کراچی سے مجھے ایک تسلسل سے فون آتا۔ جانی پہچانی، زندگی سے بھر پور آواز۔ لمبی بات چیت ہوتی، ر وئے سخن قائد اعظم یونیورسٹی رہتا۔ ایک ہی کلاس (ڈیفنس اینڈ سٹریٹیجک سٹڈیز) کے دوسال ،ہا سٹل ، کیمپس، سوشل ہٹس، مجید ہٹس، لائبریری، پیرا فری،جناح سپر اور تفریحی مقامات کے ڈیپارٹمنٹل ٹرپس ہمارا مشترکہ حوالہ تھے۔ "یونیورسٹی کا چکر لگایا ہے یا نہیں؟۔۔ بھئی کیوں نہیں گئے؟۔۔۔اسلام آباد رہتے ہو، یونیورسٹی نہیں جاتے۔۔۔ کم ازکم کچھ تصویریں ہی بھیج دیتے ۔۔۔ یار تم بھی۔۔۔" یہ وہ جملے تھے جو سلطان بروہی کی مجھ سے کی گئی ہر گفتگو کا لازماً حصہ ہوتے۔ میرا معاملہ یہ تھا کہ میں سلطان بروہی کے تعلیم مکمل کرکے سندھ واپس جانے اور وہاں ایک نیم سرکاری ادارے میں ملازمت کے بعد بھی ایک لمبا عرصہ یونیورسٹی ہاسٹلز میں ''مقیم ''رہا۔ وہ تو نئی صدی کے آغاز اور پاکستان کی معاشی آزادی کے غلغلے بلند ہوئے، نجی شعبے کو موقع دینے کی باتیں ہوئیں، ایم فل کے دوست بھی ایک ایک کرکے شادی شدہ ہوگئے اور شہر شفٹ ہوگئے تو میں نے بھی ہاسٹل چھوڑنے کی ٹھان لی۔ پرنٹ میڈیا کا عروج تھا ، ڈالرز کی ریل پیل اور پھر ہماری تجزیاتی صلاحیتیں،میدان خالی نظر آیا تو دوڑ لگادی۔ باب القائد کی چھاوں میں نصف دہائی گزارنے کے بعد وہاں سے ایسے گئے کہ اب کوئی کھینچ کر وہاں لے جاتا تو ہی جاتے، اپنے طور پر وہاں کا رخ نہ کرتے۔ موضوع بدلنے کے لیے میں بڑی ناصحانہ آواز میںکہتا اب وقت آگیا ہے بروہی صاحب کہ اپنا گھر بسالیں۔ یہ ان کا کمزور پوائنٹ تھا۔ میں ان کے عشقِ لاحاصل کے بارے میں جانتا تھا اور شاید انہیں لگتا تھا کہ میں انکے عزم اور ارادوں کی پختگی کو جانچ رہا ہوں۔ بعد میں انہوں نے اس کا حل نکال لیا۔ ہر دفعہ مجھے وہ کسی نہ کسی خاتون کا بتا تے، پوچھنے پر اپنی فیس بک وال پر جانے کا کہتے اور امکان ظاہر کرتے کہ شاید وہ ان میں دلچسپی لے رہی ہیں، بات چیت آگے بڑھی تو وہ مجھے سب سے پہلے بتائیں گے۔ ایک عرصہ لگا مجھے انکی چال سمجھنے میں۔ اب میں نے ان سے اصرار شروع کردیا کہ رشتہ داروں میں بات کرو ، اگر گاوں سے بھی کوئی رشتہ "ہاتھ آجاوے " تو ریٹائرمنٹ سے پہلے اس فرض کو نبھا ڈالو۔ اس امکان کو انہوں نے یہ کہہ کر رد کردیا کہ اپنی جنم بھومی کو خیرباد کہہ کر ہی تو وہ یونیورسٹی میں آئے تھے۔ پھر ایک وقت تو یہ معاملہ بھی پیچھے رہ گیا اور بعد از ریٹائرمنٹ وقت کی منصوبہ بندی شروع ہوگئی۔ صحت کے معاملات بھی سامنے آنا شروع ہوگئے تھے ۔ تیزابیت کے ہاتھوں پریشان تھے۔ میں انہیں کھانے پینے میں سادگی اور طرز زندگی کو " ڈھلتی جوانی " کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی اہمیت اور افادیت پر بتانا شروع کرتا تو بات شادی پر جاکے ختم ہوتی جسے وہ سننے کے روادار تک نہ تھے۔ پچھلے مہینے ہماری بات ہوئی تو گفتگو کا لب لباب یہی تھا کہ انہوں نے پلاٹ بک کرائے ہوئے تھے ، قسطیں دے رہے تھے اور قرعہ اندازی میں نام نکلنے کا انہیں انتظار تھا کہ تعمیراتی کام شروع کراسکیں۔ میں نے اپنے کالموں کو کتاب کی شکل میں ترتیب دینے کے ارادوں کا ذکر کیا اور خواہش کا اظہار کیا کہ وہ جلد ازجلد ڈیرہ بنالیں تو یہ کام اچھی طرح سے انجام پائے اور کچھ عرصہ رفاقت بھی میسر ہو۔ میں نے انہیں پیشکش کی کہ میں قائد اعظم یونیورسٹی کے قرب وجوار میں انکے مستقل قیام کا بندوبست کرسکتا ہوں تو وہ بہت خوش ہوئے۔ انکا ا گلا فون نہ آیا ہے اور نہ مجھے اس کا انتظار ہے۔ ان کے فیس بک پیج پر ہی دل کی دھڑکنوں کے بے ترتیب ہونے اور ان کے طالبِ دعا ہونے کی استدعا دیکھی۔ خیریت معلوم کرنے کے لیے فون کیا ، غالباً ان کے بھانجے نے فون اٹھایا اور بتایا سوئے ہوئے ہیں۔ جاگیں گے تو پیغام پہنچادوں گا۔ میں نے یہی سمجھا کہ اب خیریت ہے، کھانے پینے میں احتیاط نہیں کی ہوگی، عارضی تکلیف تھی ، ٹل گئی ہو گی۔ پھر انہی کے فیس بک پیج سے پتہ چلا کہ انکا دل انہیں داغ مفارقت دے گیاہے۔ صبح ہی سے کلاس فیلوز اور جونئیرز کی طرف سے پیغامات موصول ہونا شروع ہوگئے۔ تعزیتوں کا سلسلہ دوپہر تک جاری رہا۔ دل بوجھل تھا ، میں نے بہاول (چھوٹا بیٹا)کو ساتھ لیا اور یونیورسٹی کی طرف نکل گیا ۔ یہ تمام وقت میں تھا اور مجھ سے میرے یونیورسٹی میں بتائے گئے سالوں کی بابت کیے گئے سوالات۔ سنٹرل لائبریری اور بابْ القائد کے ساتھ "ینگ سٹریٹجسٹ "کی یاد گار تصویریں لیں اور رات گئے گھر لوٹا۔خیال آیا کہ جناح سپر مارکیٹ سے بھی ہوتے ہوئے آنا تھا۔ میں سلطان بروہی سے چڑ کر پوچھتا کہ آخر تمہیں کیا خبط ہے کہ جب بھی ویک اینڈ آتا ہے، سیشن ختم ہوتا ہے ، تم لاڑکانہ جاتے ہو یا آتے ہو، جناح سپر کا وہم تمہیں ستانے لگتا ہے۔ "ارے بھئی، سمجھا کرو، کسی جاننے والے کو یا توہم دیکھ لیتے ہیں یا وہ دیکھ لیتا ہے تو یہ ایک یادگار لمحہ بن جاتا ہے۔ خیر چھوڑو، جلدی کرو ، بس نکلنے ہی والی ہے! "۔ جناح سپر اسلام آباد کی واحد مارکیٹ ہے جس کی رونقوں پر سینٹورس کے بلیو ایریا میں نمودار ہونے اور اسلام آباد کے پوش ایریا کے گاہکوں کو لبھانے ،اقتصادی کساد بازاری ، دہشت گردی اور وبا کا رتی بھر اثر بھی نہیں پڑا۔ جہاں سپر مارکیٹ کے کچھ حصے سنسان ہوگئے ہیں ، وہیں پر جناح سپر میں نئے کاروباری مراکز کھلے ہیں۔ سلطان بروہی کے اسلام آباد سے جانے کے بعد میں جناح سپر کے آس پاس سے تو گزرا ہوں لیکن کبھی "گھوما" نہیں۔ رات کے وقت نہ صبح ، دن کو وہاں ضرور جاوں گا۔ شاید کسی " یاد گا ر لمحے " سے ملاقات ہوجائے!