کیا پاکستان بھی ایک ڈیپ سٹیٹ ہے؟ خان صاحب سے ایک رپورٹر نے سوال کیا کہ میاں نواز شریف کی تیزی سے گرتی ہوئی صحت کی ذمہ دار کیا ان کی حکومت ہے تو خان صاحب نے اس پر الٹا سوال داغا۔ ’’کیا میں ڈاکٹر ہوں؟ کیامیں عدالت ہوں؟ خان صاحب ڈاکٹر اور عدالت تو نہیں مگر اس کے کچھ دیر بعد عثمان بزدار صاحب سے رابطہ کرکے انہیں بڑے میاں صاحب اور مریم نواز کی ملاقات کے بندوبست کا کہا۔ اور بھی بہت کچھ کہا ،جسے میڈیا میں رپورٹ نہیں کیا گیا۔ طاقت کے اصل مراکز نے عمران خان کو سمجھایا کہ سپورٹ مین شپ اور سیاست کے کھیل میں زیادہ نہیں بلکہ بہت زیادہ فرق ہے۔ مقابل بولڈ بھی ہوجائے تو پھر بھی فاسٹ بولر کو میڈیم پیسر کی طرح گیند کروائی چاہیے ورنہ میچ کا نتیجہ خلاف توقع بھی نکل آتا ہے۔ یاد رہے کہ خان صاحب کے بزدار صاحب کو فون سے ایک ہی دن قبل نیب عدالت مریم نواز کی اس کے والد سے ملاقات کی درخواست رد کرچکی تھی۔ اسٹیبلشمنٹ اس وقت پاکستان کے علاقائی اور معاشی مسائل پر نظریں گاڑے بیٹھی ہے۔ اوپن سیکرٹ ہے کہ ایسے میں اسے شدید ضرورت ہے داخلی یکسوئی کی۔ مگر حالات بالکل اس کے برعکس سفر کررہے ہیں۔ عمران حکومت کا بیانیہ بکنا بند ہوگیا ہے۔ یہی کہ یہ جو سب کچھ ہے رقیبوں کا ہی لایا ہوا ہے جبکہ ہم تو دودھ کے دھلے ہوئے ہیں۔ ہمارے ہاں سیاست کی یہ ٹریجڈی ہے کہ اختلافات کی لکیر کے دونوں جانب ایک جیسا سکہ ہے۔ کھوٹا سکہ … کرپٹ سکہ۔ یہ تھیوری مکمل طور پر غلط ثابت ہوئی کہ اگر ٹاپ مین کرپشن فری ہے تو پورا نظام بھی کرپشن فری ہوسکتا ہے۔ مگر سیاسی Elite دونوں جانب سے ایک سا ہے۔ کوئی کرپشن میں سمجھدار تھا … کوئی کرپشن میں بیوقوف ہے۔ سکہ تانبے کا ہی ہے۔ رخ مختلف سہی۔ مولانا کی ملاقات آرمی چیف سے ہوئی یا نہیں مگر یہ آشکار ہے کہ حکومت مولانا کی کال سے خاصی بدحواس ہے۔ مولانا جو نتائج اس سے حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ آہستہ آہستہ حاصل کرر ہے ہیں۔شہباز کا صلح جو رویہ دھیرے دھیرے رنگ لا رہا ہے۔ عمران خان کبھی بھی این آر او کے حق میں نہیں رہے۔ مگر شہباز مستقل مزاجی سے سفید جھنڈا لہراتے رہے، عمران کے لیے نہیں کسی اور کے لیے۔ اس میں ان کے ہمنوا نون کے خاصے بڑے نام ہیں۔ رانا تنویر … خواجہ آصف اور سنا ہے احسن اقبال بھی۔ میاں نواز شریف کی تیزی سے گرتی ہوئی صحت نے … حکمرانوں کی حماقتوں اور مزید حماقتوں نے … اور چھوٹے میاں صاحب بمعہ حمزہ کی لو پروفائل لائن نے اسٹیبلشمنٹ کو اپنے کارڈدوبارہ ترتیب دینے پر مجبور کردیا ہے۔ ایسے میں میاں نواز شریف کو عدالتوں سے تیزی سے ریلیف ملنا شروع ہوگیا ہے۔ باخبر حلقوں کا اصرار ہے کہ یہ مولانا کے دبائو اور میاں شہباز کی فاختائی ادائوں کا اعجاز ہے۔ مگر اس میں علاقائی اور معاشی صورتحال بھی ڈال لیں تو تصویر مکمل ہوجاتی ہے۔ پنجاب میں عثمان بزدار اپنی سیاسی اور بیوروکریٹک ٹیم بنانے کی سرتوڑ کوشش کررہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے امیج کے ساتھ یہ میڈیا جو لاحقے لگاتا ہے وہ ان کو غلط ثابت کردیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی سیاسی ٹیم میں میاں محمود الرشید کے علاوہ نئی انٹری اسد کھوکھر ہیں۔ بزدار صاحب وزارت اعلیٰ کے متوقع امید واروں سے خاصے خوفزدہ ہیں۔ ان کی بیوروکریٹک اور ٹیکنو کریٹک ٹیم میں عثمان معظم، سیکرٹری ہائوسنگ نسیم صادق، کمشنر لاہور اور زاہد عزیز ایم ڈی واسا شامل ہیں۔ وہ نہ صرف میٹرو اور اورنج ٹرین کا احیا کرنا چاہتے ہیں بلکہ پنجاب کے عوام کو پینے کا صاف پانی فراہم کرکے چیف منسٹرز کی تاریخ میں اپنا نام بھی لکھوانا چاہتے ہیں۔ چیف منسٹر کی ہدایت پر صاف پانی کے پروجیکٹ کے لیے واسا کو اتھارٹی بنانے کے لیے ہائوسنگ اور واسا سر جوڑ کر بیٹھے ہیں۔ مگر بیوروکریسی کا اڑیل گھوڑا ان کو مان کر نہیں دے رہا۔ ایسے میں عثمان بزدار وزارتِ اعلیٰ کی گیلی وکٹ پر رنز بنانے کی مشکل کاوشوں میں مصروفِ عمل ہیں۔ چیف منسٹر کی خواہش بھی ہے، تکنیکی مدد بھی موجود اور فنڈز بھی۔ مگر وہ بیوروکریسی ہی کیا جو ٹیکنیکل باتوں میں اپنی ٹانگ نہ پھنسائے۔ اس چھوٹی تصویر کے اوپر ایک بڑی تصویر بھی ہے۔ مہلت تیزی سے کم ہوتی جارہی ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ عمران بعض وجوہات کی بنا پر بزدار صاحب کو قائم رکھنے پر مصر تھے۔ مگر پنجاب کی سطح سے جو غیرسیاسی رپورٹیں اوپر جاتی رہیں وہ اینٹی بزدار تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ بعض منسٹرز جو وزیر اعلیٰ بننے کے خواہش مند تھے وہ غیر سیاسی اداروں میں اپنی راہیں بنا کر بھی بزدار کو ناک آئوٹ کرنے کی کاوشیں کر رہے ہیں۔ عمران اب بزدار پر اتنا اصرار نہیں کرتے، خاص طور پر مولانا فضل الرحمن کی دھرنا کالز کے بعد۔ دوسری جانب پرویز الٰہی بزدار صاحب کے کندھے پر ہاتھ رکھے انہیں مکمل سپورٹ کی یقین دہانی کراتے رہتے ہیں اور دوسری جانب وہ کچھ اہم ملاقاتوں میں یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’تسی چاہوو تے اسی وی تہاڈی خدمت لئی تیار آں‘‘۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پنجاب کے لیے شہباز شریف کا متبادل چودھری پرویز الٰہی ہی تھے۔ مگر عمران خان گیلی جگہ پر پائوں رکھنے کو تیار نہ تھے۔ بزدار کا انتخاب انہوں نے کیوں کیا یہ کہانی پھر سہی مگر اس وقت وہ بزدار کو ہٹانا بھی چاہیں تو یہ اتنا آسان نہ ہوگا۔ دوسری جانب چودھری صاحبان بزدار سے بھی دوستی کا دم بھرتے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ سے بھی۔ حالانکہ خان کو جو Vibes دوسری جانب سے آرہی ہیں وہ اینٹی بزدار ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ دھرنے کے پس منظر میں عمران خاصا ضعف محسوس کر رہے ہیں اور اس عالم میں ان سے بعض ایسے فیصلے ضرور سرزد ہوں گے جو عام حالات میں وہ نہیں مان رہے تھے۔ محبتوں میں عجب ہے دلوں کو دھڑکا سا نہ جانے کون کہاں راستہ بدل جائے