جنرل سیدعاصم منیر نے پاک آرمی کے 17 ویں سربراہ کے طور پر کمان سنبھال لی ہے۔ جی ایچ کیو میں کمان کی تبدیلی کی تقریب میں سبکدوش ہونے والے جنرل قمر جاوید باجوہ نے کمانڈ سٹک نئے آرمی چیف کیحوالے کی۔ جنرل عاصم منیر آفیسرز ٹریننگ سکول منگلا کے فارغ التحصیل ہیں۔ انہیں اکتوبر 2018ء میں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی ملی۔ ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس ،ڈی جی آئی ایس آئی کے مناصب پر فائز رہنے کے علاوہ جنرل عاصم منیر کور کمانڈر گوجرانوالہ سمیت متعدد اہم ذمہ داریاں انجام دے چکے ہیں۔ جنرل باجوہ کا دور خطے میں پاکستان کے کردار اورداخلی سیاسی قوتوں کے مابین کشیدگی سے بھرپور رہا۔ جنرل باجوہ نے جب جنرل راحیل شریف سے کمانڈ سٹک وصول کی تو پاکستان کی مشرقی سرحدوں پر رہنے والا دائمی دبائو مغرب کی طرف پاک افغان سرحدوں پر منتقل ہو چکا تھا۔ افغانستان میں کہنے کو اشرف غنی کی حکومت تھی لیکن اس حکومت کی پالیسیاں بھارت اور امریکہ وضع کرتے۔ افغانستان میں امریکہ کی موجودگی فوجی شکل میں تھی اور بھارت افغان سرزمین کو پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کر رہا تھا۔ اس لیے پاک افغان تنازعات کی شکل عسکری حوالے سے ابھری۔ عسکری قیادت نے صدر اوبامہ کی جانب سے افغانستان سے انخلا کے عندیہ پر پاکستان کے مفادات کے تحفظ کے لیے حکمت عملی پر غور شروع کر دیا۔ جنرل باجوہ اس سلسلے میں افغانستان گئے۔ اوبامہ اپنے دور میں یہ خواہش پوری نہ کر سکے لیکن ان کے جانشین صدر ٹرمپ نے انخلا کا اعلان کردیا۔ اس مرحلے پر پاکستان کا کردار متعین کرنے اور ضروری انتظامات کیلیے عسکری قیادت نے کردار ادا کیا۔ افغان طالبان سے ازسرنو رابطے استوار کئے گئے۔ ماضی کی شکایات کو دونوں طرف سے بھلا کر افغانستان اور خطے میں استحکام کی خاطر نئی شراکت داری ترتیب دی گئی۔ پاکستان کی مغربی سرحدوں پر اب دبائو نہیں رہا۔سی پیک پاکستان میں اقتصادی ترقی کا منصوبہ ہے۔ دوست ملک چین اس منصوبے کی سکیورٹی کے متعلق خدشات کا شکار تھا۔ بلوچستان میں امن و امان کی خراب صورت حال اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے درمیان پائی جانے والی نااتفاقی چین کی فکر مندی کا باعث تھا۔ ان معاملات کو عسکری قیادت نے سنبھالا۔ یوں معیشت اور قومی سلامتی کے معاملات میں ایک اطمینان کی کیفیت دیکھی گئی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے ملک کے مفاد کی خاطر جو کچھ کیا تاریخ انہیں اس سب کچھ کا کریڈٹ ضرور دے گی۔ انہوں نے سبکدوش ہونے سے پہلے فوج کو سیاسی معاملات سے الگ کرنے کی بابت جو کہا وہ ایک چیلنج کی صورت میں نئے آرمی چیف کے سامنے ہوگا۔ جنرل سید عاصم منیر کے لیے سب سے بڑا اور پہلا امتحان مسلح افواج کو ہر سطح پر سیاسی امور سے دور رکھنا ہے۔ یہ چیلنج اس لحاظ سے آسان ہو سکتا ہے کہ منصب سنبھالتے ہی آرمی چیف اس سلسلے میں کیا فیصلے کرتے ہیں۔ تاخیر کی صورت میں سٹیک ہولڈرز کا اثر و رسوخ اور سیاسی قوتوں کی باہمی رقابت فوج کو سیاست سے دور کرنے میں رکاوٹ پیدا کرسکتی ہے۔ اس وقت تحریک انصاف احتجاج کر رہی ہے۔ تحریک انصاف کے متعدد رہنما اپنی گرفتاریوں اور دوران حراست تشدد کا الزام لگا رہے ہیں۔ عام آدمی ان الزامات سے متاثر ہوا ہے۔ آرمی چیف کے لیے یہ عجیب صورت حال ہے کہ اگر وہ سیاسی جماعتوں کے درمیان مفاہمت کے لیے کردار ادا کرتے ہیں تو ان پر سیاست میں مداخلت کا الزام لگ سکتا ہے۔ اگر وہ صورت حال میں بہتری کی نیت سے کوئی کردار ادا نہیں کرتے تو روز بروز انحطاط کی شکار معیشت تباہ ہو سکتی ہے۔ یہاں تدبر اور حسن طاقت کی ضرورت ہے۔ عمران خان مقبول ہیں‘ ان کے مطالبات میں انتخابی شفافیت اور بدعنوانی کا خاتمہ سرفہرست ہیں۔ انتخابی شفافیت اگلے انتخابات کو سب کے لیے قابل قبول بنانے کے لیے ضروری ہے ورنہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف دھرنے دیتی رہیں گی۔تحریک طالبان پاکستان نے حال ہی میں پاکستان کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان میں وقفے وقفے سے رونما ہونے والے دہشت گردانہ واقعات اگرچہ اپنی سنگینی کے لحاظ سے بہت بڑے نہیں رہے لیکن دہشت گرد اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ قبائلی اضلاع‘ بلوچستان اور سوات کے اردگرد دہشت گردوں کے خلاف سکیورٹی ادارے مستعد رہے ہیں۔ ٹی ٹی پی اگر امن معاہدہ ختم کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے تو نئی عسکری قیادت کو ٹی ٹی پی سے ازسرنو بات کرنا ہوگی یا پھر ان کو کچلنے کے لیے حکمت عملی وضع کرنا ہوگی۔پاک فوج کو عام آدمی نے ہمیشہ احترام دیا ہے۔ پاکستانی عوام جب کبھی سیاست دانوں سے مایوس ہوئے یا کسی آفت کا شکار ہوئے انہوں نے عسکری قیادت کی طرف امید بھری نظر سے دیکھا۔ ملک میں مسلسل کشیدگی‘ قانون شکنی اور ہر ادارے میں بدعنوانی ملک کو کھوکھلا کر رہی ہے۔ یقینا یہ آرمی چیف کا کام نہیں لیکن اس سلسلے میں حکومت کی استعداد میں اضافہ کرنے میں مدد ضرور فراہم کی جا سکتی ہے۔ وطن عزیز کا ہر شہری دعا گو ہے کہ پاکستان مشکلات کے بھنور سے سرخرو نکلے۔ عمومی حالات میں کسی بھی ریاست میں کمان کی تبدیلی معمول کا واقعہ ہوتی ہے۔ پاکستان میں اس موقع کو اگر خصوصی اہمیت دی جاتی ہے تو اس کے پس پردہ آرمی چیف کا قومی سطح پر مستعد کردار ہے جس کو پیش نظر رکھ کر کئی حلقے اپنی حکمت عملی ترتیب دیتے ہیں۔ امید ہے کہ جنرل عاصم منیر کی قیادت میں پاک فوج ملک میں جمہوری استحکام اور شفافیت کے لیے سیاسی قوتوں کی مدد گار رہے گی۔