شنگھائی تعاون تنظیم SCO کے موجودہ سربراہ کی حیثیت سے، بھارت نے مئی کے مہینے میں گوا شہر میں منعقد ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے اِجلاس میں شرکت کے لیے پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کو وزرائے خارجہ اور چیف جسٹس کی میٹنگ میں شرکت کے لیے مدعو کیا ہے، جس کا پاکستان کی طرف سے فی الحال جواب نہیں دیا گیا۔ ہندوستان نے گزشتہ سال ستمبر میں آٹھ رکنی شنگھائی تعاون تنظیم کی سالانہ rotation کی بنیاد پر صدارت سنبھالی تھی اور اس نے پاکستان اور چین سمیت SCO کے تمام رکن ممالک کو باضابطہ دعوت نامے بھیجے ہیں۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے پاکستان نے اس سے قبل ایس سی او فلم فیسٹیول میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا، جو 27 سے 30 جنوری تک ممبئی میں منعقد ہورہی ہے۔ تیسرے اس طرح کے فلمی میلے میں، جس کی میزبانی اس گروپ نے کی تھی، کو پاکستان کے علاوہ تمام ممالک کی جانب سے گذارشات موصول ہوئی ہیں۔ شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن (ایس سی او) نیو یارک اور واشنگٹن پر 9/11 کے حملوں سے چند ہفتوں پہلے قائم کی گئی تھی، یوروشین کے وسیع خطے میں سلامتی کو یقینی بنانے اور استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے کثیرالجہتی ایسوسی ایشن کے طور پر تجارت ، نیز ثقافتی اور انسانی ہمدردی میں تعاون اِس کے بنیادی مقاصد ہیں۔ اِس کے بانی رہنما مشرق کی دو بڑی طاقتیں یعنی روس اور چین جبکہ دیگر ابتدائی ارکان ازبکستان، تاجکستان ، کرغیزستان اور قازقستان شامل تھے۔ جون 2017 میں پاکستان اور بھارت کو جبکہ ستمبر 2021 میں اِیران کو مکمل رکنیت دی گئی ہے۔ افغانستان ، بیلاروس اور منگولیا مبصر ہیں اور ایس سی او کے متعدد ڈائیلاگ پارٹنرز بھی ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم سے پہلے "شنگھائی فائیو" کے نام سے ایک تنظیم وجود رکھتی تھی، جس میں روس، چین، قازقستان، کرغیزستان اور تاجکستان شامل تھے جس میں تین سابق سوویت ریاستیں، چین کے ساتھ ایک طویل سرحد مشترک رکھتی ہیں۔ شنگھائی فائیو کا مقصد اِس سرحد کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ وسطی ایشیائی میں امریکی مداخلت کو روکنے کے لیے چین روس مشترکہ دلچسپی کو بڑھانا تھا۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے قیام کے پیچھے یہی بنیادی محرکات کارفرما تھے، جن کی وجہ سے پہلے شنگھائی فائیو کی داغ بیل ڈالی گئی، جس کی بعد میں شنگھائی تعاون تنظیم کے نام سے توسیع کی گئی۔ میڈیا کی اِطلاعات کے مطابق پاکستان نے ابھی تک ہندوستان کی طرف سے بھیجے گئے، دعوت نامے کا باضابطہ جواب نہیں دیا ہے۔ گزشتہ ماہ پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ کے مابین سخت بیانات کا تبادلہ ہوا ہے، جب اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں ہندوستانی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اسامہ بن لادن پاکستان میں چھپا ہوا پایا گیا، جس کے جواب میں پاکستان کے وزیرِخارجہ بلاول بھٹو زرداری نے ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کے بارے میں سخت تبصرے کرتے ہوئے انہیں 'گجرات کا قصائی' قرار دیا اور ہندوستان پر پاکستان میں دہشت گردانہ حملے کرنے کا الزام بھی لگایا۔ اِس سے پہلے مودی حکومت کی جانب سے اگست 2019 میں بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کو اِنڈیا کے آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت دیئے گئے خصوصی سٹیٹس کی منسوخی سے، پہلے سے ہی کشیدہ پاک بھارت دوطرفہ تعلقات بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ گزشتہ بارہ سال سے پاکستان اور بھارت کے مابین دو طرفہ دوروں کا فقدان ہے جبکہ دونوں ہمسایہ ملکوں کے مابین ہر قسم کے اعلیٰ سطحی مزاکرات اور روابط تعطل کا شکار ہیں۔ یاد رہے کہ جولائی 2011 میں، محترمہ کھر پاکستان کی آخری وزیر خارجہ تھیں جنہوں نے دو طرفہ ملاقات کے لیے ہندوستان کا دورہ کیا، جب کہ نواز شریف آخری پاکستانی وزیر اعظم تھے جنہوں نے مئی 2014 میں مسٹر مودی کی حلف برداری کے لیے ہندوستان کا دورہ کیا۔ ہندوستان کی طرف سے، سابق وزیر خارجہ سشما سوراج اور مسٹر مودی نے آخری بار دسمبر 2015 میں پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ 2016 کے بعد سے، دونوں فریقوں کے درمیان بقایا مسائل پر کوئی دو طرفہ بات چیت نہیں ہوئی ہے، حالانکہ بھارتی کابینہ کے وزراء کرتار پور گرودوارہ سے انڈیا کے بابا ڈیرہ نانک تک تعمیر ہونے والی راہداری کے دورہ کے لیے پاکستانی قصبے کرتار پور آئے تھے۔ کیا پاکستان کو بھارت کی میزبانی میں منعقد ہونے والے شنگھائی تعاون کی تنظیم کے اِجلاس میں شرکت کرنا چاہیے یا نہیں؟ شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کی مثال کو دیکھا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے وسطی ایشیائی اراکین کے بھی آپس میں جھگڑے ہیں مگر انہوں نے اَپنے مشترکہ علاقائی سلامتی کے چیلنجوں کے لیے اجتماعی اَنداز اَپنانے کے لیے جدوجہد کی ہے اور محض ایک دوسرے سے اِختلافی یا متصادم رویہ ہونے کی وجہ سے شنگھائی تعاون کی تنظیم کے اِجلاس کا بائیکاٹ نہیں کیا حالانکہ ماضی میں طالبان کے متعلق یہ وسطی اِیشیائی ممالک مختلف مؤقف کے حامل رہے ہیں۔ دوسری طرف سارک کے ایک فعال تنظیم کے طور پر نہ ابھرنے کی وجوہات کو تلاش کیا جائے تو اِس میں پاکستان اور اِنڈیا برابر کے ذمہ دار نظرآتے ہیں۔ تاہم شنگھائی تعاون تنظیم کے پلیٹ فارم پر روس اور چین کی موجودگی میں بھارت اور پاکستان کا ایک دوسرے کی روایتی مخالفت کرنا باالخصوص جس کی قیمت شنگھائی تعاون کی تنظیم کو ادا کرنا پڑے نہ صرف روس اور چین کے لیے بلکہ دوسرے رکن ملکوں کے لیے بھی خسارے کا سودا ہوگا اور جس کی اِجازت وہ کبھی نہیں دیں گے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں پاکستان کی شرکت سے پاکستان کو سفارتی محاذ پر انڈیا کے مقابلے میں اخلاقی برتری حاصل ہوسکتی ہے جیسا کہ کھٹمنڈو میں منعقد ہونے والے سارک کے گیارہویں سربراہی اِجلاس کے موقع پر پاکستان کے صدر مشرف نے اپنے تقریر کے اِختتام پر اچانک بھارتی وزیرِاعظم اٹل بہاری واجپائی سے ہاتھ ملایا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندوستان اور پاکستان کے مابین باہمی مذاکرات شروع ہوگئے۔ اِسی طرح شنگھائی تعاون تنظیم کے بھارت میں منعقد ہونے والے اجلاس میں پاکستان کی شرکت بھی باہمی مذاکرات کے آغاز کا پیش خیمہ ہوسکتی ہے کیونکہ عالمی طاقتیں ہندوستان پر پریشر ڈال کر ہندوستان اور پاکستان میں بات چیت کا آغاز کرواسکتی ہیں جبکہ ھندوستان کی سول سوسائٹی بھی مودی حکومت پر اپنا اخلاقی پریشر بڑھا سکے گی۔ دوسری طرف یہ بھی واضح ہے کہ چونکہ چین شنگھائی تعاون تنظیم کا بانی اور کلیدی رکن ملک ہے جبکہ پاکستان کا گہرا اور قریبی دوست ملک ہے اِس لیے قیاس یہی ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے بھارت میں منعقد ہونے والے اجلاس میں پاکستان کی شرکت کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ممکنہ طور پر بیجنگ کی مشاورت سے ہوگا۔