جنگل میں بل کھاتی ندی کے ساتھ ساتھ ،چلتے جائیں تو بہت دور جا کر ایک مقام آتا ہے جہاں یہ پھول کھلتا ہے۔ اسے محبت اور پاکیزگی کا پھول بھی کہتے ہیں۔ یہ بہار کا نہیں بھادوں کا پھول ہے۔آپ اس کی مالا نہیں پرو سکتے ، اس میں زہر بھرا ہے۔ یہ باقی پھولوں کی طرح قطار اندر قطار نہیں کھلتا ، یہ اپنے ہجر میں اکیلا ہی کھڑا ہوتا ہے۔ تاحد نگاہ وادی میں بسا اوقات ایک ہی پھول ہوتا ہے۔ دن بھر آپ جنگل کی خاک چھانتے رہیںاور آپ کو تین چار پھول نظر آ جائیں تو اسے اجابت دعا جانیے۔ یہ پھول نہیں ہے ، ایک طلسم ہے جس میں جنگل کا گداز سستا رہاہے۔ جانے اسے کس نے چھوا ہے ، یہ دہکتا رہتاہے، جیسے کسی نے جنگل میں آ گ لگا رکھی ہو اور ندی کے اطراف میں شعلے اٹھ رہے ہوں۔ ہوائیں اسے چھوتی ہیں تو یہ زلف خم بہ خم کی صورت لہراتا ہے۔ ہوائیں تھم جائیں تو یہ جنگل میں اتری بھادوں کی نمی میں سلگتا رہتا ہے۔ اس کی پتیاں ایسے ہیں جیسے شعلے بلند ہو رہے ہیں اور پتیوں سے نیچے چھوٹے پھول شاخوں کی مانند یوں پھیلے ہیں جیسے کسی نے ہتھیلی پر دل اٹھارکھا ہو۔ میں نے اس پھول کوپہلی بار تب دیکھا جب مارگلہ کے جنگل میں گھومتے مجھے بائیس برساتیں ہو چکی تھیں۔ یہ بھادوں کے آ خری دن تھے۔ ساون اتنا ٹوٹ کر برسا تھا کہ زمین کی ساری خشکی ختم ہو گئی تھی۔ بھادوں جم کر برسا تو سارے چشمے پھوٹ پڑے ، ندیاں رواں ہو گئی تھیں اور شاہ درا کی آبشار زوروں سے بہنے لگی ۔ موسم بھی بدل چکا تھا۔ بھادوں جب خوب برس جاتا ہے تو جنگل میں ٹھنڈی میٹھی ہوائیں وجود سے لپٹ جاتی ہیں۔بھادوں ، اسوج اور پھر کاتک کے ابتدائی دن، یہ جنگل گردی کا سب سے حسین موسم ہے۔ میٹھی ہوا ، بہتی ندیاں ، رواں چشمے اور آبشار ، پگڈنڈیوں پر تتلیاں ، شام ڈھلے وادی میں اترتے جگنو ، سارا مارگلہ سورہ رحمن کی تفسیر بنا ہوتا ہے۔ یہ دن کا پہلا پہر تھا۔ ہم شاہ درا کی آبشار سے واپس آ رہے تھے۔ جنگل میں خاموشی تھی اور پہلو میں ندیا زوروں سے بہہ رہی تھی۔ اچانک کتے نے زور زور سے بھونکتے ہوئے ایک جھاڑی کے گر د چکر لگانے شروع کر دیے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ چلتے چلتے اسے اچانک اتنا غصہ کیوں آ گیا ہے ۔پاس جا کر دیکھا تو اچانک اس پھول پر نظر پڑی جو ساری جھاڑی سے بلند اور نمایاں ہوا کے دوش پر جھوم رہا تھا۔ میں نے ایسا شاندار پھول پہلی بار دیکھا تھا، دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا۔ اس کی تصویر بنانے لگا تو زعفران صاحب نے کہا اس جھاڑی میں سانپ ہے پیچھے ہٹ جائیں۔ میں نے پوچھا آپ کو کیسے پتا چل گیا کہ جھاڑی کے نیچے سانپ ہے۔ وہ بولے کتے کو بھی پتا چل چکا ہے کہ نیچے سانپ ہے اور وہ اسی لیے بھونک رہا ہے۔ زعفران صاحب نے بتایا کہ انہیں ان کے بڑے بزرگوں نے بتایا ہوا ہے کہ جس جھاڑی کے اوپر یہ پھول ہواس میں زہریلا سانپ ہوتا ہے اور اس سانپ کا زہر اس پھول میں بھی ہوتا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ چونکہ زہریلے سانپ بھی کم ہوتے ہیں تو شاید اسی لیے اس پوری وادی میں ایک دو ہی ایسے پھول ہو ں گے۔اس پھول میں سانپ کے زہر کا اتنا اثر ہے کہ کوئی جانور بھی یہ پھول کھا لے تو مر جاتا ہے۔ میں یہ پھول توڑ کر ساتھ لانا چاہتا تھا لیکن ہمت نہ ہوئی۔ چند روز بعد میری گوکینہ رج پر عابد چرواہے سے ملاقات ہوئی تو میں نے سوچا اگر واقعی یہ پھول کے زہر والی بات درست ہے تو یہ چرواہے کو معلوم ہو گی۔ میں نے اسے کہا کہ اس وادی میں ایک پھول ہے سنا ہے کوئی جانور اسے کھا لے توو ہ بہت صحت مند ہو جاتا ہے۔ میں نے اسے تصویر دکھائی تووہ کہنے لگا یہ تو ’ سپ نا پھل‘ ہے ۔ یعنی سانپ کا پھول ہے اور یہ زہریلا ہوتا ہے۔ صحت مند نہیں ہو گا بلکہ جو جانور کھائے وہ مر جائے گا۔ میں نے چرواہے سے پوچھا کہ مارگلہ میں ایسے کتنے پھول ہوں گے۔ کہنے لگا شاید پانچ شاید دس۔ دور دور تک ایک ہی پھول ہوتا ہے ۔بھادوں اور کاتک میں کھلتا ہے۔ مجھے مس مصرو بہت یاد آئی ، وہ زندہ ہوتی تو اس پھول کے بارے میں سب کچھ بتا دیتی۔اس کا تو کام ہی یہی تھا، پہروں جنگل سے جڑی بوٹیاں چنتی اور ان کو کوٹ کر ادویات بناتی۔ اب ایک ہی راستہ تھا اور وہ تھا گوگل لینز کا۔ پھول میں نے گوگل لینز پر ڈالا تو معلوم ہوا یہ مقامی روایات کچھ اتنی غلط بھی نہیں۔ یہ واقعی ایک زہریلا پھول ہے اور ادویات بنانے میں کام آ تا ہے۔ اس میں اتنا زہر ہے کہ بعض روایات کے مطابق کوئی ہرن اسے کھا لے تو پندرہ سیکنڈ میں مر جائے۔کوئی انسان اسے کھا لے تو اس کے لیے بھی کافی نقصان دہ ہو سکتا ہے، یہاں تک کہ موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ اس کی جڑ کا رس اگر ہاتھوں پر لگ جائے تو جنگل سے نکل کر ہسپتال پہنچنے تک آدمی کی جلد کا حشر ہو جائے۔آنکھوں میں لگ جائے تو بینائی متاثر ہو سکتی ہے ۔ زمبابوے میں اسے قومی پھول کا درجہ حاصل ہے ۔ملکہ الزبتھ جب 1947میں وہاں گئیں تو انہیں اسی کی شکل میں ہیروں کا ایک بروش پیش کیا گیا۔ زمبابوے میں اس پھول کو خاص تحفظ حاصل ہے۔ اسے توڑنا جرم ہے اور اس جرم پر چھ ماہ قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں ایک آدمی اجازت لے کر مخصوص علاقوں سے پھول توڑ کر بیچے تو یومیہ دو سو ڈالر ( یعنی قریب ساٹھ ہزار پاکستانی روپے) کما سکتا ہے۔ یہ طبی مقاصد کے لیے استعمال ہوتا ہے اور جوڑوں کے درد، گنٹھیا ، بانجھ پن ، زخموں ، سانپ کے کاٹے ، السر ، گردے کے امراض ، کینسر ، نا مردی ، جذام، خارش، چیچک وغیرہ میں اس کا استعمال مفید ہے۔یہ پھول اگر مارگلہ کے جنگل میں موجود ہے تو اس کا مطلب ہے یہ ماحول اس لیے سازگار ہے اور اسے یہاں زمبابوے کی طرز پر محفوظ زون بنا کر پھیلایا جا سکتا ہے ا ور اس سے فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔لیکن مارگلہ کی جڑی بوٹیوں کا طبی مقاصد میں استعمال ہمارے ہاں کبھی زیر بحث ہی نہیں آیا۔ اگلے روز ، جب ملکی سیاست میں تنائو بڑھ چکا تھا، عابد چرواہے کا پیغام ملا کہ اوپر گوکینہ میں پورے پانچ پھول ’ برآمد‘ ہوئے ہیں جو آبشار کو جاتی ندی کے اطراف کھلے ہیں۔ وہ سہہ پہر ہم نے جنگل کی عافیت میں پھول تلاش کرتے گزاری۔ چرواہے کا مخبر کمزور تھا ، ایک ہی پھول ملا۔ باقی شاید تیز بارشوں کے تھپیڑوں سے گر کر خاک ہو گئے ہوں ۔ واپسی پر میں یہی سوچتا رہا ، آسٹریلیا اور افریقہ میں تو اسے فلیم للی کہتے ہیں ، لیکن یہ ہماری مٹی کا پھول بھی تو ہے ۔ تو اس کا مقامی نام کیا ہے؟ جس نو آبادیاتی باقیات کے اسیر معاشرے میں اپنی زبان اور ثقافت سے وابستگی بھی شرمندگی کی علامت سمجھی جاتی ہووہاں پھولوں تتلیوں اور پودوں کے مقامی نام کوئی کہاں سے تلاش کرے گا؟