اسلام آباد سے روزنامہ 92 نیوز کی رپورٹ کے مطابق آڈیٹر جنرل نے 40 وفاقی وزارتوں کی گزشتہ مالی سال کی آڈٹ رپورٹ پارلیمنٹ کو بھجوا دی ہے جس میں 51 کیسز میں 14 ہزار 562 ارب روپے کے کمزور مالی انتظامات کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ جن میں سے 292 ارب 97 کروڑ روپے مالیت کے 237 کیسوں میں قوانین کی خلاف ورزیاں اور بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے مختلف وزارتوں اور محکموں کے مالی انتظامات اور ان کے صحیح اور غلط استعمال، بے ضابطگیوں اور بے قاعدگیوں کے حوالے سے ہر سال ہی رپورٹ پیش کی جاتی ہے۔ آڈیٹر جنرل کو 50 محکموں کی آڈٹ رپورٹ پیش کرنے کا اختیار حاصل ہے لیکن متذکرہ بالا رپورٹ صرف 40 وزارتوں کے مالی معاملات پر مشتمل ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کتنے بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں کی گئی ہیں جن کی مالیت قریباً تین کھرب روپے بنتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی رقم کہاں گئی، مستقبل میں ایسی بے ضابطگیوں کا تدارک و انسداد کون کرے گا۔ یہی وہ معاملات ہیں جن میں پارلیمنٹ نے کردار ادا کرنا ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں ارکان پارلیمنٹ غیر ضروری مباحث و تکرار میں تو خوب الجھتے ہیں لیکن ایسے معاملات پر بات نہیں کرتے ۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس قسم کی رپورٹوں کو اسمبلیوں کے فورم پر لایا جائے اور ان پر بحث کے بعد ایسے نتائج مرتب کئے جائیں جن سے قومی خزانے کو لٹنے سے بچایا جا سکے اور جو محکمے اور افراد ان میں ملوث ہیں ان کے خلاف قانون کے مطابق تادیبی کارروائی کی جائے۔