لیڈر سے میری ملاقات پرانی تھی۔ لیکن اتنی بھی پرانی نہیں کہ ان کے ظاہر و باطن کو جان لینے کا مجھے دعویٰ ہو۔سنا تھا کہ لیڈروں کا ظاہر و باطن عموماً یکساں نہیں ہوتا۔جو ہوتے ہیں وہ نظر نہیںآتے اور جیسا نظر آتے ہیں ویسے ہوتے نہیں۔آزادی سے پہلے ہمیں جو لیڈر ملے اور جن کی وجہ سے ہمیں آزادی ملی وہ ایسے ہی تھے، اندر اور باہر سے ایک جیسے۔ان پر آنکھ بند کر کے اعتماد کر لو تو بھی یہ خدشہ نہیں ہوتا تھا کہ کسی موڑ پہ غچّہ دے جائیں گے‘ دھوکے میں رکھ کر کچھ ایسی چال چل جائیں گے کہ عقل اور ضمیر دونوں اچنبے میں پڑ جائیں گے۔ایسے دوہرے کردار والے لیڈر تو ہمیں آزادی کے بعد ہی ملے۔کیوں ملے ایسے لیڈر ؟ اچھے اور بااعتماد لیڈر کیوں نہ ملے، اس بارے میں بڑی تحقیق کی ضرورت ہے۔لیڈروں کی نفسیات کی تحقیق‘ قوم کے مزاج اور ان کی سمجھ بوجھ کی تحقیق۔ چونکہ تحقیق و تفتیش کئے بغیر کوئی رائے قائم کرنا کم عقلی اور کم فہمی ہے۔ اس لئے میں اس بارے میں کوئی دو ٹوک بات نہیں کر سکتا۔دیکھیے میں اپنے لیڈر کے بارے میں بتا رہا تھا اور بھٹک کر موضوع سے دور چلا گیا۔تو اپنے لیڈر سے میری ملاقات بہت دیرینہ تھی۔ ایک دن میں نے سوچا کہ مجھے اپنے لیڈر سے انٹرویو کرنا چاہیے اس انٹرویو ہی سے مجھے پتہ چل سکے گا کہ میرا لیڈر کیسا ہے؟ سیرت و کردار اس کے کیسے ہیں؟ خیالات اور آراء میں کتنا وزن پایا جاتا ہے؟ جب لیڈر صاحب بولتے ہیں تو سچ بولتے ہیں۔یا سچ نما جھوٹ بول کر مغالطے میں مبتلا کر دیتے ہیں؟ یہی کچھ سوچ کر میں نے اپنے لیڈر سے ایک دن انٹرویو کی فرمائش کر ڈالی۔انہوں نے جواباً فرمایا: یار تم تو اپنے ہی آدمی ہو۔کسی دن بھی بیٹھ جائیں گے جو کچھ تم پوچھو گے اس کا جواب دے دوں گا۔میں نے عرض کیا کہ ابھی مجھے فرصت ہے کیوں نہ یہ انٹرویو اسی وقت کر لیا جائے جو کچھ آپ کہیں گے اسے میں ریکارڈ کر لوں گا۔لیڈر صاحب بادل نخواستہ تیار ہو گئے۔ پہلا سوال میرا روایتی سا تھا۔وہی سوال جو ہر لیڈر سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ سیاست میں کیوں آئے؟ اس روایتی سوال کا وہی روایتی جواب کہ بھئی سیاست میں آنا میری مجبوری نہیں تھی۔اللہ کا دیا سب کچھ تھا کسی چیز کی بھی کمی نہ تھی‘ کوئی محرومی نہ تھی۔میں سیاست میں آیا قومی جزبے سے قوم کی خدمت کے لئے۔سیاست میں آنے سے پہلے میں نے بہت مطالعہ کیا‘ سینکڑوں کتابیں پڑھ ڈالیں اور پوری تیاری کے ساتھ سیاست میں آیا۔ میں نے سوال کیا کہ آپ جب سیاست میں آئے تو ملک میں سیاسی پارٹیوں کی کوئی کمی تو تھی نہیں تو پھر آپ نے اپنی نئی پارٹی کیوں بنائی؟ پہلے سے موجود کسی پارٹی میں شامل کیوں نہ ہو گئے؟ میرا سوال سن کر لیڈر صاحب کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ پھیل گئی۔فرمایا:یہ بہت اچھا سوال ہے۔میرے جواب سے تمہیں اندازہ ہو گا کہ میں کتنے عظیم مقصد کے لئے سیاست میں آیا۔میرے پیش نظر جو قوم کی خدمت تھی وہ کوئی پارٹی بھی پورا نہیں کر رہی تھی۔اگر کوئی پارٹی ایسی ہوتی تو یقینا میں اسی میں شامل ہو جاتا لیکن کوئی ایسی پارٹی سیاسی میدان میں تھی ہی نہیں۔دیکھیے جناب!میں نے بات کاٹ کر کہا:ہمارے ملک میں اتنی بھانت بھانت کی سیاسی پارٹیاں ہیں کہ شاید ہی کوئی ایسی پارٹی ہو گی جو کسی خاص مقصد کو پورا کرنے کے لئے جدوجہد نہ کر رہی ہو۔اس میں نظریاتی پارٹیاں بھی ہیں اور غیر نظریاتی پارٹیاں بھی۔ میں جاننا چاہوں گا کہ آپ کے پیش نظر وہ کون سا عظیم مقصد تھا،جس کو کوئی اور سیاسی پارٹی پورا نہیں کر رہی تھی۔