طبل جنگ بج چکا ہے ۔سیاسی درجہ حرارت نقطہ پگھلائو سے بھی اوپر ہے ۔حزب اختلاف کی گیارہ سیاسی جماعتیں تین صوبوں میں طاقت کا مظاہرہ کر چکی ہے ۔پی ڈی ایم میں شامل سب بڑی جماعت کے قائد میاں نواز شریف نے نام لے کر نہ صرف الزامات لگائے ہیں بلکہ ان سے جواب دینے کا بھی کہا ہے ۔ مولانا فضل الرحمان بھی نواز شریف کی کشتی کے سوار ہیں ۔محمود خان اچکزئی اوراختر جان مینگل بھی نوازشریف کے ساتھی ہیں۔ پیپلزپارٹی کے سربراہ بلاول زرداری نے ابھی سرخ لکیر عبور نہیں کی ہے ۔عوامی نیشنل پارٹی بھی محتاط انداز سے کھیل رہی ہے ۔پی ڈی ایم کی طرف سے جلسوں کے بعد حکومت کی صفوں میں ہلچل ہے ، اس لئے کہ اقتدار میں آنے کے بعد وزیر اعظم عمران خان کے پاس کوئی ایسی کارکردگی نہیں کہ جس سے وہ عوام کو مطمئن کرسکیں۔عوام میں ابھی بھی اکثریت ان لوگوں کی ہے کہ جو پی ڈی ایم میں شامل سیاسی جماعتوں کو ملکی حالات کا ذمہ دار سمجھتی ہے ۔اب بھی کثیر تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں کہ جن کا خیال ہے کہ حزب اختلاف کا اکھٹا ہونا ملک و قوم کے لئے نہیں بلکہ ذاتی مفاد کے لئے ہے لیکن دوسری طرف ان کے سامنے وزیر اعظم عمران خان کی مایوس کن کارکردگی ہے جس کی وجہ سے وہ حکومتی موقف کا ساتھ دینے سے گریز کر رہے ہیں۔ صورت حال جو بھی ہے لیکن پی ڈی ایم کے جلسوں میں نام لے کر لگائے جانے والے الزامات اور وزیر اعظم عمران خان کا منہ پر ہاتھ پھیر کر نوازشریف کو ہر صورت میں واپس لانے کی دھمکی نے قوم کے ہر فرد کو سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ اب کیا ہوگا ؟یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ پاکستان کی سیاست میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔ اس لئے یہ سوچنا کہ فریقین کے درمیان بات چیت کے دروازے بالکل بند ہوچکے ہیں ایسا ہر گز نہیں۔پرویز مشرف نے جب نواز شریف کا تختہ الٹ دیا تھا تو بھی صورت حال یہی تھی کہ ان کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی جائے گی ۔ لیکن پھر ان کو جلاوطن کر دیا گیا۔ وہ ملک واپس بھی آئے اور تیسری مرتبہ وزیر اعظم بھی منتخب ہوئے۔مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان کم و بیش بیس سالوں سے دشمنی تھی ۔لیکن جلاوطنی کے دوران نواز شریف اور بے نظیر بھٹو بہن ،بھائی بن گئے۔اگر چہ بے نظیر بھٹو کی وفات کے بعد نواز شریف اس عہد کو مکمل طور پر ایفا نہ کر سکے ،لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس بہن ،بھائی معاہدے کے بعد ہی بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کی پاکستان واپس آنے کی راہ ہموار ہوئی۔پرویز مشرف کے دور میں یہ تاثر بھی دیا جا رہا تھا کہ وہ پیپلز پارٹی سے سخت نفرت کرتے ہیں اور بے نظیر کو ملک آنے کی اجازت نہیں دیں گے ۔لیکن پرویز مشرف اندرونی خانہ ان کے ساتھ مذاکرات بھی کر تے رہے۔ پی ڈی ایم میں شامل دونوں بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن) ،پیپلزپارٹی اور مولانا فضل الرحمان نے ماضی میں بڑے بڑے سانحات کے رونما ہوجانے کے باوجود کبھی بھی بات چیت کے دروازے بند نہیں کئے ہیں تو پھر موجودہ حالات میں یہ کیسے ممکن ہے کہ انھوں نے مذاکرات کے لئے دروازوں پر قفل لگا دئے ہیں ۔