زمانے میں اور بھی دکھ ہیں‘مگر میں سب کو بھول بھال کر گزشتہ پانچ چھ کالموں میں ایک ہی بات دہرائے جا رہا ہوں۔خلاصہ ہر تحریر کا یہ ہوتا ہے کہ خبردار‘امریکہ آ رہاہے۔چلئے یوں کہہ لیجیے کہ پھر آ رہا ہے اور اس کی اس آمد کے اعلان کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں نوازنے آ رہا ہے بلکہ یہ ہوتا ہے کہ ہمیں لتارنے آ رہا ہے۔یہ بھی عرض کر چکا ہوں کہ ہمارے لئے افغان جنگ ختم نہیں ہوئی‘بلکہ ازسرنو شروع ہوئی ہے۔یہ بھی بتاتا رہا ہوں کہ امریکہ افغانستان میں اپنی 20سالہ جنگ ہار چکا ہے مگر یہاں سے جانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ویت نام میں اس کی واپسی تو کئی برس بعد ہوئی تھی، مگر یہاں اسے واپسی کی خاصی جلدی ہے۔اس کے لئے یہ ایک ڈرائونے خواب سے کم نہیں کہ اس خطے کے ممالک اپنے سارے اختلافات دور کر کے متحد و متفق ہو سکتے ہیں اور اس علاقائی اتحاد کی قیادت جن کے پاس ہو گی۔اسے اس معاملے میں روس کی مدد بھی حاصل ہو گی۔وہ روس جس کے خلاف دوسری جنگ عظیم کے بعد برسوں تک امریکہ سرد جنگ لڑتا رہا ہے اور اس سرد جنگ میں روس نے اس کے خاصے دانت کھٹے کئے تھے۔وہ مقابلے کی سپر پاور تھی۔بس یہی تو دو ممالک ہیں جن کے لئے سپر پاور کا لفظ استعمال ہوتا رہا ہے۔اس کے ساتھ ایران‘ترکی‘ پاکستان ہی نہیں‘وسط ایشیا کے تمام مسلمان ممالک بھی ایک ہو سکتے ہیں۔بلا شبہ یہ ایک ڈرائونا خواب ہی ہو گا‘امریکہ کے لئے۔اسے پاکستان پر بہت غصہ ہے۔ایک تو اس لئے کہ وہ طالبان کے قریب ہے اور دوسرا یہ کہ وہ چین کا بھی ایسا دوست ہے جیسا دوسرا کوئی نہیں۔امریکہ نے گزشتہ دو تین برس میں پاکستان کو چین سے دور کرنے کی خاصی کوشش کی‘سی پیک کی رفتار تک پر بریک لگوا دی۔مگر پھر بھی اسے ڈر ہے کہ چین اور پاکستان جدا نہیں ہو سکتے اور کسی پر تو بس نہیں چلتا وہ پاکستان پر دبائو ڈالنا چاہتا ہے۔آغاز ہو چکا ہے۔اب تو ہماری حکومت کے پیارے پیارے ترجمانوں نے بھی تسلیم کر لیا ہے کہ نیوزی لینڈ کا دورہ پاکستان امریکہ کی وجہ سے ختم ہوا ہے۔وہ ممبران کے اس انٹرویو کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس میں اس نے ایک سوال کے جواب میں امریکہ کو فوجی اڈے دینے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ہم تو یہ کہتے رہے کہ بھئی مانگے ہی کس نے ہیں‘آپ خوامخواہ نمبر بنا رہے ہیں۔مگر امریکیوں نے تو اس وقت بھی کہا تھا کہ بھئی جن سے ہمیں بات کرنا ہے‘ان سے کر رہے ہیں۔اب کی بار تو کمال بیہودگی دکھائی۔ہمارے وزیر اعظم کا انٹرویو نشر کر کے ایک تجزیہ نگار سے یہ کہلوا دیا۔عین اس وقت‘ کہ پاکستان میں وزیر اعظم کی حیثیت اسلام آباد کے میئر جتنی ہے۔جن سے بات کرنا ہے ان سے بات ہو رہی ہے۔