5جولائی آیا اور گزر گیا‘ ہر سال پانچ جولائی کو قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کے جیالے ‘سیاسی کارکن اور صحافتی عُشاق یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں‘ اسی روز 1977ء کے انتخاب میں بدترین دھاندلی سے وجود میں آنے والی ایک سیاسی حکومت کا تختہ الٹ کر فوجی سپہ سالار جنرل محمد ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالا‘ ضیاء الحق منتخب حکمران تھا نہ اس نے اقتدار سنبھالنے سے قبل عوام سے روی کپڑا مکان کی فراہمی اور جمہوری اقدار و روایات کی پاسداری کا وعدہ کیا تھا‘لیکن اسلام ہمارا مذہب‘ جمہوریت ہماری سیاست‘ سوشلزم ہماری معیشت اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں‘ کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آنے والے حکمران کے دور میں اگر پیپلز پارٹی کے ارکان اسمبلی کی عزت محفوظ ہو نہ جان و مال‘ پورے پانچ سال ملک میں ڈیفنس رولز آف پاکستان کا کالا قانون نافذ رہے جس کے تحت ہر شہری کے بنیادی حقوق معطل ‘ تھوک کے حساب سے اخبارات و جرائد بند‘ صحافی پابند سلاسل‘ اور شہریوں کو چینی‘ آٹا لینے کے لئے قطاروں میں لگنا پڑے جبکہ پانچ سال ریاستی و حکومتی ستم سہنے کے بعد پاکستانی اپنی مرضی سے حکومت تبدیل کرنا چاہیں تو تاریخی دھاندلی کے ذریعے یہ حق بھی چھین لیا جائے تو کوئی احمق ہی یہ کہہ سکتا ہے کہ فوجی سربراہ نے جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر ملک میں آمریت قائم کی۔لوہے کو لوہے نے کاٹا‘ سویلین آمر کی جگہ فوجی آمر نے لی۔ ضیاء الحق فوجی آمر تھا‘ اس نے کبھی انکار کیا نہ کوئی ہوش مند شخص اسے عوام کا منتخب حکمران کہہ سکتا ہے لیکن تختہ اس نے بھی ایک سویلین آمر کا الٹا جسے عوام نے حزب اختلاف کی صفوں پر بیٹھنے کے لئے منتخب کیا۔1977ء میں عوام دھاندلی اور زور زبردستی سے اقتدار پر قابض سیاسی حکومت کے خاتمے اور ضیاء الحق کی فوجی آمریت قبول کرنے پر آمادہ کیوں ہوئے‘شہر و دیہات میں مٹھائیاں کیوں بٹیں؟ نوابزادہ نصراللہ خان‘ مفتی محمود اور دیگر جمہوریت پسند سیاستدانوں نے ضیاء الحق کے ساتھ شرکت اقتدار کیوں قبول کی ؟جن عوام کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ جمہوریت ان کی گھٹی میں پڑی ہے وہ گیارہ سال تک ایک فوجی حکمران کو کیوں برداشت کرتے رہے؟۔ پیپلز پارٹی سمیت کسی نام نہاد سیاسی جمہوری جماعت کی اجتماعی تحریک کو پذیرائی کیوں نہیں بخشی ؟یہ اصل سوال ہے؟ جس کا جواب آج تک کسی نے دینے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ بھٹو صاحب کے پانچ سالہ طرز حکمرانی میں اس سوال کا جواب موجود ہے‘ اقتدار سنبھالنے کے بعد بھٹو صاحب نے دو ایسے کام کئے جس کے نتیجے میں ملک کا تو بیڑا غرق ہو گیا مگر ان دو کارناموں کی وجہ سے بھٹو صاحب نے اپنے فدائین کا مضبوط حلقہ بنا لیا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے ملک کو صنعتی و تعلیمی ترقی کی راہ پر ڈالا جس کے باعث پاکستان دنیا کی تیزی سے ابھرتی ہوئی معاشی قوتوں کی صف میں شامل ہوا مگر بھٹو صاحب نے حکومت سنبھالتے ہی صنعتی اور تعلیمی اداروں کو نیشنلائز کر کے ترقی و خوشحالی کا یہ راستہ مسدود کر دیا‘ نیشنلائزیشن کی اس تباہ کن پالیسی کے نتیجے میں صرف ملک صنعتی و تعلیمی میدان میں برسوں بلکہ عشروں پیچھے نہیں گیا بلکہ بھٹو صاحب نے ان صنعتی و تعلیمی ادارں میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور اپنے فدائین کو بلا استحقاق بھرتی کر کے ایک کام چور‘ مفت خور اور ہڈحرام کلاس پیدا کی جو آج تک بھٹو کا دم بھرتی ہے۔ آٹا‘ چینی کے ڈپوئوں کی الاٹ منٹ‘ تعمیراتی ٹھیکوں میں پیپلز ورکس پروگرام کے ذریعے سیاسی کارکنوں کا حصہ رسدی مقرر کر کے بھٹو صاحب نے سیاسی کارکنوں کو حرام خوری کی ایسی لت ڈالی کہ دیانتدار‘ جنئن سیاسی کارکن جنس نایاب بن گئے۔صنعتی و تعلیمی اداروں کی نیشنلائزیشن اور آٹا چینی کے ڈپوئوں‘ تعمیراتی منصوبوں سے فیضاب کلاس اگر 5جولائی 1977ء کے بعد بھی بھٹو خاندان کا دم بھرتی رہی تو اس میں اچھنبے کی بات نہیں‘ بنیادی سوال برقرار رہتا ہے‘ بھٹو کے دور حکمرانی میں عوام کو کیا ملا؟ ایک نامور اور نیک نام بزرگ اخبار نویس سے ہمارے دوست مظفر محمد علی نے سوال کیا کہ آپ بھٹو کے عہد کو چند لفظوں میں کیسے بیان کرتے ہیں جواب دیا کہ ’’تمہاری ایک بیٹی بھی ہے‘‘ تفصیل یہ بیان کی ‘‘بھٹو صاحب نے انہیں ایک مشترکہ سرکاری ملازم دوست کے ذریعے رام کرنے کی کوشش کی جب میں نے صاف جواب دیدیا تو پیامبر نے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے کہا آپ یہ مت بھولیں کہ ’’آپ کی ایک بیٹی بھی ہے‘‘ چند ماہ یا سال دو سال عمر کی اس بچی کی طرف اشارہ کر کے دراصل پیامبر نے یہ پیغام دیا کہ قائد عوام کے عہد میں مخالفین کے صرف جان و مال کا زیاں نہیں ہوتا‘ عزتیں بھی لٹتی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی ملک سلیمان کی اہلیہ اور معصوم بچیوں کو تھانے میں بلوا کر بھی یہی پیغام دیا گیا تھا۔ 1977ء میں حکومت اور اپوزیشن کے مابین مذاکرات کی ناکامی کا سبب بھی بھٹو صاحب تھے جس کا اعتراف ان کے سوہنے منڈے حفیظ پیرزادہ نے 15جنوری 2015ء میں مطیع اللہ جان کے ساتھ ٹی وی انٹرویو میں کیا اور بتایا کہ بھٹو اگر مذاکرات کو ادھورا چھوڑ کر بیرونی دورے پر نہ جاتے‘ جنرل ضیاء الحق کی بات مان کر اپوزیشن سے سیاسی تصفیہ کر لیتے تو فوج مداخلت نہ کرتی‘ یہ جھوٹ تسلسل سے بولا گیا کہ حکومت اور پی این اے کے مابین معاہدہ ہو گیا تھا مگر فوجی مداخلت ہو گئی لیکن آج تک تاریخی جھوٹ بولنے والوں میں سے کسی نے وہ معاہدہ منظر عام پر لانے کی زحمت گوارا کی نہ اس کا کوئی قابل اعتبار گواہ پیش کیایہ جھوٹ ایم آر ڈی کی تشکیل کے بعد گھڑا گیا جب ایک دوسرے کے خون کے پیاسے سیاستدانوں کو ایک بار پھر مل جل کر چلنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ ضیاء الحق کی طرح بھٹو فرشتہ تھا نہ شیطان۔دونوں ہی انسان تھے‘ خطا کے پتلے اور اقتدار کے حریص۔ ایک سویلین آمر اور دوسرا فوجی آمر‘ ایٹمی پروگرام کے آغاز اور تکمیل میں دونوں کا کردار مسلّمہ اور برابر ہے‘ بھارت کو دونوں نے اپنی حدود میں رکھا‘ امریکہ کے روبرو دونوں سجدہ ریز نہیں ہوئے جمہوریت اور آزادی صحافت سے دونوں الرجک تھے اور شائد عوام کو بے وقوف بنانے میں بھی دونوں طاق۔ البتہ ضیاء الحق نے مخالفین کی تذلیل کی نہ ان کی بہو بیٹیوں کو بے عزت کر کے خوئے انتقام کی تسکین ‘جو بھٹو کا شیوہ تھا‘ جاگیردارانہ پس منظر کی بنا پربھٹو اپنے ساتھیوں کی عزت نفس مجروح کر کے محظوظ ہوتے جبکہ ضیاء الحق کے کسی حلیف اور حریف کو یہ شکائت کبھی نہ ہوئی‘ اسلامی شعائر کی ترویج کے لئے ضیاء الحق کی کوششیں اس قدر موثر تھیں کہ آج تک ہمارے سیکولر‘ لبرل دوست غصّے میں ہیں ۔شراب نوشی‘ بدکاری اور بے حیائی کے کلچر کی حوصلہ شکنی کے سبب ہمارے لبرل سیکولر دانشور ضیاء الحق کو دنیا کا بدترین انسان گردانتے ہیں مگر یہ اخلاقی جرأت نہیں کہ وہ 5جولائی کو فوجی مداخلت کے درست اسباب کا ایمانداری سے تجزیہ کر سکیں‘قوم کو یہ بتا سکیں کہ سیاستدان ایک دوسرے کو برداشت کریں نہ سیاسی مفاہمت پر آمادہ ہوں اور نہ جمہوریت کو چلانے کے اہل تو مداخلت ناگزیر ہوتی ہے۔ ع حبس میں لُو کی دعا مانگتے ہیں لوگ