وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت حکومتی اور اتحادی جماعتوں کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں ملکی سیاسی صورتحال پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں متعدد ارکان نے وزراء اور مشیروں کی کارکردگی پر شدید نکتہ چینی کی اور کہا کہ عوام کے پاس تو پارٹی نے جانا ہے۔ ارکان نے مہنگائی اور گرانی پر تشویش ظاہر کی۔ 2018ء میں عوام نے مسلم لیگ (ن)اور پیپلز پارٹی کی عوام کش پالیسیوں کے باعث انہیں مسترد کر کے پی ٹی آئی کو ووٹ دیے تھے۔ جس کا مقصد عوام کے لئے سہولیات فراہم کر کے ان کی زندگیوں کو آسان بنانا تھا لیکن بدقسمتی سے اڑھائی برس کا وقت گزرنے کے باوجود حکومت عوامی امنگوں پر پورا نہیں اتر سکی،ابھی تک مہنگائی اور بے روزگاری پر قابو نہیں پا یا جا سکا۔ جس کے باعث اپوزیشن جماعتوں کو یہ کہنے کا موقع مل رہا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت عوامی امنگوں پر پورا نہیں اتر رہی۔ یہ بات پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کو ستائے جا رہی ہے کہ جب اڑھائی برس کے بعد عوام کا سامنا ہو گا تو انہیں کیا جواب دیں گے۔کیونکہ اپنے گوناگوں مسائل سے لاچار ہوئے عوام نے عمران خان کے تبدیلی اور نئے پاکستان کے ایجنڈے میں اپنے مستقبل کے لئے امید کی کرن دیکھ کر ہی ان کے ساتھ توقعات وابستہ کی تھیں ۔ اب اگر حکمران پارٹی ان کی توقعات پر پورا نہیں اترے گی تو 2023ء میں انہیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس وقت مہنگائی‘ بے روزگاری‘ غربت میں اضافہ اور ٹیکسوں کا بوجھ پورے ملک کے لئے درد سر بنا ہوا ہے۔ایک سروے رپورٹ کے مطابق81فیصد مہنگائی‘ 79فیصد بے روزگاری 56فیصد غربت‘55فیصد ٹیکسوںاور صرف2فیصد کرپشن اور اقربا پروری کو اہم مسائل سمجھتے ہیں۔ اگر اس سروے کی بنیاد پر ہی نتائج مرتب کیے جائیں تو بھی یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ زیادہ تر افراد مہنگائی اور بے روزگاری کے ہاتھوں تنگ ہیں۔ گزشتہ روز جب ارکان اسمبلی نے وزیر خزانہ سے مہنگائی کی بابت سوال کیا تو انہوں نے معاشی صورتحال پر ایسی تصویر پیش کی کہ سبھی دنگ رہ گئے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کورونا کے باعث عالمی مارکیٹ میں اشیاء ضروریہ مہنگی ہوئی ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو اشیاء ہم خود پیدا کر رہے ہیں گندم وغیرہ ،ان کا عالمی مارکیٹ سے کیا تعلق ہے؟ یہ صرف مس مینجمنٹ ہے۔ ذخیرہ اندوزوں سے کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ،جبکہ منڈیوں میں بیوپاری اپنی مرضی کا ریٹ لگا کر مہنگے داموں عوام کو اشیاء فروخت کر رہے ہیں ،پرائس کنٹرول کمیٹیوں سے لیکر ضلعی انتظامیہ تک سبھی نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے ، اگر حکومتی مشینری متحرک ہو وزراء اور بیورو کریسی دفاتر سے نکل کر خلق خدا کو ریلیف فراہم کرنے پر تیار ہو جائے تو چند دنوں میں مہنگائی کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے۔لیکن ہم اڑھائی برس سے دیکھ رہے ہیں کہ حکومتی مشینری اس سلسلے میں مکمل ناکام نظر آتی ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ عوام نے اس بنیاد پر بھی زیادہ امیدیں وابستہ کیں کہ انہوں نے کرپشن فری سوسائٹی کی تکمیل اور پاکستان کا سرمایہ پاکستان میں بروئے کار لانے کے لئے بھی امید کی کرن دکھائی۔ انہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد ایوانوں میں ضائع ہونے والے قومی سرمائے میں بچت کا پروگرام شامل کیا۔ وہی کرپشن فری سوسائٹی کے لئے نیب کو زیادہ متحرک کرنے کا بھی اعلان کیا‘ اپوزیشن کے دبائو کے باوجود نیب کے اختیارات محدود کرنے سے انہوں نے انکار کیا۔ جس پر عوام ان کی کارکردگی سے مطمئن ہیں۔ لیکن عوام کے گھروں میں اگر بھوک ناچ رہی ہو تو وہ دیگر اقدامات کو بھول جاتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان اور وفاقی وزراء قوم کو مشکل صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے انہیں اچھے مستقبل کے لئے امید کا دامن تھامے رکھنے کی تلقین کر رہے ہیں تاہم عوام کا اضطراب اس تناظر میں بڑھ رہا ہے کہ یہی سارے معاملات تو سابقہ حکمرانوں کے ادوار حکومت میں بھی ہوتے رہے ہیں۔ اس لئے ان میں اور موجودہ حکمرانوں میں کیا فرق ہے۔ ان حالات میں عوام کو مطمئن کرنا اور انہیں ریلیف فراہم کرنا حکومتی ذمہ داری ہے۔ریلیف کیسے فراہم کی جا سکتا ہے ،اس سلسلے میں حکومت کے پاس وسیع اختیارات ہیں لہذا حکومت اپنے اسباب کو استعمال کرتے ہوئے عوام کو ریلیف فراہم کرے۔تحریک انصاف کی حکومت کے پاس وقت کم اور مقابلہ سخت ہے، اگر آنے والے اڑھائی برس میں وہ عوامی امنگوں پر پورا اترتی ہے ،مہنگائی کنٹرول کر کے بے روزگاری پر قابو پانے میں کامیاب ہو جاتی ہے، تو 2023ء میں عوام کے پاس جانے کا راستہ ہموار ہو گا اور عوام اس کی کارکردگی سے مطمئن ہو کر انہیں ایک بار پھر خدمت کا موقع دیں گے۔ بالفرض اگر وہ یہ اقدامات کرنے میں کامیاب نہیں ہوتی تو پھر اس کے بعد اسے عوام کا سامنا کرنے میں مشکل ہو گی۔ عوام صرف پانچ برس بعد ہی ووٹ کے ذریعے بدلہ لیتے ہیں،جس طرح عوام نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو راندہ درگاہ کیا تھا یہ نوبت پی ٹی آئی پر بھی آ سکتی ہے ،اس لئے پی ٹی آئی موجودہ اپوزیشن کو دیکھے کس طرح عوام نے ایک پارٹی کو انتقام لیتے ہوئے اسے صرف ایک صوبے تک محدود کر دیا جبکہ دوسری پارٹی اپنے تما م تر دعووں کے باوجوداقتدار سے باہر ہے ۔لہذا پی ٹی آئی ابھی سے منصوبہ بندی کرے تاکہ اسے عوام کے پاس جانے میں کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