بہت بار کوئی ایک جماعت یا حکومت دانستہ ہوشیاری سے کام لے کر چند ایسے اقوال زریں ٹائپ فقرے مختلف طریقوں سے میڈیا، سوشل میڈیا ، ہر جگہ پھیلا دیتی ہے تاکہ لوگ کنفیوز ہوجائیں۔آج کل بھی ایسا ہی ہو رہا ہے، ایسی چند بنیادی قسم کی غلط بیانیوں پر بات کرتے ہیں۔ :1پارلیمنٹ سپریم ہے یہ وہ جملہ ہے جوپی ڈی ایم کے رہنما اٹھتے بیٹھتے بول رہے ہیں۔ گمان ہے کہ جناب وزیراعظم ، بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمن وغیرہ خواب میں بھی یہی جملہ بڑبڑاتے ہوں گے۔ یہ جملہ ایک اعتبار سے تو درست ہے، مگر موجودہ حالات میں جس طرح اور جس مقصد کے لئے اسے استعمال کیا جارہا ہے، وہ صریحاً غلط اور ناجائز ہے۔ پارلیمنٹ سپریم ہونے کی بات ہمیشہ غیر جمہوری قوتوں اور خاص کر اسٹیبلشمنٹ کے اپنے دائرہ کار سے تجاوز کرنے کے حوالے سے استعمال کی جاتی ہے۔غیر پارلیمانی قوتوں سے موازنہ کرتے ہوئے پارلیمنٹ کو جسٹی فائیڈ اور سپریم کہا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ کا موازنہ کبھی کسی آئینی ادارے سے نہیں کیا جا سکتا اور وہ بھی عدلیہ جیسا ریاست کا بنیادی ستون جس کے تحفظ کے لئے آئین میں بہت کچھ موجود ہے۔ یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ جب بھی ریاست کے تین پلرز یعنی ستونوں کی بات ہوتی ہے تو ہمیشہ مقننہ(پارلیمنٹ)،حکومت (ایگزیکٹو)اور عدلیہ (جوڈیشری )کا نام آتا ہے۔ ایسا نہیں کہ صرف مقننہ سپریم ہے اور باقی اس کے بالک یا چھوٹے ہیں۔ ان کا اپنا دائرہ کار ہے اور اسی میں وہ سپریم ہیں۔ درحقیقت آئین سپریم ہے اور اسی نے پارلیمنٹ کو قانون سازی کی قوت بخشی ہے، ایگزیکٹو کو حکومت چلانے اور عدلیہ کو آئین کی تعبیر وتشریح کا حق اور اپنے فیصلوں کی آزادی اور ان پر لازمی عملدرآمد کی قوت بخشتی ہے۔ :2پارلیمنٹ چاہے تو سب کچھ بدل دے آج کل یہ بات بھی کہی جا رہی ہے۔ اگلے روز پی پی کے قمر زماں کائرہ یہ کہتے ہوئے پائے گئے. نہایت متکبرانہ انداز میں انہوں نے فرمایا، پارلیمنٹ چاہے تو سپریم کورٹ کا نام بدل دے، چاہے تو اس کے اختیارات اور سب کچھ بدل دے۔ بھائی صاحب ٹھیک ہے کہ آپ سیاستدان ہیں، ایک بار دھکے سے الیکشن جیت کر وزیر بھی بن گئے، ٹاک شوز میں بھی آپ کو بلا لیا جاتا ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ جو منہ میں آئے بول دیا جائے۔حقیقت میں پارلیمنٹ کو یہ ہرگز حق اور اختیار حاصل نہیں کہ وہ سپریم کورٹ کے اختیارات کم کر سکے۔ عدلیہ کی آزادی آئین کا بنیادی حصہ یعنی بیسک سٹرکچر ہے۔ پارلیمنٹ اس پر قدغن نہیں لگا سکتی۔، ہاں اگر ملک میں مارشل لا ہے اور کوئی ربر سٹمپ نام نہاد پارلیمنٹ چل رہی ہے تو وہ جو مرضی کر دے ، طاقت کے آگے کس نے پوچھنا ہے۔ پارلیمنٹ کو آئین سازی کاحق حاصل ہے لیکن اسے آئین کی بنیادی روح کے خلاف قوانین منظور کرنے کا بھی حق نہیں۔ ایسی صورت میں دنیا کے بہت سے ممالک میں سپریم کورٹس نے جوڈیشل ریویو کا حق استعمال کرتے ہوئے اس قانون یا آئینی ترمیم کو ساقط قرار دیا۔ دستور میں بنیادی قسم کی ترامیم کرنے کے لئے دستورساز اسمبلی کا انتخاب ضروری ہے جو الیکشن ہی اسی ایجنڈے پر لڑے اور اس کے پاس عوامی مینڈیٹ ہو، جیسا کہ 1970 ء کے الیکشن میں ہوا۔ : 3سیاسی مسائل کا حل پارلیمنٹ میں نکالا جا سکتا ہے۔ یہ ایک اور گھسا پٹا کلیشے ہے۔ صاف بات یہ ہے کہ سیاسی مسائل کا حل پارلیمنٹ میں نکالا جانا چاہیے ۔ یہ کام مگر وہ اسمبلی کر سکتی ہے جہاں کوئی جمہوری جماعت یا اتحاد حکمران ہو، جس کے پاس اخلاقی جواز ہو، جو جمہوریت ، آئین اور سیاسی روایات پر یقین رکھتی ہو۔ جیسا طرزعمل موجودہ حکمران پی ڈی ایم کا ہے، اس نے کیا حل نکالنا ہے؟ پی ڈی ایم کی سیاسی جماعتیں جو دانستہ سازش کر کے ایک منحرف رکن اسمبلی کو لیڈر آف اپوزیشن بنائیں۔ وہ قائد حزب اختلاف جو درحقیقت حکومت ہی کا ایجنٹ اور ٹائوٹ کا کردار ادا کر رہا ہے۔ ایسا’’ سیانا ‘‘آدمی جو پارلیمنٹ میں خود کھڑا ہو کر کہہ رہا ہے کہ مجھے پچھلی حکومت گرانے کے لئے بہت سے وعدے وعید کئے تھے، مگر اب کوئی لفٹ ہی نہیں کراتا(پشانتا ہی نہیں)۔ ایسی پارلیمنٹ نے کیا سیاسی حل نکالنا ہے؟ جو اس خوف اور ڈر سے الیکشن میں نہیں جانا چاہتی کہ بدترین شکست سامنے کھڑی منہ چڑا رہی ہے، عوام کا شدید ترین انتقام ان کا خون خشک کر رہا ہے۔ ویسے بھی سوال یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں لازمی طور پر ایک جماعت کی اکثریت ہوگی ، وہی جس کی حکومت ہے۔ اگر کسی معاملے میں وہ اکثریتی جماعت انصاف نہیں کرتی، اپوزیشن کے ساتھ ظلم اور جبر ، ناانصافی کرتی ہے تو ایسے میں جتنے بھی سیاسی ایشوز پارلیمنٹ لے آئے جائیں، کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ خواہ ایک دو ممبروں کی اکثریت سے ، وہ ہر قانون اپوزیشن کے خلاف ہی منظور کریں گے۔ تب مسائل کیسے حل ہوسکتے ہیں؟خاص کر جب کوئی حکمران جماعت الیکشن میں جانا ہی نہ چاہتی ہو، تو پھراس معاملے پر پارلیمنٹ کیا کر لے گی؟ : 4سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے مالی معاملات میں دخل نہیں دے سکتی یہ وہ بات ہے جو کل اور پرسوں اسمبلی میں تقریریں کرتے ہوئے وزیراعظم اور مختلف وزرا نے کہا۔ یہ بات بھی بالکل غلط اور ناجائز ہے۔ سپریم کورٹ نے کہاں پارلیمنٹ کے مالی معاملات میں دخل دیا؟ کیا سپریم کورٹ نے کہا کہ ججوں کی تنخواہیں بڑھا دو یا مراعات میں اضافہ کر دو یا ان کا سٹاف بڑھا دو؟ سپریم کورٹ کے ججوں نے کیا اپنے علاقوں کے ترقیاتی فنڈز یا نوکریوں کا کوٹہ مانگ لیا ؟ نہیں ایسا کچھ بھی نہیںہوا اور نہ ہوگا۔ سپریم کورٹ نے تو صرف اتنا کہا تھا کہ آئین کے تحت تحلیل شدہ صوبائی اسمبلیوں کا الیکشن ہونا ضروری ہے، اس کے لئے حکومت تعاون کرے اور روٹین کے مطابق فنڈز ایشو کرے۔ ویسے توحکومت کے لئے نہایت شرم کی بات ہے کہ سپریم کورٹ کو کہنا پڑا، حالانکہ یہ تو انڈرسٹڈ بات ہے۔حکومت ازخود یہ کر دیتی تو سپریم کورٹ کو کہنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ اتنے الیکشن پاکستان میں ہوچکے ہیں، کبھی یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوا۔ یہ بدترین ’’اعزاز‘‘بھی اسی پی ڈی ایم کو حاصل ہوا کہ الیکشن کے لئے فنڈز نہ دینے سے انکاری ہوجائے ۔ : 5عدلیہ کو پنچائت نہیں بننا چاہیے یہ بات مولانا فضل الرحمن نے عید کے موقعہ پر کہی۔ یکسر غلط اور بے تکی بات ہے۔ عدلیہ نے کب پنچائت کا کردار ادا کیا؟ کیا ماضی میں اور حال میں بھی جب کبھی حکومت اپوزیشن میں سیاسی جنگ چھڑی تھی، عدلیہ نے مداخلت کر کے پنچائت بننے اور ثالثی کرانے کی کوشش کی ؟ نہیں بالکل نہیں۔ اس بار بھی اصل مسئلہ پنجاب اور کے پی اسمبلیوں کے الیکشن ہیں۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیربحث ہے۔ حکومت کا بس نہیں چلتا رہاکہ کہاں کہاں سے منت ، ترلے ، بہانے اور عذر تلاش کر کے عدالت میں آتی ہے کہ الگ الگ الیکشن نہیں ہوسکتے، اکھٹے ہونے چاہئیں۔ جب انہوں نے بہت کھپ ڈالی اور ترلے کئے تو سپریم کورٹ نے کہہ دیا کہ چلیں چند دنوں کی آپ کو مہلت ہے، مل بیٹھ کر کوئی درمیانہ راستہ نکال لیں۔ مقصد یہ تھا کہ جو صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہوئی ہیں، ان کا الیکشن کرانا تو آئینی طور پر لازمی ہے، لیکن آپ اتنی تکلیف میں ہیں تووہ ڈیٹ تھوڑا سا آگے ہوجائے، آپ اکتوبر سے کچھ نیچے آ جائیں، اگرقومی اتفاق رائے ہوجائے تو چلیں اچھا ہے۔ سپریم کورٹ کی اس فراخ دلی کا فائدہ اٹھا کر بحران ختم کرنا چاہیے تھا، اس کے بجائے عدلیہ پر پنچائت بننے کا طنز کرنا نہایت بھونڈی اور گھٹیا حرکت ہے۔ : 6 عدالت کا پارلیمنٹ کے دائرے میں دخل دینا توہین پارلیمنٹ ہے تازہ ارشاد یہ ہوا ہے کہ عدالت نے چونکہ پارلیمنٹ کو کہا ہے کہ الیکشن کے لئے فنڈز فراہم کرو، اس لئے عدالت نے توہین عدالت کی ہے۔ مجھے شدید حیرت ہوئی کہ آکسفورڈ کے پڑھے ہوئے بلاول بھٹو نے بھی یہی بات کی۔ کیا بلاول نے آکسفورڈ میں قیام کے دوران برطانیہ کی سیاسی، آئینی، جمہوری روایات کا زرا بھر مطالعہ نہیں کیا۔ وہ لگتا ہے کورے کے کورے ہی واپس لوٹے ہیں۔ کوئی پڑھا لکھا شخص یہ کہہ کیسے سکتا ہے؟ نہایت سادہ اور صاف معاملہ یہ ہے کہ آئین کے مطابق دو صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہوئیں، ان میں الیکشن ہونے لازمی ہیں۔وہ الیکشن کرانا الیکشن کمیشن اور نگران حکومتوں کی ذمہ داری ہے اور اس کے لئے تعاون کرنا حکومت کا کام۔ حکومت اگر فنڈز ریلیز کر دیتی تو معاملہ ختم ہوجاتا۔ حکومت نے دانستہ عیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے پارلیمنٹ میں بھیجا اور پھر اپنی ہی قائمہ کمیٹی سے اسے مسترد کرا دیا۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ کوئی حکومت اگر فنانس بل منظور نہ کرا سکے تو یہ حکومت گرنا سمجھ جاتا ہے۔ حرف آخر یہ کہ آکسفورڈ کا پڑھا بلاول، مدرسے کے پڑھے مولوی فضل الرحمن اور گورنمنٹ کالج کے پڑھے وزیراعظم شہباز شریف ، ان سب نے لگتا ہے آئین پڑھنے کی کبھی زحمت ہی نہیں کی۔ پارلیمنٹ کی استحقاق کمیٹی کو کوئی اختیار نہیں کہ وہ ججوں کو طلب کرنا تو درکنا ر، ایسا کرنے کا سوچ بھی سکیں۔ اگر عدالت عظمیٰ اس پر سخت نوٹس لے تو یہ تینوں احباب نااہل ہوجائیں گے۔سرائیکی اصطلاح کے مطابق ان معزز صاحبان کا اگلے پانچ سال ڈھولے گاتے وقت گزرے گا۔ زنگار/ عامر خاکوانی