دوسری طرف مقتدر قوتوں نے بھی ماضی میں مذاکرات کے لئے کبھی بھی اپنے دروازے بند نہیں کئے ہیں تو آج کیسے ان کے لئے ممکن ہے کہ وہ مسائل کو حل کرنے کے لئے بات چیت کے علاوہ کوئی اور راستہ اختیار کر لیں۔مذاکرات کے دروازے کھلنے رکھنا دونوں کی مجبوری ہے اس لئے کہ دونوں کا ماضی ایک جیسا ہی ہے ۔ پی ڈی ایم میںشامل مسلم لیگ (ن) ، مولانا فضل الرحمان اور دوسری چھوٹی جماعتوں کی کوشش ہے کہ مارچ میں ہونے والے سینٹ انتخابات سے قبل حکومت کا خاتمہ ہو ۔ اس مقصد کے حصول کے لئے وہ کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہے ۔ احتجاجی جلسوں کے بعد ان کے پاس آخر حربہ پارلیمنٹ سے مستعفی ہونے کا ہے ۔مسلم لیگ (ن) اور مولانا فضل الرحمان اس آخری حربے کو استعمال کرنے کے لئے تیار ہیں ، لیکن پیپلز پارٹی ہر گز پارلیمنٹ سے مستعفی ہونے کو تیار نہیں ۔یہی وہ مرحلہ ہے کہ جس پر پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے درمیان اختلافات پید ا ہو سکتے ہیں۔ ایک تجویز یہ بھی سامنے آئی ہے کہ پیپلز پارٹی سندھ اسمبلی سے استعفیٰ نہ دے لیکن قومی اسمبلی سے استعفوں پر پی ڈی ایم کا ساتھ دے ۔ اب مشکل یہ ہے کہ اگر حزب اختلاف پارلیمنٹ سے مستعفی ہوجاتی ہے اور ضمنی انتخابات کا بائیکاٹ کر تی ہے تو پھر ظاہر ہے کہ حکومت کو اکثریت حاصل ہو جائے گی اور ان کے لئے مزید حکومت کرنا آسان ہو جائے گا ۔ لیکن حکومت کے لئے ایک مشکل پیدا ہوجائے گی کہ ایوان میں ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ حزب اختلاف نہیں ہوگا جس کی وجہ سے قانون سازی پر لوگ شکوک و شبہات کا اظہار کریں گے۔خود حکومت کے وزراء بھی مفت کے سٹیج سے محروم ہو جائیں گے۔بحرحال جمہوری نظام کے لئے یہ اچھا شگون نہیں ۔حزب اختلاف کے ساتھ مستعفی ہوجانے کے بعد صرف ایک ہی راستہ بچ جائے گا وہ یہ کہ وہ پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دے اور اس وقت تک نہ اٹھے کہ جب تک ان کے مطالبات تسلیم نہ ہو ۔ ہاں یہ بات حقیقت ہے کہ احتجاجی جلسوں کے بعد بال پیپلزپارٹی کی کورٹ میںہوگا اگر وہ پی ڈی ایم میں شامل دوسری جماعتوں کے ساتھ استعفیٰ پر راضی ہوجاتی ہے تو پھر حکومت کے لئے چلنا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہو جائے گا۔ پھر حکومت کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی آپشن ہی نہیں کہ وہ مستعفی ہوں اور ملک میں نئے انتخابات کا اعلان کر دیں۔بعض لوگ حالات خراب ہوجانے کے بعد مارشل لاء کی باتیں بھی کر رہے ہیں لیکن آج کے دور میں ایسا ممکن نہیں۔مارش لا ء کا امکان اس لئے بھی کم ہے کہ وزیر اعظم عمران خان بھی تنگ آگئے ہیں ۔ ان کی بھی کوشش ہوگی کہ اگر حالات زیادہ خراب ہوں تو واحد حل یہی ہے کہ نئے انتخابات کرائے جائیں ۔لیکن اس آپشن کو وہ آخری وار کے طور پر استعمال کریں گے ۔ امید یہی ہے کہ فروری تک سارا منظر نامہ واضح ہوجائے گا۔