28مئی کو یوم تکبیر کا سلور جوبلی جشن جوش و خروش سے منایا گیا ، یہ دن نہ صرف پاکستان بلکہ پوری اُمت مسلمہ کے لئے اعزاز اور فخر کا باعث ہے کہ اسی دن اسلامی جمہوریہ پاکستان دنیا کی ساتویں اور اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت بن کر اُبھرا جس سے اہل پاکستان کا سر فخر سے بلند ہوا۔ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے پچیس برس مکمل ہونے پر وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ دشمنوں کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ افواج اور عوام کو ٹکرا دے، قوم کا اتحاد ہی پاکستان کی اصل جوہری قوت ہے۔ یومِ تکبیر پر وزیراعظم شہباز شریف نے اپنا پیغام جاری کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے کسی سپر پاور کی دھمکیوں کی پروا نہیں کی اور نہ ہی اربوں ڈالر کی پیش کش انہیں آہنی عزم و ارادے سے ہٹاسکی۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق قوم یوم تکبیر کی سلور جوبلی منارہی ہے، پاکستان کی اس کامیابی نے خطے میں طاقت کے توازن کو نئی شکل دی، پاک فوج سائنس دانوں اور انجینئرز کو سلام پیش کرتی ہے، یہ وطن ہمیشہ قائم رہے گا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے یوم تکبیر پر یہ بھی کہا کہ ہمیں پاکستان کو اب معاشی قوت بنانا ہے، معاشی کمزوری دور کرنا آج کا ایٹمی پروگرام ہے۔ ایک لحاظ سے وزیر اعظم کی بات اہمیت کی حامل ہے کہ ایٹمی ٹیکنالوجی معاشی ترقی کے لئے استعمال کی جائے تو فائدہ کا باعث ہے، دنیا میں اس کی مثالیں موجود ہیں، ترقی یافتہ ممالک نے ایٹمی صلاحیت کو توانائی کے طور پر استعمال کر کے صنعتی و معاشی ترقی حاصل کر لی ہے مگر ہمیں یہ بات بھی سامنے رکھنی چاہئے کہ جو ایٹم بم جسے بعد میں اسلامی بم بھی کہا گیا نے اہل وطن کو تحفظ دینے کی بجائے خود ایٹم بم کے تحفظ کے لئے پاکستانی قوم کو وسائل خرچ کرنے پڑے ہیں۔ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1975ء میں جب فرانس سے پلانٹ کا معاہدہ کیا تو اس کے مقاصد میں ایٹم بم کے علاوہ ایٹمی توانائی کا حصول بھی شامل تھا، مزید یہ کہ اُس وقت ڈیرہ غازی خان میں یورینیم کے وسیع ذخائر کو استعمال میں لا کر پاکستان کی معاشی ترقی کیلئے کوششیں کرنا شامل تھا، یہ ٹھیک ہے کہ ان ذخائر سے ملکی معیشت کو یقینا فائدہ پہنچا مگر وسیب کے علاقوں کی پسماندگی آج بھی برقرار ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے اقدامات پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے میں قومی حوصلہ بڑھانے کا باعث بنے، بھٹو صاحب نے کہا تھا کہ ہم گھاس کھالیں گے لیکن ملک کو ایٹمی قوت بنائیں گے ، یہ تاریخی الفاظ ذوالفقار علی بھٹو نے 1965ء میں بطور وزیر خارجہ مانچسٹر گارجیئن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہے۔ 20 دسمبر 1971ء کو ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالنے کے بعد نے 9 فروری 1972ء کو نامور پاکستانی ایٹمی سائنسدانوں کا ایک اجلاس ملتان میں منعقد کیا ، منیر احمد خان کو ویانا سے بلا کر پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا نیا چیئرمین مقرر کرتے ہوئے بھٹو صاحب نے سائنسدانوں کو یہ ہدف دیا کہ انہیں جلد سے جلد ایٹم بم چاہئے۔ اپنی کامیاب حکمت عملی کی وجہ سے بھٹو صاحب نے ایٹمی پروگرام کو دنیا کی نظروں سے اوجھل رکھا۔ 1976ء میں جرمنی نے بھی یورینیم کی فراہمی سے انکار کر دیا ۔ 1976ء کے شروع میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کی جانب سے ایٹم بم کے آزمائشی دھماکے کے لئے جگہ کا انتخاب کرنے کی غرض سے ڈاکٹر اشفاق احمد خان کو بلوچستان بھیجا گیا جنہوں نے ’’راس کوہ رینج‘‘کا انتخاب کیا، سارا پروگرام خفیہ رکھتے ہوئے وہاں مشینیں پہنچائی گئیں اور غار بنانے کا کام شروع ہوا ، اسی دوران 5جولائی 1977ء کو جنرل ضیاء الحق نے بھٹو صاحب کی حکومت برطرف کر دی اور مارشل لاء لگا دیا تاہم انہوں نے ایٹمی پروگرام کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی۔ 1998 ء میں جب بھارت نے 6 ایٹمی دھماکے کرکے نہ صرف جنوبی ایشیاء بلکہ پوری دُنیا کی امن پسند اقوام کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا دی تو ان حالات میں پاکستان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے مقابلے میں پاکستان بھی جواب دے ، عالمی طاقتیں اس حق میں نہ تھیںمگر پاکستان نے کوئی بھی دباؤ قبول نہ کرنے کا فیصلہ کیا ، پوری پاکستانی قوم سیسہ پلائی دیوار بن گئی اور پوری قوم کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ بھارت کو اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے۔ 17مئی 1998ء میں اس وقت کے وزیر اعطم نواز شریف نے ڈاکٹر اشفاق احمد اور ڈاکٹر ثمر مبارک کے ساتھ ایک ملاقات کی اور انہیں ایٹمی دھماکے کیلئے تیار رہنے کا حکم دیا، 19مئی کو پی اے ای سی کے 410 سائنسدانوں کی ٹیم چاغی پہنچ چکی تھی ، 24مئی تک نیوکلیئر ڈیوائس تنصیب کر کے تاریں بچھا دی گئیں اور 26مئی کو جگہ مکمل سیل کر دی گئی۔ 27 مئی کو امریکی صدر بل کلنٹن نے وزیر اعظم نواز شریف کو فون کر کے ایٹمی دھماکہ نہ کرنے کی گزارش کی اور بدلے میں پاکستان کو بیش بہا امداد دینے کا کہا لیکن پاکستان پہلے ہی 28 مئی 1998ء کی سہ پہر تین بجے ایٹمی دھماکہ کرنے کا وقت طے کر چکا تھا۔ چاغی میں اس روز موسم صاف اور خوشگوار تھا، ایٹمی دھماکے والے علاقے سے متعلقہ لوگوں کے سوا تمام افراد کو ہٹا دیا گیا تھا 2 بجکر 30 منٹ پر پی اے ای سی کے چیئرمین ڈاکٹر اشفاق احمد ، ڈاکٹر عبدالقدیر خان ، جاوید ارشد مرزا بھی موجود تھے ۔ 3 بجے تک ساری کلیئرنس دی جا چکی تھی پوسٹ پر بیس افراد جنہوں نے ٹرگرنگ مشین ڈیزائن کی تھی بٹن دبانے کی ذمہ داری دی گئی۔ تین بجکر سولہ منٹ اللہ اکبر کی صدا بلند کرتے ہوئے بٹن دبا دیا گیا۔ بٹن دبانے سے پہاڑ میں دھماکہ ہونے تک صرف تیس سیکنڈ کا وقفہ تھا مگر وہ تیس سیکنڈ باقی ساری زندگی سے طویل تھے ، ذوالفقار علی بھٹو کی شروع کی جانے والی محنت کے سفر کی آخری منزل تھی، جونہی پہاڑ سے دھوئیں اور گرد کے بادل اُٹھے ، آبزرویشن پوسٹ نے جنبش کی ، پہاڑ کا رنگ تبدیل ہوا اور ٹیم کے ارکان نے سجدہ شکر بجا لایااور وہ لمحہ آن پہنچا جب پاکستان دنیا کی بڑی طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتا تھا، یہ لمحات پاکستان کی تاریخ میں عزت ، وقار اور شان و شوکت کا تاج بن کر تاریخ میں رقم ہوئے ،پاکستان بالآخر مسلم دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت بن گیا۔