ملک کے معاشی میدان سے اچھی خبروں کا اثر پاکستان سٹاک ایکسچینج میں بھی نظر آ رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں بدھ کو ایک دن میں سب سے زیادہ حصص کی خریدوفروخت کا نیا ریکارڈ قائم ہوا ہے، ملکی تاریخ میں پہلی بار ایک روزہ کاروباری حجم 131فیصد کے اضافے سے ایک ارب 56کروڑ 33لاکھ 60ہزار 922حصص کے سودوں پر مشتمل رہا ہے۔ کورونا وائرس نے دنیا بھر کی معیشت کو اپنے منحوس پنجوں میں جکڑ رکھا ہے۔ جس کے باعث بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک کا جی ڈی پی بھی کم ہوا ہے لیکن ان حالات میں پاکستانی معیشت نے ترقی کی ہے، جس کا کورونا کے باعث پاکستانی ٹیکسٹائل کو دنیا بھر سے ملنے والے آرڈرز کا بھی گہرا تعلق ہے،بنگلہ دیش اور بھارت میں جب کورونا کی شدید لہر جاری تھی تب پاکستان میں حالات کنٹرول میں تھے،اسی مناسبت سے پاکستانی ٹیکسٹائل کو دنیا بھر سے آرڈرز ملے تھے ۔ اسی دوران حکومت پاکستان نے کسانوں کو بھر پور مراعات دیں۔ 1100ارب روپے دیہی معیشت پر لگائے ، جس کے ثمرات معیشت میں بہتری کی صورت میں ملے۔ مالی سال 2019-2020ء میں 57.6کا اضافہ ریکارڈ کرتے ہوئے باسمتی چاول کے کاشتکاروں نے 268ارب روپے کی آمدنی کی جو 2017-2018ء میں 170ارب روپے تھی۔ اس طرح مکئی کے کاشتکاروں نے 60.7فیصد کا اضافہ ریکارڈ کرتے ہوئے 2019-20ء میں 45ارب روپے کی تھی جبکہ 2017-18ء میں یہ28ارب روپے تھے۔کپاس کے کاشتکاروں نے8.3فیصد اضافہ ریکارڈ کرتے ہوئے 2019-20میں 26ارب روپے کمائے جبکہ 2017-18میں 24ارب روپے تھے۔ حکومت نے اشیاء کی امدادی قیمتوںمیں دل کھول کر اضافہ کیا۔ جس کے باعث کسانوں نے بھی جی لگا کر محنت کی، یوں پاکستانی معیشت نے سب کو حیران کر دیا ہے۔ جب کورونا کی پہلی لہر آئی، تو حکومت نے لوگوں کو بے روزگاری سے بچانے کے لئے 200ارب روپے کی رقم سے کم وسیلہ افراد کی مدد کی۔200ارب روپے کی مارکیٹ میں گردش کے باعث بھی معاشی حالات کنٹرول میں رہے۔ بے وسیلہ لوگوں نے پیسے مارکیٹ میں لگا کراپنا چولہا جلایا۔ کاروبار کا پہیہ چلا اس کے ثمرات بھی معیشت کے استحکام کی صورت میں ملے۔ مسلم لیگ (ن) کے دور اقتدار میں جی ڈی پی 5فیصد سے زیادہ تھی لیکن تب کورونا کا وجود نہیں تھا۔ بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر تھے۔واہگہ بارڈ کے ذریعے تجارت جاری تھی، عرب ممالک بھی ان پر مہربان تھے۔ کارخانے فیکٹریاں چوبیس گھنٹے چلتی تھیں۔ بازار مارکیٹیں بلا تعطل کھلی رہتی تھیں، جس کے باعث کاروباری حالات بہتری کی طرف گامزن تھے لیکن پی ٹی آئی حکومت کو ویسا ماحول میسر نہ آیا۔ کورونا کی پہلی لہر پر لاک ڈائون لگایا گیا، فیکٹریوں اور کارخانوں کو محدود وقت کے لئے کام کی اجازت دی گئی۔ بازاراور مارکیٹس کو سرشام ہی بند کر دیا جاتا رہا۔ جس کے باعث معیشت کا پہیہ جام ہو چکا تھا۔لیکن حکومت نے زرعی شعبے پر مکمل توجہ مرکوز رکھی۔جس نے جی ڈی پی کو بڑھایا ہے۔ معیشت بہتری کی جانب گامزن ہو، تو اس کے اثرات باقی کاروبار پر بھی نظر آتے ہیں۔ حکومت نے جیسے ہی جی ڈی پی کی بہتری کا اعلان کیا تو کاروباری طبقے کا مورال بلند ہوا، جس کے اثرات پاکستان سٹاک ایکسچینج پر بھی نظر آئے اور پہلی بار 84فیصد شیئرز کی ٹریڈنگ ریکارڈکی گئی۔ جبکہ تیزی کے باعث 67.13فیصد حصص کی قیمتیں بھی بڑھ گئیں۔ ایک موقع پر تو 555پوائنٹس کی تیزی بھی دیکھنے میں آئی۔ تاہم اختتامی لمحات میں تاجروں کی نظر یں فوری منافع کے حصول پر مرکوز ہوتی ہیں اور مارکیٹ میں یہ رجحان غالب آ جاتا ہے، جس کے باعث تیزی کی شرح میں قدرے کمی واقع ہوتی ہے لیکن ایک ارب 56کروڑ 33لاکھ شیئر کے سودے ہونا اور مجموعی طور پر کاروبار میں 131فیصد اضافہ، اس بات کی دلیل ہے کہ پاکستان کے معاشی حالات اب بہتری کی طرف جانب گامزن ہیں۔ حکومت نے جب جی ڈی پی میں اضافے کا اعلان کیا تو اپوزیشن جماعتوں نے اس پر کئی قسم کے سوال اٹھائے لیکن پاکستان سٹاک ایکسچینج میں جو ریکارڈ کاروبار ہوا، اس پر تو کسی قسم کی انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی ہے۔ یہ تو سب کے سامنے ہے۔ درحقیقت مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی عرصہ 35برس سے اقتدار میں باریاں لے رہی ہیں۔ ان کے پاس مضبوط ٹیم اور تجربہ ہو سکتا ہے لیکن پی ٹی آئی کی حکومت نے کم عرصے میں جو کام کیا ہے، اس کا مقابلہ ان کے بس کی بات نہیں ہے۔ اگر شروع دن سے ہی پی ٹی آئی آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ کر لیتی، اس میں تذبذب کا شکار ہو کر تاخیر نہ کرتی تو یقینی طور پر اسے فائدہ ہوتا۔ حکومت نے آئی ایم ایف کے پاس جانے میں جتنی تاخیر کی اسی تناسب سے شرائط میں اضافہ ہوتا گیاجونقصان کا باعث بنا ۔ اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر بھی استحکام کی جانب گامزن ہیں جبکہ اوورسیز پاکستان بھی ماضی کی نسبت زیادہ پیسے بھیج رہے ہیں اور روشن ڈیجیٹل اکائونٹ نے اوورسیز پاکستانیوں کے لئے مزید آسانی پیدا کی ہے۔ معیشت کی بہتری اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ یہ دونوں چیزیں اس بات کی دلیل ہیں کہ اگر حکومت اسی طرح اپنے کام میں لگی رہی تو انشاء اللہ آنے والے دن پاکستانی معیشت کے لئے بہتر ہوں گے اور اگلے برس ہمارا جی ڈی پی6 پلس ہو جائے گا لیکن یہ تب ہو گا جب ہم تسلسل کے ساتھ کام میں لگے ر ہیں ۔