کیا وہ صرف ایک سیٹ کی بات تھی؟ اگر گھوٹکی کے ضمنی انتخاب کا معاملہ ایک سیٹ تک محدود ہوتا تو بلاول بھٹو زرداری اپنی ذاتی اور سیاسی زندگی کے دس روز سکھر ڈویژن کو نہ دیتا۔ یہ وہ دن تھے جب آصف زرداری کی گرفتاری عمل میں آئی تھی اور فریال تالپور کا گھر سب جیل بن گیا تھا۔ مگر بلاول کو پھر بھی ہدایت تھی کہ وہ اپنی چھوٹی بہن کے ساتھ سکھر میں ڈیرہ ڈال کر بیٹھ جائے۔ کیوں کہ وہاں سندھ کے سابق وزیر اعلی اور تحریک انصاف کے وفاقی وزیر علی محمد مہر کے انتقال کی وجہ سے خالی ہوجانے والی سیٹ پر پہلی بار گھوٹکی کی مہر برادری کے درمیاں مقابلہ ہو رہا تھا۔ اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ مذکورہ معاملہ محض برادری کا نہیں تھا۔ سیاست کی وجہ سے جنرل ضیاء کی حکومت کے وفاقی وزیر اور سندھ کے بہت بڑے سردار غلام محمد مہر کا خاندان ایک دوسرے کے خلاف انتخابی میدان میں اتر آیا تھا۔ ایک طرف مرحوم غلام محمد مہر کا نوجوان بیٹا محمد بخش مہر تھا اور دوسری طرف اس کا بھتیجا علی احمد مہر تھا۔ محمد بخش مہر پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر انتخاب لڑ رہا تھا اور اس کا چچا زاد بھائی علی گوہر اپنے مہر قبیلے سے کہہ رہا تھا کہ ’’زرداری نے ہمارے خاندان پر وار کیا ہے۔ اس نے ہمارے گھر کو تقسیم کردیا ہے‘‘ مگر اس کابھتیجا بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ پیپلز پارٹی والا پرچم لہراتا اور ’’دلا ں تیر بجاں‘‘ گیت پر کارکنوں سے رقص کرواتا انتخابی مہم چلانے میں مصروف تھا۔ اس حلقے کے لوگ حیران تھے کہ سردار گھرانے میں کس طرح پھوٹ پڑی ہے؟ جب کہ مہرقبیلے کے لوگ پریشان تھے کہ وہ آخر کس کو ووٹ دیں؟ جب کوئی مقامی یا غیر مقامی صحافی ان سے پوچھتا کہ ’’آپ کس کو ووٹ دیں گے؟‘‘ تب ان کے منہ سے بغیر سوچے نکل جاتا کہ ’’ہم سردار کو ووٹ دیں گے‘‘ مگر جب ان سے پوچھا جاتا کہ ’’آپ کس سردار کو ووٹ دیں گے؟‘‘ تب وہ خاموش ہوجاتے۔ کیوں کہ دونوں طرف سردا رتھے۔ ان کے اپنے سردار۔ مہر قبیلے کے سب سے بڑے سردار آپس میں لڑ پڑے تو قبیلہ پریشان ہوگیا کہ وہ کس کو ووٹ دے؟ غلام محمد مہر کے بعد مہر قبیلے کے سردار والی دستار ان کے بیٹے محمد بخش مہر کے سر پر باندھی گئی مگر وہ اس وقت بہت چھوٹا تھا۔ جب وہ نوجوان ہوا تو کھانے ’’پینے‘‘ اور گھومنے ’’پھرنے‘‘ کی وجہ سے برداری کے معاملات میں دلچسپی نہیں لیتا تھا۔ برادری کے معاملات شروع سے علی گوہر مہر کے سپرد تھے۔وہ برادری کے فیصلے کرتا۔ وہ جرگوں میں شرکت کرتا۔ غمی اور خوشی کے معاملات کو وہ دیکھتا۔ مگر اس کو احساس نہیں تھا کہ زرداری خاندان سے اس کے سردار چچا زاد بھائی کی قربت ان کے خاندان کو دو ٹکڑوں میں بانٹ دے گی۔ علی گوہر بہت زمانہ ساز شخص ہے۔ وہ نہ صرف سیاسی معاملات میں تیز ہے بلکہ پنوں عاقل فوجی چھاونی کی وجہ سے وہ اپنے علاقے کی اسٹریٹیجک اہمیت کو بھی جانتا ہے۔ علی گوہر مہر کو پیپلز پارٹی سے دشمنی نہیں تھی۔ مگر وہ بہت تیز ذہن کا بندہ ہے۔ اس کو معلوم تھا کہ پیپلز پارٹی کی ڈوبتی ہوئی کشتی میں سوار ہونا دانشمندی نہیں ہے۔ اس لیے اس نے احمد علی مہر کو بظاہر آزاد امیدوار کے کھڑا کیا مگر اصل میں اس کی مکمل ہمدردی تحریک انصاف کے ساتھ تھی۔ ویسے بھی دیکھا جائے تو علی گوہر مہر کی پالیسی اصولی طور پرغلط نہیں تھی۔ علی محمد مہر تحریک انصاف کے ساتھ تھا۔ وہ عمران خان کی حکومت کا وزیر تھا۔ اس کے چچا زاد بھائی کو بھی اپنے خاندانی راستے پر چلتے ہوئے تحریک انصاف کا حصہ بننا چاہئیے تھا مگر زرداری خاندان نے اس کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ اس طرح وہ سیاست کے میدان میں اپنے خاندان کے خلاف اتر آیا۔ گھوٹکی کے این اے 205 والے اس ضمنی انتخاب کا چرچا اس حد تک اوپر اٹھا کہ ایک سیٹ کا غیر سرکاری اور غیر حتمی نتیجہ سندھی پرنٹ میڈیا کی لیڈ اور سپر لیڈ کی جگہ لے گیا۔ جب کہ سندھی زباں کا الیکٹرانک میڈیا انتخاب والے دن اس حلقے میں پھرتا رہا۔ یہ مجموعی طور پر پرامن انتخاب تھا۔ کیوں کہ ایک خاندان اس سے زیادہ ٹکراؤ افورڈ نہیں کرسکتا تھا۔ یہ ایک عجیب منظر تھا۔ اس انتخاب میں نہ صرف مہر سرداروں کا خاندان بٹ گیا بلکہ مہر برادری کا ہر دوسرا گھر بھی بٹا ہوا تھا۔ ایک بھائی ایک امیدوار کے حق میں نعرے لگا رہا تھا اور دوسرا بھائی دوسرے امیدوار کے حق میں ووٹ ڈلوا رہا تھا۔ باپ ایک سردار کا حامی تھا اور بیٹے دوسرے سردار کی حمایت کر رہا تھا۔سندھ کے اس عجیب ضمنی انتخاب میں صرف سردار خاندان دو حصوں میں نہیں بٹا بلکہ پورا مہر قبیلہ دو حصوں میں بٹ گیا۔ یہ مہر قبیلہ اس دور میں بھی اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ کون سا امیدوار کس پارٹی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑ رہا ہے؟ وہ پارٹی کا جھنