شام فراق یار نے ہم کو اداس کر دیا ہجر نے اپنے عشق کو حسرت ویاس کر دیا اپنی تو بات بات سے آتی ہے یوں مہک کہ بس ہم کو تو جیسے یار نے پھولوں کی باس کر دیا صحبت کا رنگ تو چڑھتا ہے۔ یہ انفرادی سطح پر بھی ہوتا ہے اور اجتماعی طور پر بھی۔ سیاست میں یہ بات زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے اور خاص طور پر جہاں موروثی سیاست ہو پھر تو خاندان کے کملے بھی سیانے ہوجاتے ہیں۔ بڑے بڑے جگادری انکل بھی ہاتھ باندھے شیر خوار رہنما کو لوری دیتے نظر آتے ہیں۔ ایسے کئی مناظر ہم نے دیکھے۔ ہنسی بھی آئی ہے اور غصہ بھی۔ ہماری سیاست میں پارٹی سربراہ نہ بھی چاہے تو اس کے ماننے والے چاہتے ہیں کہ وہ اس کی اولاد کو کھلا کر مرتبہ پائیں۔ طاقت کی اپنی زبان اور شہرت کی اپنی شان ہوتی ہے۔ بات تو میں یہ کرنا چاہتا تھا کہ موروثیت کے آنے میں دیر نہیں لگتی۔ یہ تو مولانا فضل الرحمن جیسے عالم دین کے ہاں بھی پوری آب و تاب سے موجود ہے۔ ویسے مولانا بھی مزے کے آدمی۔ کتنی سنجیدگی سے وہ اپنے راستے ہموار کرنے جاتے ہیں۔ سمدھی تک بھی فیض یاب ہو گئے۔ کسی نے مولانا سے سوال کیا تھا کہ وہ اقتدار سے محروم کبھی نہیں رہتے۔ مولانا نے کہا کہ ہر سیاستدان اقتدار کے لیے بھی سیاست کرتا ہے۔ یہ بات ضمناً آ گئی اصل میں آج میں عمران خان نے اچانک اسمبلیاں تحلیل کرنے کی بات کی تو ہم سر پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں کہ یہ کمند کہاں آ کر ٹوٹ گئی۔ دوچار ہاتھ جب کہ لب بام رہ گیا تھا۔ ہم تو سمجھتے تھے کہ اسلام آباد اس جم غفیر کے سامنے کیا ہے‘ اس ریلے میں سب کچھ خس و خاشاک کی طرح بہہ جائے گا مگر دیکھئے ہم بھی گئے تھے یہ تماشہ نہ ہوا۔ ظہور نظر یاد آئے۔ رات بھر اک چاپ سی پھرتی رہی چاروں طرف۔ جان لیوا خوف تھا لیکن ہوا کچھ بھی نہیں۔ اس غزل میں ایک اور شعر بھی ان کی خط و کتابت کے حوالے سے ہے۔ وہ بھی شاید رو پڑے ویران کا کاغذ دیکھ کر۔ آخری خط میں اسے میں نے لکھا کچھ بھی نہیں۔ کچھ دوست خان صاحب کی اس چال کو بساط سیاست پر کھیلی گئی ایک اچھی چال سمجھ رہے ہیں ۔ پریشر ککر نے سیٹیاں بجانا شروع کردی تھیں۔ جو بھی ہے یہ فیصلہ دانشمندانہ ہی کہلائے گا اب تو ان کے رتن بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ کوئی زبردستی کسی کو حکومت سے نہیں نکال سکتا۔ یہ تو ایک پریشر بڑھانا ہوتا ہے۔ وگرنہ کرنا وہی ہوتا ہے جو آئین اور قانون کے دائرہ میں ہو۔ ہم تو دیکھ رہے تھے کہ سونامی ساحلوں سے ٹکرائے گا۔ پہلے پہل تو فواد چوہدری آنے والی حکومت کو صرف 48 گھنٹے کی مہمان کہہ رہے تھے۔ حالانکہ وہ جانتے تھے کہ نئے مہمان بھی آئے نہیں لائے گئے ہیں۔ وجہ صاف ظاہر تھی کہ آمدن بڑھانا ضروری تھی کہ رسد اور طلب خراب ہو چکی تھی۔ عوام کی بددعائیں لینے والا کون ہو سکتا تھا۔ ن لیگ نے بھاری پتر اٹھا تو لیا تھا اب وہ اسے اتارنے کا سوچ رہی ہے۔ حالات ن لیگ والے اس کے حق میں ہرگز نہیں ہیں۔ پیپلزپارٹی اور مولانا فضل الرحمن تو اپنی اپنی جگہ سیاست سے اور اقتدار سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ نوازشریف کے پاس کھونے کو پورا پنجاب ہے خطرہ بڑھتا چلا جارہا ہے۔ سب سے بڑی رکاوٹ نوازشریف کی بزدلی ہے۔ اتفاق سے مجھے کھاریاں جانا ہوا اور وہاں ہم ڈاکٹر عبدالستار کے مہمان تھے ان کے بہت قریبی دوست حکیم عرفان اللہ مرزا اور ڈاکٹر محمد حفیظ الحق بھی موجود تھے۔ اس محفل میں ڈاکٹر حیدر علی بھی موجود تھے۔ سیاست پر بات چلی تو میں حیران رہ گیا کہ اب بھی عمران خان کی اکثریت کے پسندیدہ ٹھہرے۔ خاص طور پر ڈاکٹر عبدالستار جو جماعت کے نامی گرامی رہنما بھی ہیں اپنی رائے دینے لگے کہ ان سیاستدانوں سے کروڑ درجے بہتر ہے۔ چند نوجوان مجھے ملے تو وہ ایک لمحے کے لیے نہیں مانے کہ گھڑی بیچی گئی ہے۔ اس حوالے سے خان خوش قسمت ہیں کہ انہیں ایسے ماننے والے کثرت سے دستیاب ہیں۔ میں چشتیاں گیا تو میرا چھوٹا بھائی ثناء اللہ شاہ اور اس کا بیٹا علی شاہ سب خان کے مداح خواں نکلے۔ نتیجہ بھی چشتیاں کا آپ کے سامنے ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ خان صاحب جلدی انتخاب اسی لیے چاہتے ہیں کہ انہیں سب کچھ نظر آ رہا ہے۔ ن لیگ شوق شوق میں خوب استعمال ہوئی۔ اسی ناکامی کے ڈر سے نوازشریف آنے کے لیے ہچکچا رہے ہیں۔ یہ درست کہ آنے والوں نے اپنے کیسز وغیرہ تو صاف کرلیے اور کچھ مراعات لے لیں مگر مستقبل ان کا دائو پر لگا ہوا ہے اور تو اور ان کو لانے کے باعث کہ جس انداز سے ڈار صاحب آئے ادارے بھی ایکسپوز ہو گئے ہیں۔ ایک اور طرح کی ہوا بلکہ آندھی چل پڑی ہے کہ ہر چھوٹا بڑا یہ سوال کر رہا ہے کہ آخر پاکستان کو کیوں لوٹا گیا اور لوٹا بھی نہایت بے دردی سے گیا۔ بھٹو کے بعد اب کے زیادہ شعور لوگوں میں آ گیا ہے۔ یہ وہ جو طاقتور آسامیوں پر ہیں وہ اربوں روپے کیسے بنا لیتے ہیں اور پھر ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے وطن میں رہنا بھی پسند نہیں کرتے۔ لوگوں کی زبانیں بہت تلخ ہوتی جا رہی ہیں کہ ان کے اختیار میں ہو تو وہ ان چہرے نوچ لیں جنہوں نے اس ملک کو کھایا اور چبایا ہے۔ انقلاب اسی طرح آتے ہیں: ایک خلقت ہے کہ نفرت سے بھری بیٹھی ہے ایک طوفان ہے کہ لوگوں نے دبا رکھا ہے سوشل میڈیا کی ایک زبان ہے۔ اس پر تو لوگ سارے متفق ہیں کہ عوام کا 75 سال سے استحصال کیا جارہا ہے۔ وہ تو کیا ان کے لائے ہوئے نمائندے بھی سب غلام ہیں۔ وہ عوام کی بجائے اقتدار کی بھیک مانگتے ہیں۔ حالات بدل رہے ہیں لوگوں کے پیرشر نے اسٹشبلشمنٹ کو بھی نیوٹرل کردیا ہے اور اب اپنے اپنے بل بوتے پر ہی الیکشن لڑنا ہوگا۔ مہنگائی نے لوگوں کی تنخواہیں آدھی کردی ہیں۔ آخری بات یہ کہ پچھلے مشاعرہ کالم میں ہماری نہایت خوبصورت شاعرہ حمید شاہین کے شعر رہ گئے تھے ان کے اشعار: حبس نکلے دل مضطر سے وبائیں جائیں کھڑکیاں کھول مدینے کی ہوائیں آئیں ابر رحمت کی طرح ان پہ جوانی آئے لوریاں جن کو درودوں کی سنائیں مائیں