لیڈر صاحب بولے: دیکھیے ایک تو مقصد تھا کہ ملک سے ہر قسم کے عدل و انصاف کا خاتمہ ہو چکا تھا،یعنی جب میں سیاست میں آیا تو میں نے یہی دیکھا دوسری طرف ہر طرف ظلم و استحصال کا دور دورہ تھا۔تو میں نے ان ہی دو مقاصد کو اپنا مطمع نظر بنا لیا۔اس سے قبل کہ وہ کچھ اور کہتے میں نے عرض کیا کہ ایک سیاسی اور مذہبی جماعت تو ملک میں ایسی بھی ہے، جس نے ملک کے پہلے عام انتخابات میں ترازو کو اپنا انتخابی نشان بنایا تھا، جو اس بات کا اعلان تھا کہ اگر وہ جماعت جیت گئی تو وہ عدل و انصاف کو ہی اپنا اولین مقصد بنائے گی اور ہر گھر کی دہلیز تک انصاف پہنچائے گی، تو آپ نے ایسی کون سی نئی بات کی۔میری بات سن کے لیڈر کے چہرے پہ ناگواری پھیل گئی، جیسے انہیں میری بات بری لگی ہو لیکن پھر وہ سنبھل گئے اور فرمایا:’’ہاں آپ کا کہنا بھی بجا ہے لیکن انتخابی نشان اور چیز ہے اور عدل و انصاف کو پارٹی منشور میں ترجیح میں سب سے اوپر رکھنا اور بات ہے۔جب وہ رکے تو میں نے پوچھا:یہ فرمائیے کیا آپ کی حکومت بنی تو آپ کے پاس ملک کے گلے سڑے نظام کو بدل کے ہر شعبے میں صحت مند اور مثبت تبدیلی لانے کے لئے کوئی بلیو پرنٹ ہے۔آپ نے کوئی ہوم ورک کر رکھا ہے۔حکومت ملتے ہی انہوں نے ہاتھ اٹھا کر کہا:سارا بلیو پرنٹ تیار ہو جائے گا۔ہم پولیس کے محکمے کو بدل دیں گے‘ تعلیمی نظام ایسا لائیں گے کہ قوم کے نوجوانوں کا مستقبل محفوظ ہو جائے گا۔یہ سارے منصوبے میرے ذہن میں موجود ہیں۔ ’’کیا آپ کے پاس مختلف شعبوں میں اصلاحات لانے کے لئے ماہرین کی ٹیم ہے؟ ایسی ٹیم کے بغیر آپ ملک میں کیسے کوئی تبدیلی لا سکتے ہیں؟ ’’آپ‘‘ لیڈر نے کہا ’’کیا مجھے اتنے سادہ ذہن کا آدمی سمجھتے ہیں۔ہر طرح کے ماہرین ملک کے اندر اور باہر موجود ہیں، حکومت بنتے ہی یہ سب لوگ پارٹی کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں گے اور پھر ملک میں تبدیلی کا آغاز ہو جائے گا‘‘ ’’یقینا آپ سادہ ذہن کے نہیں ہیں…‘‘ میں نے کہا ’’لیکن ملک میں تبدیلی لانے کا جو طریقہ آپ تجویز کر رہے ہیں وہ بہت سادہ دلانہ ہے۔اس طرح تو کوئی تبدیلی نہ آ سکے گی البتہ آپ عوام کو مایوس اور ضرور کریں گے‘‘ میرا جُملہ مکمل ہوا تو لیڈر کا چہرہ سرخ ہو گیا۔انہیں مجھ سے ہرگز ایسی امید نہ تھی غالباً وہ سمجھ رہے تھے کہ میری ان سے یاد اللہ ہے تو میں اس کی رعایت ان کے ساتھ ضرور کروں گا۔میں سمجھ گیا کہ اب انٹرویو شاید جاری نہ رہ سکے لیکن میرا گمان غلط ثابت ہوا۔لیڈر نے اپنے اوپر جلد ہی قابو پا لیا اور کہنے لگے: ’’آپ مجھ سے بدگمان نہ ہوں۔مجھ پر اعتماد رکھیں۔میں نے پہلے بھی قوم کو مایوب نہیں کیا ہے اور آئندہ بھی نہیں کروں گا۔قوم میری خدمات سے آگاہ ہے جب میں حکومت سے باہر رہ کر اتنی خدمت کر سکتا ہوں تو حکومت میں آ کر عوام کے لئے کیا کچھ کر جائوں گا اس کا تو آپ تصور بھی نہیں کر سکتے، میں نے عوام کو نہ ماضی میں مایوس کیا ہے اور نہ آئندہ مایوس کروں گا۔میرا خیال ہے آپ نے سبھی کچھ پوچھ لیا کیا آج کے انٹرویو کے لئے اتنا کافی نہیں ہے۔لیڈر نے اتنا کہا اور پھر دراز کھول کے اس میں کچھ تلاش کرنے لگے۔گویا ان کا رویہ بتا رہا تھا کہ یہ گفتگو کے تمام ہو جانے کا اعلان ہے۔ اس انٹرویو کو لئے چار پانچ سال ہو گئے۔حکومت آئی بھی اور چلی بھی گئی لیکن ہمارا ملک آج بھی ایک بھنور میں پھنسا اور ایک دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔لیڈر ہی ہمارا مسئلہ ہے۔کوئی بابصیرت‘ ہوش مند‘ باکردار لیڈر جس کا ظاہر و باطن ایک ہو۔بس ہمیں ایسا ہی لیڈر چاہیے۔