مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کے دارلحکومت سری نگرمیںخلیجی ممالک بالخصوص سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات کے سرمایہ کاروں کی کانفرنس طلب کر لی ہے ۔عرب سرمایہ کاروں کاکہنا ہے کہ وہ رواں برس مقبوضہ کشمیرمیں 70 ہزار کروڑ کی سرمایہ کاری کا ہدف رکھتے ہیں۔ سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات کے سرمایہ کار بڑے پیمانے کی صنعتوں کے لیے جموں وکشمیر میں سرمایہ کاری کریں گے۔ جن شعبوں کوعرب سرمایہ کاروں نے چناہے ان میں شعبہ سیاحت ، زراعت، ہاؤسنگ، دست کاری ، فُوڈ پراسیسنگ، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور میڈیکل کالجوں کی تعمیرشامل ہیں۔سری نگرمیںمنگل 22 مارچ 2022ء سے شروع ہونے والی کانفرنس چار روز تک جاری رہے گی اورکل 25مارچ کویہ کانفرنس اختتام کوپہنچ جائے گی۔مقبوضہ کشمیرمیںدہلی کی طرف سے مسلط گورنر منوج سنہا نے کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے بتایا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں بھارت،سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی دوستی نئی بلندیوں کو چُھو رہی ہے۔مسئلہ کشمیرکے حل نہ ہونے کے باوجود مقبوضہ کشمیرمیں عرب انویسٹمنٹ پرکئی قسم کے شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں ۔سمجھاجارہا ہے کہ عربوں نے جس طرح فلسطین کاز کوچھوڑ کر اسرائیل کے ساتھ تعلقات گانٹھ لئے ہیں عین اسی طرح کشمیریوں سے بھی وہ بھاگ رہے ہیں ۔ مقبوضہ کشمیرکے داراحکومت سری نگر میں جاری سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت کے لیے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی کمپنیوں کے 30 سے زیادہ نمائندے فی الوقت کشمیر میں ہیں، جہاں وہ مختلف علاقوں میں سرمایہ کاری کے امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ان سرمایہ کاروں کاکہناہے کہ وہ مقبوضہ کشمیرمیں سیاحت کے مشہوراوردلفریب مقامات گلمرگ، سونہ مرگ اور پہلگام میں ہوٹلوں کی تعمیر میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں۔ مودی حکومت نے سرمایہ کاروں کے لیے اراضی کشمیرکی نشاندہی کی جا چکی ہے جبکہ لینڈ لاز(حصولِ اراضی کے قوانین) میں تبدیلی لائی جارہی ہے تاکہ عرب سرمایہ کار اپنی مرضی سے فیصلہ کرسکیں کہ انہیں کہاں ،کس جگہ اورکتنی اراضی چاہئے ۔سعودی عرب کی کمپنی ’’الفا سکائی ‘‘کے سی ای او ایمن عبدالرحمٰن ایس الہلائی بھی وفد میں شامل ہیں۔ان کمپنیوں کی طرف سے سرمایہ کاری کے لیے دو ہزار ایکڑ سے زیادہ زمین مختص کی گئی ہے اور یہ حجم 6000 ایکڑ تک پہنچانے کا منصوبہ ہے۔سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے صنعت کارروں کا وفد ایسے وقت مقبوضہ کشمیر میں سرمایہ کاری کے امکانات تلاش کر رہا ہے جب پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی کا اجلاس منعقدہو رہا تھا ۔ یہ سوچناکہ انڈیا یا عرب ممالک کے حکمران اپنے ممالک کے سرمایہ کاروں کے توسط سے مقبوضہ کشمیر کے سیاحتی مقامات پر ہوٹلزبنائیں گے یاپھریہاں مختلف النوع پروجیکٹس اورکئی قسم کی فیکٹریاں لگاکرکشمیرکے سلگتے مسئلے کوہمیشہ ہمیش کے لئے ختم کرڈالیں گے یہ تو ہرگزممکن نہیں ہے۔ دراصل ملت اسلامیہ کشمیرکوذرودولت کامعاملہ درپیش نہیں، بھارت سے معاشی فوائد کشیدکرنا ان کامطمع نظر رہا اورنہ ہے ۔ان کامطالبہ پیسہ اورنوکریاں نہیں بلکہ بدترین بھارتی غلامی سے نجات حاصل کرناہے ۔اگر ان کی جدوجہد سیم وزرکے لئے ہوتی توپھر وہ بھارت سے نجات حاصل کرنے کے لئے تحریک آزادی شروع ہی نہ کرتے اورپھروہ بے مثال جانی اورمالی قربانیوں کی تاریخ رقم نہ کرتے ۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں پیسوں کی ریل پیل میں کوئی کسرباقی نہیں چھوڑی اور گذشتہ 74برسوں کی طویل دورغلامی اور بھارتی جبری قبضے اوراس کے جارحانہ تسلط میں رہنے ،بالخصوص گذشتہ 31برسوںکے دوران بھارت کی طرف سے اسلامیان کشمیرکو جانی اورمالی طور پربے پناہ نقصان پہنچانے کے باوجوداسلامیان کشمیرمعاشی طور پرمستحکم رہے۔اس پس منظر کوملحوظرکھ کر یہ سوچناکہ انڈیایاعرب ممالک کے حکمران کشمیر میں مختلف النوع پروجیکٹس اورکئی قسم کی فیکٹریاں لاکرکشمیریوں کے مسئلے کو ختم کرڈالیں گے یہ تو ممکن ہی نہیں ہے۔ یہ تمہید اس لئے باندھی تاکہ کشمیری مسلمانوں کا موقف،مطالبہ ،انکی خون سے تربتر جدوجہد کے خدوخال اوران کی منزل مقصود کااندازہ لگانے میں کسی کو کوئی دقعت محسوس نہ ہو۔ کشمیری مسلمانوں کی طرف سے دی جانے والی قربانیوں کوعالم عرب کے حکمران فراموش کربیٹھے ہیں۔عرب حکمران یہ خوب جانتے ہوئے کہ کشمیری مسلمان چاہتے کیاہیں اوروہ مسئلہ کشمیر سے بھی پوری طرح آگہی رکھتے ہیں لیکن مظلوم ملت اسلامیہ کشمیرکی جائز جدوجہدکے بجائے ظالم اورسفاک بھارت کاساتھ دے رہے ہیں۔ جنوری 2022ء میںدہلی کی طرف مقبوضہ جموںو کشمیرپرمسلط گورنر انتظامیہ اور متحدہ عرب امارات کی کئی کمپنیوں کے درمیان 3000 کروڑ روپے مالیت کے صنعتی منصوبوں پر سرمایہ کاری کے لیے معاہدہے طے پائے تھے۔ ان کمپنیوں میں’’ عمار‘‘’’ لُولُو‘‘’’ ماتو انویسٹمنٹس‘‘’’ المایا گروپ‘‘’’ جی ایل امپلائمنٹ بروکریج‘‘’’ سینچری فائنانشل اور انفارمیشن ٹیکنالوجی ‘‘سے متعلق عالمی شہرت یافتہ’’ نُون ای کامرس‘‘ شامل ہیں۔ واضح رہے کہ مودی کے زہرناک منصوبوں کے تحت مقبوضہ کشمیر میں بھاری سرمایہ کاری کی کوششیں گزشتہ دو سال سے ہو رہی تھیں تاکہ کشمیر کے نوجوانوں کو تحریک آزادی سے دست کش کیاجاسکے ۔اس منصوبے کے تحت عرب سرمایہ کاروں کوبلایاجارہا ہے ۔بھارت نے امریکہ، برطانیہ یا دوسرے مغربی ممالک کوبھی مقبوضہ کشمیرمیں سرمایہ کاری کی دعوت دے رکھی ہے تاہم تادم تحریروہ مقبوضہ کشمیر میں سرمایہ کاری سے متعلق کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی ہے۔عرب سرمایہ کاروں کوسہولیات فراہم کرنے کے لئے بھارتی حکومت نے پہلے ہی سرینگر اور دبئی کے درمیان براہ راست فضائی رابطہ شروع کیا ہے جبکہ سعودی عرب اور جموں کشمیر کے درمیان براہ راست پروازوں کا بھی عنقریب اعلان متوقع ہے۔