دیکھا گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان متنازعہ امور پر مذاکرات کا سلسلہ جوں ہی مثبت موڑ لینا شروع کردیتا ہے، توبد قسمتی سے کچھ ایسے حالات رونما ہوتے ہیں، کہ پہنچے وہیں چلے تھے جہاں سے ،کے مصداق، کشیدگی کا ایک نیا دور شروع ہو جاتا ہے۔ ایک نئی صبح کی آس لئے دونوں ممالک خاص طور پر کشمیری عوام ایک بار پھر شام غم کے چھٹنے کے انتطار میں اپنی قسمت کو کوس رہے ہوتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں بھارتی خارجی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالیسز ونگ یعنی را سے وابستہ ایک آفیسر واپالا بالا چندرن نے اپنی کتاب INTELLIGENCE OVER CENTURIES میں انکشاف کیا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان فوجی آمر صدر جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں کئی معاملات پر اہم پیش رفت ہو گئی تھی۔اس کے علاوہ انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ کس طرح بھارتی لابنگ کی وجہ سے امریکی انتظامیہ پاکستان کو دشمن ممالک کی صف میں ڈالنے کی سعی کر رہی تھی اور اسکو باز رکھنے کیلئے جب وزیر اعظم نواز شریف کا مشن فیل ہوگیا، تو بے نظیر بھٹو، جو ایک پرائیویٹ دورہ پر واشنگٹن میں تھی، نے بھارت کی اس کوشش کو ناکام بنادیا۔ انڈین پولیس سروس سے وابستہ بالا چندرن 18سال تک رامیں مختلف خدمات انجام دیتے رہے اور 1987سے 1990تک اس کے سربراہ اے کے ورما کے چیف آف اسٹاف تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ جنرل ضیا کی ایما پر پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل حمید گل اور ورما کے درمیان کئی دور کے مذاکرات ہوئے، جن میں اعتماد سازی کے کئی پہلوئوں پر اتفاق رائے پایا گیا۔284 صفحات کی اس کتاب میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 1988میں جنرل ضیا نے محسوس کیا تھ اکہ ہوشربا دفاعی اخراجات دونوں ممالک کی اقتصادیات پر ایک بوجھ ہیں اور اس کی وجہ سے وہ اپنی استعداد کے مطابق ترقی نہیں کر پا رہے ہیں۔ اس لئے انہوں نے اردن کے اسوقت کے ولی عہد شہزادہ حسن سے بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کو پیغام پہنچانے اور ثالثی کی درخواست کی۔ شہزادہ حسن کی شادی پاکستان کے پہلے خارجہ سیکرٹری محمد اکرام اللہ کی صاحبزادی ثروت اکرام اللہ کے ساتھ ہوئی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اکرام اللہ بھارت کے سابق نائب صدر جسٹس ہدایت اللہ کے برادر اکبر تھے۔ ہدایت اللہ بھارت کے 11ویں چیف جسٹس بھی رہے ہیں۔ خفیہ پس پردہ مذاکرات کیلئے جب صدر ضیا نے جنرل حمید گل کا انتخاب کیا، تو بھارت میں اس پر تذبذب کی کیفیت تھی، کیونکہ گل کو بھارت کے تئیں نہایت ہی سخت گیر اور پنجاب سے لیکر کشمیر تک ہونے والی شورش کی پشت پناہی کیلئے مورد الزام ٹھہرایا جاتا تھا۔ مگر بقول بالا چندرن ، جو ان دنوں ورما کے اسٹاف میں شامل تھے، گل نے پہلی ہی ملاقات میں بھارتی وفد کو اپنا گرویدہ بنالیا۔ اس کی وجہ یہ تھی، کہ انہوں نے اپنا موقف بغیرکسی لا گ لپٹ کے مذاکرات کی میز پر رکھا اور سفارتی زبان کے بجائے کھرے لفظوں میں بتایا کہ پاکستان ہی نہیں بلکہ جنوبی ایشیاکے اکثر ممالک بھارت کے رقبہ اور اسکے رویہ سے خائف ہیں اور سری لنکا کی مثا ل دیکر کہا کہ بھارت کا رویہ متکبرانہ ہے۔ ان دنوں بھارت سری لنکا میں تامل علاحدگی کو براہ راست مدد دے رہا تھا۔ انہوں نے ورما کو کہا کہ بھارت کی ذمہ داری ہے کہ وہ خطے میں اعتماد پیدا کرے، ورنہ پاکستان اور دیگر ممالک کو بھی اپنے ترکش کے تیر آزمانے کا حق حاصل ہے۔ بالا چندرن کا کہنا ہے کہ ورما کی واپسی پر جب اس گفتگو کا تجزیہ کیا گیا تو نتیجہ اخذ کیا گیا کہ اس چینل کے ذریعے دونوں ممالک اہم پیش رفت حاصل کرسکیں گے، کیونکہ دونوں مذاکرات کار بے جھجھک ایک دوسرے کے ممالک میں ہونے والی کارروائیوں کوتسلیم کررہے تھے۔ اس کے علاوہ ان کو بند کروانے کے عوض اعتماد سازی کے اقدامات کی بھی نشاندہی کررہے تھے۔ اسلئے نئی دہلی میں طے ہوا کہ اس سعی کو جاری رکھنا چاہئے ، ورنہ سفارتی سطح پر اس طرح کی پیش رفت حاصل کرنے میں ایک عمر درکار ہوتی ہے۔ کئی میٹنگوں کے بعد خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان، جو صرف سربراہان مملکت کو ہی رپورٹ کر رہے تھے، متنازعہ امورکو سلجھانے کیلئے ایک فریم ورک ترتیب دینے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ اس سے قبل کہ یہ عمل آگے بڑھ کر خفیہ مذاکرات سے سفارتی میز تک پہنچ جاتا کہ صدر ضیاء الحق ہوائی حادثہ میں ہلاک ہوگئے ۔ دہلی میں امریکی سفیر جان گنتھر ڈین نے جب امریکی محکمہ خارجہ کو بتایا کہ ان کے تجزیہ اور اطلاعات کے مطابق اس ہلاکت میں مشترکہ طور پر بھارت، اسرائیل، کے جی بی اور افغان سیکرٹ سروس خاد کا ہاتھ ہے، تو اسکو فوراً واشنگٹن واپس بلایا گیا۔ مئی 1989میں گل کو نئی حکومت نے آئی ایس آئی کی ذمہ داریوں سے فارغ کرکے ملتان میں اسٹرائیک کور کا کمانڈر مقرر کردیا۔ادھر بھارت میں دسمبر 1989میں راجیو گاندھی انتخابات ہار گئے اور اگلے سال تامل انتہا پسندوں نے ان کا قتل کردیا۔ ان دنوں بھارت میں پاکستان کے سفیر نیاز اے نائیک ان خفیہ مذاکرات کے واحد گواہ تھے۔ بعد میں 1999 میں لاہور میں جب دونوں ملکوں کے وزراء اعظموں نے مذاکرات کا احیاکیا، تو پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے نائیک کو ہی واجپائی کے مذاکرات کار آرکے مشرا کے ساتھ پس پردہ مذاکرات کو آگے بڑھانے کیلئے منتخب کیا۔ان مذاکرات کا حشر بھی وہی ہوا۔ اس کے چند ما ہ بعد ہی دونوں ممالک نے کرگل کے بلند و بالا پہاڑوں پر جنگ لڑکر ان کو دفن کردیا۔ (جاری ہے)