برآمدے میں کرسی پر نیم دراز ہو کر کچھ سوچتے ہوئے کبھی کبھی کوئی منظر ہم ایسا دیکھ لیتے ہیں جس میں ہماری زندگی کے لیے بڑا گہرا سبق پوشیدہ ہوتا ہے۔ ایک ایسا ہی منظر گزشتہ روز میں نے دیکھا۔ منظر بہت عام سا تھا۔ آپ نے بھی ضرور دیکھا ہو گا۔ ممکن ہے اس بارے میں کچھ سوچا بھی ہو اور پھر بھول گئے ہوں۔ جہاں میں بیٹھا تھا، اس کے داہنی طرف ایک دیوار تھی۔ سامنے یوکلپٹس کے پیڑ کی شاخ پر ایک مینا دیر سے بیٹھی بول رہی تھی اور میں اس مینا کی آواز سن رہا تھا اور سوچ رہا تھا، کائنات کیسی اچھی آوازوں سے بھری ہوئی ہے لیکن ہمارے کانوں میں تمام وقت ٹریفک کا شور گونجتا رہتا ہے۔ ہارنوں کی آوازیں، بریکوں کی چیخیں،انجنوں کی گھرر،گھرر، ان آوازوں کے شور میں پرندوں کی آوازیں، ان کے مدھر نغمے، پرسوزگیت اب کوشش پر بھی سنائی نہیں دیتے۔ سوائے اس کے کہ ہم کسی ایسی جگہ رہے ہوں جہاں گہرا سکون اور سکوت ہو اور مناظر فطرت کہیں نزدیک ہی ہوں۔ ہاں کبھی کبھی میں اس طرح بھی سوچتا ہوں کہ ہمارے بچوں نے پرندوں کی آوازیں اس طرح نہیں سنیں جیسی پچھلی نسل کے بچوں نے سنی ہیں۔ مینا، گوریا، طوطے، کوئل یہاں تک کہ کووں کی کائیں کائیں بھی۔ موسم سرما میں دور دراز سے اڑ کر آنے والے پرندوں کی آوازیں۔ آج کل کے بچے تو شاید ان آوازوں میں فرق کرنا بھی نہ جانتے ہوں۔ کون سی آواز کس پرندے کی ہے اور کس موسم میں کون سے پرندے کی ہے اور کس موسم میں کون سے پرندے بکثرت نظر آتے ہیں۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ میں بتا یہ رہا تھا کہ جب میں یوکلپٹس کی ایک نازک سی شاخ پر بیٹھی ہوئی مینا کی آواز سن رہا تھا اور ان ہی باتوں پر سوچ رہا تھا کہ یک بارگی میری نظر دہنی سمت کی دیوار پر چلی گئی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ چیونٹیوں کی ایک قطار نہایت نظم و ضبط کے ساتھ اوپر دور تک چلی گئی ہے۔ چیونٹیوں نے دورویہ راستہ بنا رکھا ہے۔ وہ آ رہی تھیں اور جا رہی تھیں، جارہی تھیں اور آ رہی تھیں اور انہوں نے اپنے منہ میں کوئی سفید سی چیز بھی دبا رکھی تھی۔ آنے جانے والی چیونٹیاں کچھ دیر رک کر ایک دوسرے سے کچھ کہتی بھی تھیں۔ کیا کہتی تھیں، یہ بتانا تو میرے لیے مشکل ہے کیونکہ میں چیونٹیوں کی زبان نہیں سمجھتا اور جو کچھ وہ کہتی تھیں، وہ انتہائی سرگوشی میں ہوتا تھا۔ بے آواز سرگوشی، ایسی سرگوشی جس کا مفہوم کسی کے لیے بھی سمجھنا آسان نہ تھا لیکن ان کی تنظیم و تربیت حیرت انگیز تھی۔ کسی پنسل سے میں اس قطار پر ایک لکیر کھینچ دیتا تو مجھے یقین ہے کہ وہ ایک ایسی لکیر بن جاتی جس میں حسن، ترتیب اور سلیقہ ہوتا۔ ان چیونٹیوں کی منظم آمد و رفت کو، اپنے کام میں انہماک کو اور غیر ضروری اور بے کارسرگرمیوں سے گریز کو اور ایک ہی منزل کی جانب رواں دواں ہونے کو دیکھ کر مجھے بہت رشک آیا اور ساتھ ہی یہ بھی یاد آیا کہ جب ہم بس اسٹاپ پہ کھڑے ہوتے ہیں تو رکنے والی بس پر کس بری طرح ٹوٹتے ہیں، کس طرح ایک دوسرے کو دھکے دے کر خود کسی خالی نشست پر جھپٹتے ہیں۔ سینما ہائوس پہ ٹکٹ خریدنے، کسی بینک میں بل جمع کرانے یا کسی بھی ایسی جگہ پر جہاں ہمیں قطار بنانا چاہیے اور اپنی باری کا انتظار کرنا چاہیے۔ وہاں ہم کس طرح قطار توڑنے اور اپنی باری سے پہلے اپنا کام کرانے کے لیے بے چین اور مضطرب رہتے ہیں۔ مجھے یہ بھی خیال آیا کہ ہم سب کی منزل ایک نہیں ہے۔ لگتا ہے ہم کسی ایسے میلے میں گھر گئے ہیں جہاں کسی وجہ سے بھگدڑ مچ گئی ہو اور اب جس کا جدھر منہ اٹھ رہا ہے، وہ ادھر ہی بھاگا جا رہا ہے۔ ہاں یہ بھی تو ذہن میں آیا کہ ہم لوگ اپنا اصل کام چھوڑ کر غیر ضروری کاموں میں الجھے رہتے ہیں۔ ہم رک کر تھوڑی دیر کے لیے بات کر کے پھر اپنے کام میں مصروف نہیں ہو پاتے بل کہ اس کے برعکس ہمارا اس زیادہ وقت باتوں میں گزرتا ہے۔ باتیں، باتیں اور باتیں۔ اور یہ کیسی عجیب بات ہے کہ کائنات کی ساری مخلوقات میں ہم ہی اشرف و اضل ہیں۔ دیکھا جائے تو اس دنیا کی ہم ہی رونق ہیں۔ ہم ہی نے اس کی صورت گری کی ہے اور ہم ہی اس کے غارت گر بھی ہیں۔ پرندوں، حیوانوں اور حشرات الارض نے اس دنیا کو کچھ بھی تو نہیں دیا لیکن وہ اپنے کام میں مگن ہیں۔ اس بات سے بھی بے نیاز ہو کے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ کوئل کوکتی ہے، پپیہے بولتے ہیں، پی کہاں، چیونٹیاں مل جل کر اناج کا ذخیرہ اکٹھا کرتی ہیں۔ شہد کی مکھیاں متحد ہو کر شہد کا چھتا بناتی ہیں۔ ہرے طوطے بادام کے ہرے رنگ کے پتوں میں چھپ کر بادام کترتے ہیں۔ لومڑیاں اپنے بھٹ میں آرام کرتی ہیں اور بھیڑیے چاندنی راتوں میں شکار کی تلاش میں صحرا میں نکلتے ہیں مگر مچھ کیسی نیم وا آنکھوں کے ساتھ ریت پرسن باتھ لیتا رہتا ہے، مچھلیاں پانی میں تیرتی پھرتی ہیں اور پرندے آسمان کو سرشام اپنی پرواز سے بھر دیتے ہیں لیکن ہماری زندگیاں بے ترتیب ہیں، ہماری خواہشات پراگندہ ہیں، ہم اپنے گھروں میں بے آرام ہیں۔ اپنے دفتروں میں بے سکون ہیں، ممکن ہے آپ میں سے کوئی یہ کہے، ہم اس لیے بے سکون ہیں کیونکہ ہم انسان ہیں۔ اگر حیوان ہوتے تو شاید ہم بھی پرسکون ہوتے۔ انسان کے نصیب میں سکون کہاں؟ بے شک قدرت کے کارخانے میں انسانوں کے لیے سکون محال ہے۔ اس لیے سکون کی تلاش بھی بے سود ہے۔ رہی بات پراگندہ خواہشات کی تو جو دل سے محروم ہیں، وہ خواہشات سے بھی محروم ہیں۔ دل ہو گا تو خواہشات بھی ہوں گی اور جہاں خواہشات ہوں گی، وہاں پراگندگی بھی ہو گی۔ اس لیے میرا یا کسی بھی اس بات پر پریشان ہونا فضول ہے۔ ہم چیونٹیاں نہیں ہیں کہ قطار بنائیں۔ ہم انسان ہیں اور قطار توڑ کر ہم خوشی محسوس کرتے ہیں تو پھر قطار کیوں نہ توڑیں۔ جب ہم اداس رہ سکتے ہیں تو پھر ہم ہر وقت قہقہے کیوں لگائیں؟ کہنے والے تو یہ بھی کہہ سکتے ہیں، انسان وہ ہے جو پابندی کی خلاف ورزی کرے اور انسان وہ ہے جو ہر خلاف ورزی کو اپنا حق سمجھے اور پھر نادم بھی نہ ہو۔ یہ تنوع، مزاجوں کی یہ رنگا رنگی انسانیت کا جوہر ہے۔ اور کہنے کو تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہم انسان ہیں۔ ہم طوطے اور مینا نہیں ہیں۔ ہم بندر اور ہاتھی نہیں ہیں۔ ہم چوہے اور بلی نہیں ہیں لیکن یہ سارے جانور ہمارے وجود کے اندر جمع ہیں۔ ہم طوطے کی طرح رٹتے ہیں۔ مینا کی طرح گاتے ہیں، بندر کی طرح نقل اتارتے ہیں، ہاتھی کی طرح شہ زور ہیں۔ چوہے کی طرح بزدل ہیں اور لومڑی کی طرح چالاک ہیں، اسی لیے انسان کائنات اصغر ہے۔ ایک چھوٹی سی کائنات جس کے اندر وہی ساری کائنات سمائی ہوئی ہے جو باہر نظر آتی ہے۔ کہنے والے کچھ بھی کہیں لیکن سچ یہ ہے کہ انسان ہو کر ہم خواہ کچھ ہو جائیں لیکن ہم بہت دور جا کر بھی اپنی انسانیت کے جامے سے باہر نہیں ہو سکتے۔ انسانیت کی خو بو کہیں بھی ملے، خواہ حیوانوں میں سہی، ہمیں اسے اپنانا چاہیے۔ ہمیں چیونٹیوں سے نظم و ضبط سیکھنے میں کسی شرم کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے اور شہد کی مکھیوں سے اتحاد، یکجہتی کا سبق لینے میں دیر نہیں لگانا چاہیے۔ ہم اگر کچھ سیکھ سکیں، تب ہی اچھے انسان ہو سکتے ہیں کیونکہ جانداروں میں سب سے زیادہ سیکھنے کی صلاحیت اسی دو ٹانگوں والی مخلوق میں پائی جاتی ہے جسے انسان کہا جاتا ہے۔