پرسوں (27 اگست کو ) پاک پنجاب کے شہر پاکپتن میں چشتیہ سلسلہ کے ولی اور پنجابی زبان کے پہلے شاعر حضرت فرید اُلدّین مسعود المعروف بابا فرید شکر گنج ؒ کے 777 ویں عُرسِ مبارک کی تقریبات کا آغاز ہو گیا ہے ۔ خبروں کے مطابق دربار کے سجادہ نشین ، دیوان مودود مسعود چشتی نے عُرس مبارک کے پہلے روز زائرین میں برکات تقسیم کیں توفضا ’’ حق فرید ؒ ، یا فریدؒ ‘‘ کے نعروں سے گونج اُٹھی ۔ پاکپتن میں آسودۂ خاک ، بابا فرید شکر گنج ؒ کی زندگی کا خاص پہلو یہ ہے کہ ’’ آپؒ ہندوستان میں خاندانِ غلاماں کے بادشاہ ، سُلطان غیاث اُلدّین بلبن (1266ء ۔ 1286ئ) کے داماد تھے لیکن، آپؒ نے اپنے سُسر بادشاہ سے کسی قسم کی مراعات حاصل نہیں کی تھیں اور بابا جیؒ کی اہلیۂ محترمہؒ نے بھی اپنے درویش شوہر کے ساتھ سادگی سے زندگی گزار دِی تھی۔ معزز قارئین!۔ آج کے دَور میں میرا اور آپ واسطہ مرحوم، سِولین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ، صدر اور وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کے داماد جنابِ آصف زرداری اور سابق (اور نااہل ) وزیراعظم میاں نواز شریف کے داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر اور اُن کی اہلیہ مریم نواز صاحبہ سے ہے ۔ کمال یہ ہے کہ ’’ جنابِ آصف زرداری نے اپنے دورِ صدارت میں اپنے ہمشیرہ فریال تالپور کو ’’ مادرِ ملّت ثانی ‘‘ مشہور کررکھا تھا اور کیپٹن (ر) محمد صفدر نے بھی اپنی خوشدامن ، بیگم کلثوم نواز شریف کی وفات سے پہلے اُن کی خدمت میں ’’ مادرِ ملّت ثانی ‘‘ پیش کردِیا تھا ؟۔ حضرت بابا فرید شکر گنج ؒ کے دوہے (اشعار) ، سِکھوںکی مقدس کتاب ’’ گرنتھ صاحب‘‘ میں درج ہیں ، اِس لئے سِکھ قوم بھی بابا فرید شکرگنج ؒکی بہت عزت کرتی ہے۔ بابا فرید شکر گنج ؒنے نہ صِرف مسلمانوں بلکہ عام اِنسانوں کی راہنمائی کے لئے بہت کچھ کہا اور لکھا ہے ۔ اپنے ایک دوہے میں بابا جی ؒ نے کہا کہ … فریدا! روٹی میری کاٹھ دِی، لاون میری بُھکّھ ! جنہاں کھاہدی چوپڑی ، گھنے سہن گے دُکھ ! …O… یعنی۔ ’’ اے فریدؒ!۔ میری روٹی ، لکڑی کی ہے اور میری بھوک ہی میرا سالن ہے ، اور چُپڑی روٹی ( پراٹھے ) کھانے والے ( اُمرا ئ، خاص طور پر بد عنوان لوگ ، (آخرت میں ) بہت دُکھ برداشت کریں گے ‘‘۔ ایک اور دوہے میں بابا جیؒ نے اپنے حوالے سے غریب غُرباء کو مشورہ دِیاہے کہ … فریدا !رُکھّی ، سُکھّی کھا کے ، ٹھنڈا پانی پی! دیکھ پرائی چوپڑی ، نہ ترسائیں جی! …O… یعنی۔ ’’ اے فرید !۔ رُوکھّی سُوکھّی روٹی کھا کے اور ٹھنڈا پانی پی کر ( زندگی بسر کر ) لیکن، دوسرے لوگ جب چُپڑی روٹی کھارہے ہوں تو، اُنہیں دیکھ کر اپنا جی نہ ترسا ‘‘۔ معزز قارئین!۔ بابا فرید شکر گنج ؒکا دَور اچھا دَور تھا ، جب عام لوگوں کو کھانے کے لئے رُکھّی سُوکھّی روٹی مل جاتی تھی اور پینے کے لئے کنویں یا چشمے کا ٹھنڈا اور صاف پانی ؟ لیکن، آج کے پاکستان میں عام لوگوں کے لئے اِس طرح کی نعمتیں کہاں؟۔ مرزا اسد اللہ خان غالب ؔنے موت ؔ کو ایک ابدی حقیقت بیان کرتے ہُوئے کہا تھا کہ … موت کا ایک دِن مُعیّن ہے ! نیند کیوں ، رات بھر نہیں آتی ؟ …O… بابا فرید شکر گنج ؒنے اپنے انداز میں کہا کہ … جِت دِہاڑے دھن ورِی ، ساہے لئے لِکھائِ ! مَلک جو کنِّیں سُنیدا ، مُونہہ دِکھا لے آئِ ! جِند نمانی کڈِ ھَیے ، ہڈّاں کُوں ،کڑ کا ء ِ! ساہے لِکھے نہ چلنی ، جِند و کُوں ،سمجھاء ِ ! جِند وَوہٹی ، مَرن ور ، لَے جا سی ،پر نائِ! آپن ہتّھِیں جول کے ، کَیں گل لگے دھا ئِ ! …O… یعنی۔ ’’ جب دُلہن بیاہی گئی تو، اُس کی رُخصتی کی تاریخ مقرر تھی کہ ، کب ملک اُلموت (اُس کا دُلہا ) اُسے لے جائے، بے چاری زندگی ہڈیوں کو تڑ کے نِکل جاتی ہے تو، اُسے کون سمجھائے کہ اِس پر کسی کا بس نہیں چلتا۔ کوئی اُسے اپنے ہاتھوں سے رُخصت کر کے کِس کے گلے لگ کر روئے!‘‘۔ جب کسی کا کوئی پیارا دُنیا سے رُخصت ہوتا ہے تو ، اُسے بہت دُکھ ہوتا ہے‘‘ ۔ معزز قارئین!۔ "Four Pillers of the State" ( ریاست کے چار ستونوں ) کا نظام بعد میں منظر عام پر آیا تھا لیکن، بابا فرید شکر گنج ؒنے -1 پارلیمنٹ (Legislature) -2 حکومت (Executive) -3 عدلیہ (Judiciary) اور -4 اخبارات اور نشریاتی اداروں (Media) کو اپنے اِس دوہے میں پہلے ہی ہدایت کردِی کہ … فریدا! جے تُوں عقل لطیف ، کالے لِکھ نہ لیکھ! آپنے گریوان میں سِر نِیواں کر دیکھ ! …O… یعنی۔ ’’ اے فرید !۔ اگر تو باریک بین ، عقل رکھتا ہے تو’’ کالے لیکھ‘‘ ( سیاہ تحریریں اور احکامات ) نہ لکھ بلکہ لکھنے سے پہلے سر نیچا کر کے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ ‘‘۔ ’’پاکپتن دربار اراضی کیس!‘‘ معزز قارئین!۔ میاں نواز شریف اُن دِنوں وزیراعلیٰ پنجاب تھے ، جب اُنہوں نے پاکپتن دربار کی 14 ہزار کنال اراضی کے سلسلے میں ایک ’’ کالا لیکھ ‘‘ لکھا تھا جس کا سپریم کورٹ آف پاکستان نے 2015ء کو "Suo Motu" (ازخود نوٹس ) لِیا تھا ۔ اکتوبر 2018ء کو روزنامہ ’’ 92 نیوز ‘‘ کے صفحہ اوّل پر ، خبر نگار خصوصی، آن لائن اور آئی این پی کی رپورٹ شائع ہُوئی ۔ رپورٹ میں لکھا گیا تھا کہ ’’ ’’چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس اعجاز اُلاحسن اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل تین رُکنی بنچ نے ’’پاکپتن میں بابا فریدشکر گنج ؒ کی وقف زمین کو نجی ملکیت میں دینے سے متعلق کیس ‘‘ کی سماعت ہُوئی تو، سابق وزیراعظم ، میاںنواز شریف اور دیگر فریقین کو دوبارہ نوٹسز جاری کرتے ہُوئے فریقین کے وُکلاء کو ایک ہفتے کی مہلت دے دِی گئی ۔ خبر کی تفصیلات یوں بیان کی گئی تھی کہ ’’ میاں نواز شریف نے وزیراعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے 1986ء میں پاکپتن دربار کی اراضی مزار کے گدّی نشین کے نام منتقل کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کرایا تھا ‘‘۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا تھا کہ ’’ سمری میں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو بتا دِیا گیا تھا کہ ’’ آپ کو اِس طرح کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کا اختیار نہیںہے !‘‘۔ چیف جسٹس صاحب نے 17 اکتوبر کو کیس کی سماعت کے دَوران یہ ریمارکس بھی دئیے تھے کہ ’’ پاکپتن دربار کے سجادہ نشین کو زمین کا مالک کیا بنایا گیا کہ اُنہوں نے تین دِن میں سب کچھ بیچ دِیا‘‘۔ معزز قارئین!۔ سپریم کورٹ میں ’’پاکپتن دربار اراضی کیس ‘‘ کی سماعت 9 دسمبر 2018ء کو بھی ہُوئی تھی۔ چیف جسٹس صاحب نے مہر خالد داد خان لک کی چیئرمین شپ میں ’’ جے ۔ آئی ۔ ٹی‘‘ (Joint Investigation Team ) بھی مقرر کی تھی جس نے کوٹ لکھپت جیل جا کر میاں نواز شریف سے تفتیش بھی کی تھی۔ پھر کیا ہُوا؟۔ ( یقینا کچھ نہ کچھ تو ہو رہا ہوگا )۔مجھے نہیں معلوم؟ کہ ’’ سرکاری ریکارڈ کے مطابق 1947ء سے 1958ء تک دیوان غلام قطب چشتی اور اُن کے خاندان کے لوگ پاکپتن دربار ارضی کے مالک تھے ۔ دیوان غلام قطب چشتی صاحب سے موجودہ دیوان صاحب مودود مسعود چشتی کا کیا رشتہ ہے؟ ۔ یہ تو ،اُنہوں نے یا اُن کے وکیل نے سپریم کورٹ میں بتا ہی دِیا ہوگا ؟۔ بہرحال میری طرف سے تو ،بابا فرید شکر گنج ؒکی ایک ’’ ملنگنی کے جذبات کے ترجمان اپنے دوست ’’ شاعرِ سیاست‘‘ کی ایک نظم کے دو بند پیش خدمت ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں! … قومی خزانہ ، لُٹّ کے لَے گئے ، اُستاداں دے ،چنّڈے! دو دِن ماہیؔ ، پھیرا پائوندا ، سَیچر ڈے تے، سنّڈے! گھر وِچ، بُک بھر آٹا ، کوئی نہ، کِیویں پکاواں ،منّڈے! شکّر گنج جیؒ !۔ تُہاڈی ملنگنی ، شکّر کِیویں ، وَنّڈے؟ …O… مار دے نیں ، یم راج ؔدے چیلے ، خُود کُش ،حملہ آور! دُوجے پاسے ، ڈاکو ، پُلسئیے ، اِک دُوجے تو ں ، جا بر! عِزّت ،جان ، بچاون لئی ، مَیں جاواں کیہڑی ، کھنّڈے؟ شکّر گنج جیؒ !۔ تُہاڈی ملنگنی ، شکّر کِیویں ، وَنّڈے؟ …O…