اس ایک مختصر سے تبصرے میں نہ صرف ہمارے پورے نظام پر طنز کیا گیا ہے اور ہمارے وزیر اعظم کے بارے میں بھی گھٹیا اسلوب اپنایا گیاہے‘اس کے ساتھ ہی اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ ملک کے اندر تصادم کی فضا پیدا کی جائے۔ مجھے نہیں معلوم اس کے جواب کا طریق کار وہی ہے جو ہم نے اختیار کر رکھا ہے یا کوئی بامعنی سنجیدہ فکر کی ضرورت ہے۔ایک تو ہم بولتے بہت ہیں اور بات کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم ملک کے اندر اپنی اپوزیشن سے بات نہیں کر رہے بلکہ عالمی سطح پر محو گفتگو ہیں۔میں سوچ رہا تھا کہ کیا مشورہ دوں، خارجہ امور پر کس سطح سے بات ہونی چاہیے‘ہر شخص کو نہیں بولنا چاہیے پھر خیال آیا کس کا نام لوں جو اس معاملے پر لب کشائی کرے۔جو بھی بولتا ہے چھیڑ چھاڑ کر ہی بولتا ہے۔ عرض کیا نہ میں ساری باتیں بھول چکا ہوں۔ووٹنگ مشین کا کیا بنے گا۔نیب کے چیئرمین کا مستقبل کیا ہے۔الیکشن کمشن کیسے اپنے اوپر کئے جانے والے وار برداشت کرے گا۔وغیرہ وغیرہ یا ہمارے وزیر خزانہ آج جو مہنگائی غربت اور بے روزگاری کے خاتمے کے لئے جو سہانے خواب دکھا کر گئے ہیں‘ان کا مستقبل کیا ہو گا۔یقین جانئے۔میری نظر میں یہ سب باتیں جو بصورت دیگر اہم ترین ہوتیں‘اب ثانوی ہو گئی ہیں۔مجھے نہیں اندازہ ہمارے حکمران یا مقتدر حلقے اس صورت حال سے کیسے نپٹیں گے‘مگر میں اتنا تو کر سکتا ہوں کہ بار بار یاد دلاتا ہوں کہ ہوشیار رہنا‘امریکہ آ رہا ہے اس نے طے کر لیا ہے کہ پاکستان کو چھوڑنا نہیں۔ ہمارے پاس اس کا حل کیا ہے۔میں نے تو صرف یہ کہا تھا کہ ہائوس ان کا آرڈر کرنا ضروری ہے۔یہ ترکیب اس لئے استعمال کی تھی کہ آج کل ان ہے اور ہر سطح پر سمجھی جاتی ہے۔مگر لگتا ہے‘اس کا کسی کو خیال نہیں۔ بھائی‘سب ٹھاٹ پڑا رہ جاوے گا…ماضی میں ہمارے تجزیہ نگار بار بار کہتے رہے ہیں کہ ہمارے ہاں تو امریکہ حکومتیں بدل دیا کرتا ہے بلکہ ہر تبدیلی کے پیچھے یہی کہانی سنائی جاتی رہی ہے۔میں خود بھی یہ گمان رکھتا ہوں کہ ہمارا موجودہ سیاسی دور سی پیک سے نکل کر آئی ایم ایف کی گود میں ڈالنے کے ایجنڈے کی وجہ سے شروع ہوا ہے۔مگر شاید اب اس سے آگے جانا ممکن نہیں رہا۔یاد رکھئے کہ اس سازش کا مقابلہ یا یوں کہہ لیجیے امریکہ کے اس پروگرام کا مقابلہ کوئی بھی اکیلے نہیں کر سکتا۔ یہ دوسرا سوال ہے کہ آخر امریکہ سے بھاگنے کی ضرورت کیا ہے۔ماضی میں بھی ہم امریکہ کے ہم نوا رہے ہیں اور اس سے ہم نے خاصا فائدہ حاصل کیا ہے۔اس میں دو باتیں ہیں‘ایک تو یہ کہ اب کی بار امریکہ ہمیں فائدہ پہنچانے نہیں آ رہا۔اس کا ایسا کوئی پروگرام نہیں ہے۔اس کی خطے میں حکمت عملی بدل چکی ہے۔ اور ہم اس حکمت عملی میں خندق کے دوسری طرف ہیں۔ اور دوسرے یہ کہ ہمارا اپنا مفاد بھی اب نرے امریکہ کے ساتھ رہنے میں نہیں ہے۔خطے کی صورت حال بدل چکی ہے۔تاریخ کی قوتیں اب ہم سے مختلف مطالبہ کرتی ہیں۔سوچ نہیں‘تاریخ کی قوتوں کے ساتھ چلنا ہے یا دیواروں سے سر ٹکرانا ہے۔