ اسی لئے وہ ہمارے دلوں میں موجود ہیں۔ اور ان کی بہت ہی پیاری آواز ہمیشہ ہمارے کانوں میں رس گھولتی رہے گی۔ ان کی گائی ہوئی غزلیں ،گیت اور نغمے ا اپنی مثال آپ ہیں۔اے جذبہ دل گر میں چا ہوں۔ روٹھے ہو تم تو کیسے مناؤں پیا۔ کبھی ہم بھی خوبصورت تھے۔ تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجناجیسے لازوال گیت گانے والی نیرہ نور 1950ء میں آسام میں پیدا ہوئیں۔ 1968ء میں ریڈیو پاکستان سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا۔ وہ اب ہم میں نہیں رہیں۔ حقیقتاً ان کی آواز‘ ادائیگی‘ اسلوب اور شیریں انداز نے ایک زمانے کو اپنا دیوانہ بنایا ہوا تھا۔حقیقت یہ ہے کہ ان کی وفات فیض احمد فیض کی شاعری کیلئے ایک انتہائی افسوسناک دن ہے کہ ان کی شاعری سے جڑی ایک ایک نہایت توانا آواز کو اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلالیا۔ ساتھ ساتھ پاکستانی قوم ایک انتہائی شاندار اور سریلی آواز سے محروم ہوگئی جو اپنے انداز اور تخلیقی گائیکی میں ہمہ گیر منفرد اور اچھوتی تھی۔ ان کی گائیکی کی چاشنی‘ شاعری کا انتخاب اور لیجنڈ فنکارہ کے طور پر موسیقی کا انتخاب ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ یہ بھی سچ ہے کہ وہ چار دہائیوں سے شائقین میں محبت اور اپنی مترنم آواز کے جادو سے سکون بکھیر رہی تھیں۔ شکریئے اور خراج کا کوئی لفظ ان کی گلوکاری کی انمول خوبی کے ساتھ انصاف نہیں کرسکتا۔ ان کے لاتعداد مداح ان کی رخصتی پر دل کی گہرائیوں سے ان کیلئے افسردہ ہیں۔ وہ اپنی سریلی آواز کے ساتھ مداحوں کے دلوں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ ان کے گیت‘ غزلیں اور لازوال ترانے ان کی آواز کے ذریعے ہمارے دلوں سے ان کو جوڑے رکھے گی اور یقینا وہ اتنی باصلاحیت تھیں کہ ان کی کمی کو ہمیشہ محسوس کی جائے گی۔ ہم ان کے شوہر اور بیٹوں کے لئے گہرے احترام‘ محبت اور دعاؤں کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ اپنی فیملی کیلئے فخر کی علامت رہیں گی۔ کیونکہ وہ پاکستانی موسیقی کی کہکشاں کا ایک ستارہ تھیں‘ جن کی جگمگاہٹ ہم ہمیشہ محسوس کرتے رہیں گے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ایسی زبردست صلاحیتوں سے آراستہ شخصیت کے ساتھ اپنے رحم و کرم کا معاملہ فرمائے۔