اللہ تعالیٰ کا شکر ہے انتخابی مہم انجام کو پہنچی اور مستونگ‘ پشاور‘ بنوں اور ڈیرہ اسمٰعیل خان کے اندوہناک واقعات کے باوجود انتخابات کے التواکی نوبت نہ آئی۔خدشات بہت تھے اور شکوک و شبہات پیدا کرنے والے فعال و سرگرم مگر بالآخر سب افواہیں اور قیاس آرائیاں دم توڑ گئیں ۔ 2013ء کی طرح یہ انتخابات نگران حکومتوں نے کرائے ‘جو مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی مشاورت سے وجود میں آئیں مگر ان پر تینوں جماعتوں نے اعتراض کیا۔ مسلم لیگ (ن) پنجاب‘ پی ٹی آئی خیبر پختونخوا اور پیپلز پارٹی وفاقی حکومت و صوبائی حکومتوں پر معترض نظر آئی جو طرفہ تماشا ہے۔ انتخابی مہم میں اس بار نئے رجحانات دیکھنے میں آئے۔ بااثر اور طاقتور امیدواروں کو اپنے حلقوں میں پرجوش ووٹروں کی تلخ و ترش باتیں سننا پڑیں۔ کئی حلقوں میں بینرز لگے کہ ’’ فلاں سابقہ رکن اسمبلی ووٹ مانگ کر شرمندہ نہ ہو‘‘ اور کئی مقامات پر وڈیروں‘ تمنداروں اور مخدوموں کو ناخوشگوار صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ۔یہ آزاد صحافت اور سوشل میڈیا کے پیدا کردہ شعور کی برکت ہے ورنہ یہی امیدوار اپنے حلقوں کے بعض علاقوں میں جائے بغیر اکثریتی ووٹ بٹورلیا کرتے تھے۔ احتساب کا نعرہ پاکستان میں 1990ء کے عشرے سے گونج رہا ہے ہر حکومت نے اپنے سیاسی مخالفین کو احتساب کے نام پر جیل کرائی اور کینگرو کورٹس سے سزائیں بھی دلائیں ‘مگر حقیقی معنوں میں احتساب کا عمل رواں سال ہونے والے انتخابات سے قبل شروع ہوا۔ میاں نواز شریف پر ان کے اپنے دور حکومت میں کرپشن‘بے ضابطگی اور وسائل سے زیادہ اثاثوں کا مقدمہ بنا اور تمام قانونی مراحل مسلم لیگ (ن) کے دور حکمرانی میں مکمل ہوئے‘ ڈاکٹر عاصم حسین‘ شرجیل میمن اور پیپلز پارٹی سے وابستہ کئی دوسرے سیاستدانوں کے خلاف مقدمات اس وقت بنے ‘ جب سندھ میں سید قائم علی شاہ اور سید مراد علی شاہ حکمران تھے اور اب بھی مرکز اور سندھ و پنجاب میں مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کی مشاورت سے بننے والی حکومتیں نگرانی کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ اگر احتساب کا یہ عمل صرف شریف خاندان اور مسلم لیگ کے وابستگان تک محدود نہیں رہتا اور عام انتخابات کے بعد قائم ہونے والی منتخب حکومت نیب اور عدلیہ کو ماضی کی طرح عضو معطل اور تابع مہمل بنانے کی کوشش نہیں کرتی تو یہ ایسی خوش آئند پیش رفت ہو گی جو قومی منظر نامہ بدل دے گی۔ پاکستان میں سیاست پر بدکردار خائن‘ سمگلر‘ منشیات فروش‘ لٹیرے اور جرائم پیشہ عناصر کا تسلط ختم کرنے کا جو موقع قوم کو ملا اگر اس سے فائدہ نہ اٹھایا گیا تو آئندہ کئی عشروں تک غربت‘ جہالت‘ بے روزگاری اور پسماندگی ہمارا مقدر رہے گی اور پاکستان کو بناناری پبلک بننے سے کوئی نہیں روک پائے گا۔ مافیاز کے گٹھ جوڑ نے کئی ممالک اور اقوام کو تباہ کیا جبکہ خطرات میں گھرا پاکستان اس عیاشی کا متحمل نہیں۔ انتخابی عمل میں غیر ملکی مداخلت کا خدشہ سیکرٹری الیکشن کمشن ظاہر کر چکے ہیںجبکہ عمران خان بار بار کہہ رہے ہیں کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ انہیں برسر اقتدار دیکھنا نہیں چاہتی۔ دوسروں کی طرح میں نے بھی اس بیان کو ایک سیاستدان کی مبالغہ آرائی سمجھا مگر گزشتہ روز ایک اہم اور باخبر وفاقی شخصیت نے نصف درجن سینئر صحافیوں کے سامنے اس بیان کی بالواسطہ تصدیق کر کے حیران کر دیا۔ انہوں نے آف دی ریکارڈ بتایا کہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے علاوہ طاقتور میڈیا مخصوص شخصیت اور جماعت کی کامیابی کے لیے کوشاں ہے‘دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے پیچھے یہ سوچ کارفرما ہے کہ اگر انتخابات سے من پسند نتائج ملنا ممکن نہیں تو پھر التوا بہتر ہے جبکہ امریکہ ‘برطانیہ اور بھارت اس وقت ساتھ یکجان و دو قالب ہیں چونکہ پاکستان میں ایک جماعت کی قیادت پرکرپشن اور منی لانڈرنگ کے سنگین الزامات ہیں اور انہیں فیئر ٹرائل کے ذریعے سزائیں مل رہی ہیں لہٰذا واشنگٹن اور لندن کے لیے کھل کر ان کے حق میں آواز بلند کرنا ممکن ہے نہ عدالتی نظام کے حوالے سے سوالات اٹھانا آسان‘ لہٰذا بھارت کے ذریعے بالواسطہ اور خفیہ مداخلت و دبائو جاری ہے اور انتخابی عمل کے علاوہ نتائج کو مشکوک بنانے کے لیے بھر پور پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے ذاتی تجربات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ تین مواقع پر مجھے امریکہ‘ بھارت‘ برطانیہ گٹھ جوڑ کا اندازہ ہوا۔ ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ چینی اور ترک حکام نے ہمیں قبل از وقت بتا دیا تھا کہ ان دوست ممالک پر پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالنے کے لیے شدید امریکی دبائو ہے جبکہ پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالنے کی خواہش امریکہ سے زیادہ بھارت کی ہے۔ اس ضمن میں دونوں ممالک کے حکام نے بھارت کی سفارتی سرگرمیوں کی تفصیل بتائی اور ہمیں مشورہ دیا کہ پاکستان بھی اس محاذ پر سرگرمی دکھائے۔دوسری مثال انہوں نے عالمی بنک میں متنازعہ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے پاکستان کے مقدمے کی دی۔ ’’جب میں نے ایک قانونی پوائنٹ پر عالمی بنک کے حکام کو قائل کر لیا کہ وہ مقدمہ ری اوپن کریں اور ہمارا موقف تفصیل سے سنیں تو آمادگی ظاہر کرنے کے بعد عالمی بنک کے صدر نے معذرت کی اور کہا کہ امریکہ بھارت کے مفاداور موقف کے خلاف کسی مقدمے کی سماعت کے حق میں نہیں۔ میرے لیے امریکی خواہش سے انحراف ممکن نہیں‘‘۔ ایک اور واقعہ کا ذکر بھی انہوں نے کیا جس کا تذکرہ فی الحال مناسب نہیں یہ تینوں مثالیں دے کر انہوں نے ثابت کیا کہ پاکستان میں ایسی کسی شخصیت یا جماعت کا برسر اقتدار آنا امریکہ‘ بھارت اور برطانیہ کو ہرگز منظور نہیںجو قومی مفادات‘ داخلہ و خارجہ پالیسیوں اور اقتصادی حکمت عملی کے ضمن میں غیر ملکی دبائو اور خواہشات کی پروا کیے بغیر آگے بڑھنے کا عزم رکھے اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کے مقابلے میں اپنی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہو۔ ایک معتبر وفاقی شخصیت کے انکشاف کے بعد پاک فوج‘ عدلیہ اور خفیہ اداروں کے خلاف پروپیگنڈا مہم کے بارے میں کوئی ابہام نہیں رہتا کہ پیچھے کون ہے اور کسی محب وطن شہری کے لیے یہ فیصلہ کرنا آسان ہو جاتا ہے کہ وہ عالمی اسٹیبلشمنٹ اور مقامی اسٹیبلشمنٹ میں سے کس کے ساتھ کھڑا ہو۔ جب عالمی اسٹیبلشمنٹ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار‘ ایٹمی اور میزائل پروگرام کو رول بیک کرنے اور خطے میں بھارتی بالادستی کو یقینی بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہو اور اس کے اندرونی گماشتے سول بالادستی کے نام پر استعماری کھیل میں مشغول ہوں تو حب الوطنی کا تقاضہ یہی ہے کہ آدمی قومی مفاد کے لیے اپنی حد تک کوشاں قومی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑا ہو اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کے مہروں کا آلہ کار بن کر اپنی دنیا اور عاقبت خراب نہ کر ے۔ کون نہیں جانتا کہ کل تک پاکستان کے قیام کی مخالفت کرنے والے مذہبی عناصر‘ پاکستان میں مذہب دشمن کمیونسٹ نظام کے علمبردار اور بھارتی بالادستی کے خواب دیکھنے والے سیکولر و لبرل ایک ہی بولی بول رہے ہیں۔ یہ اپنے اپنے نظریات اور تصور حیات بھول کر کرپشن کے دیوتا کی پوجا پاٹ میں مصروف ہیں اور عدلیہ‘ فوج اور خفیہ ایجنسیوں میں پھوٹ ڈال کر‘ قوم اور قومی اداروں کے مابین تفریق پیدا کر کے پاکستان کو شام‘ عراق اور لیبیا کے انجام سے دوچار کرنا چاہتے ہیں۔ پاک فوج‘ عدلیہ اور خفیہ ایجنسیوں نے ماضی میں غلطیاں کیں‘ اب بھی شائد کر رہی ہوں مگر ان پر تنقید ہم دوست اور خیر خواہ کے طور پر کریں‘ دشمن کے انداز میں دشمنی کے جذبے سے نہیں۔ جن لوگوں کو ہر خرابی پاکستان اور پاکستانی اداروں میں نظر آتی اور جو کھل کر ’’را‘‘ بھارت اور غدار وطن مجیب الرحمن کے حق میں رطب اللسان نظر آتے ہیں انہیں عبرت ناک انجام تک پہنچانا پاکستانی عوام کا فرض ہے۔ 25جولائی اس فرض کی ادائیگی کا بہترین موقع ہے۔ یہ موقع ضائع ہوا تو شائد عمر بھر پچھتانا پڑے۔ ؎ یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی (مظفر رزمی)