تحریک انصاف کا لانگ مارچ نتیجہ خیز ہو گا یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی کی جانب سے گذشتہ روز کی گئی غیر معمولی پریس کانفرنس سے بہت سے اشارے ملے ہیں۔ اس پریس کانفرنس میں کی گئی باتوں کے تجزیے سے حالات کا اندازہ لگانا قطعا مشکل نہیں ۔ اعلی عسکری افسران کی جانب سے کی گئی پریس کانفرنس میں پہلی بار کئی معاملات پر ایسا دو ٹوک موقف سامنے آیا ہے جو ماضی میں نہیں دیکھا گیا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر ماضی کی پریس کانفرنسز میں فوج کے غیر سیاسی ہونے کی بات کر کے ڈھکے چھپے الفاظ میں اپنا موقف ظاہر کرتے رہے ہیں لیکن ایسا پہلی بار ہے کہ عمران خان کے سیاسی بیانیے کو بلا جھجک ڈرامہ قرار دیا گیا۔ یہ بھی کہہ دیا گیا کہ عمران خان نے مبالغہ کر کے سائفر کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا۔اس غیر معمولی پریس کانفرنس سے واضح طور پر معلوم ہوا ہے کہ فوج کے لیے جو الفاظ عمران خان استعمال کرتے رہے ہیں اس کا کتنا برا مانا گیا ہے۔ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ندیم انجم کی طرف سے دو انتہائی اہم انکشافات کیے گئے۔ ایک یہ کہ عمران خان حال ہی میں رات کے اندھیرے میں آرمی چیف سے ملتے رہے ہیں اور دوسرا یہ کہ عمران خان نے مارچ میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو غیر معینہ مدت کے لیے ملازمت میں توسیع کی پیش کی تھی جسے انہوں نے رد کر دیا تھا۔ ان اہم انکشافات کے ساتھ ہی سوال اٹھایا گیا کہ اگر فوجی قیادت غدار ہے تو پھر انہیں ایکسٹینشن کی پیش کش کیوں گئی تھی اور یہ بھی کہ اگر فوجی قیادت غدار ہے تو پھر رات کے اندھیرے میں ان سے ملاقاتیں کیوں ہوتی رہیں۔ پوچھا گیا کہ رات کے اندھیرے میں ملاقاتیں کر کے دن کے اجالے میں میر صادق ا ور میر جعفر کا لقب دینا کیسا رویہ ہے۔ واضح رہے کہ یہ اہم ترین اور تاریخ کی منفرد پریس کانفرنس عمران خان کے لانگ مارچ سے صرف ایک دن پہلے کی گئی۔ پریس کانفرنس میں کئی ایسی باتیں ہوئیں جس سے صاف نظر آتا تھا کہ فوج موجودہ حکومت کے ساتھ کھڑی ہے اور حکومت کی درخواست پر اپنا آئینی اور قانونی کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ یہ بھی کہہ دیا گیا کہ فوج حکومت کے نیچے ایک ادارہ ہے اور اگر حکومت نے کہا تو آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اسے مکمل سپورٹ دی جائے گی۔ ان بیانات کی روشنی میں کئی باتیں واضح ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ عمران خان کے حال ہی میں ہونے والے مذاکرات مکمل طور پر ناکام ہو گئے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ عمران خان کو مایوس ہو کر لانگ مارچ کی حتمی کال دینا پڑی۔ وہ اب بھی اسے کچھ دن آگے لے جانا چاہتے تھے تاکہ ان کی طاقت کو دیکھ کر مقتدر حلقے درمیانی راستہ اختیار کرنے اور انتخابات کرانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے راضی ہو جائیں۔ پاکستان میں عام طورپر تبدیلی ایسے ہی آتی ہے۔ 2009 میں نواز شریف جب اپنے مطالبات کے لیے لانگ مارچ لے کر نکلے تھے تو گوجرانوالہ پہنچنے تک فوج نے مداخلت کر کے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایک معاہدہ کرانے کے لیے اپنا کردار ادا کیا تھا۔ اسی طرح 1993 میں جب سیاسی قوتوں کے درمیان محاذ آرائی اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی اور کوئی سیاسی راستہ سجھائی نہ دیتا تھا تو جنرل وحید کاکڑ نے درمیانی راستہ اختیار کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کیا تھا۔ عمران خان کو بھی یہ لگتا ہو گا کہ جب وہ لاکھوں کا مجمع لے کر اسلام آباد پہنچیں گے اور حکومت کے لیے اس دبائو کو برداشت کرنا آسان نہ رہے گا تو فوج کو بیچ میں پڑنا پڑے گا۔ فوج آگے آئے گی اور کوئی چارہ نہ پا کر حکومت کو الیکشن میں جانے کے لیے آمادہ کرے گی۔ لیکن گذشتہ روز کی پریس کانفرنس کے بعد ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ ایسا لگتا ہے اور بتایا بھی یہی گیا ہے کہ فوج مکمل طورپر نیوٹرل رہے گی اور سیاستدانوں کے معاملات میں دخل اندازی نہ کرے گی۔ اس کا مطلب یہی ہوا کہ عمران خان کو فوج سے کسی قسم کی مدد ملنے کے امکانات دکھائی نہیں دیتے۔ صرف یہی نہیں ، اعلی عسکری افسران نے ارشد شریف کے معاملے میں بھی عمران خان کے موقف کو صریحا غلط اور گمراہ کن قرار دیا۔ بتایا گیا کہ ارشد شریف کی جان کو پاکستان میں کوئی خطرہ نہیں تھا۔ انہیں ڈرا دھمکا کر ملک سے باہر دھکیلنے والے ان کے خیراہ خواہ نہیں تھے۔ ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ خیبر پختونخواہ حکومت کے پاس نہ جانے ایسی معلومات کہاں سے آئی تھیں کیوں کہ فوج کی خفیہ ایجنسیوں کے پاس ایسی کوئی معلومات نہیں تھیں ۔ عمران خان نے اپنی زندگی کا آخری جوا کھیل دیا ہے۔لانگ مارچ کی کال دینا مذاکرات کی ناکامی کے بعد پہلے ہی لازم ہو چکا تھا۔عمران خان خاموشی سے گھر نہیں بیٹھ سکتے تھے۔ وہ لانگ مارچ کے لیے نکل رہے ہیں۔نتیجہ ان کے حق میں نکلے یا نا نکلے ان کے لیے اب مزید انتظار کرنا سیاسی طور پر ممکن ہی نہ رہا تھا۔ فی الحال لانگ مارچ کی کامیابی کے بھی امکانات دکھائی نہیں دیتے۔ پر امن لانگ مارچ حکومت کو تبدیل کرنے کا باعث نہیں بنتا۔ عمران خان اگر ایک لاکھ لوگوں کو بھی اسلام آباد لے آئیں اور خاموشی سے ایک پارک میں بیٹھ جائیں تو حکومت انہیں دو مہینے تک بھی برداشت کر سکتی ہے ۔ 2014 میں انہیں اس کا تجربہ حاصل ہے۔تب تو حکومت کو شاید اسٹیبلشمنٹ کی بھی حمایت حاصل نہ تھی۔ اس کے باوجود عمران خان 126 دن بیٹھ کر بھی کامیابی حاصل نہ کر سکے تھے۔ ہاں ایک فرق ضرور ہے اِس وقت عمران خان کو 2014 کے مقابلے میں زیادہ عوامی حمایت حاصل ہے اور موجودہ حکومت 2014 کے مقابلے میں زیادہ غیر مقبول ہے۔ دیکھئے اس سیاسی لڑائی کا نتیجہ کیا نکلتاہے۔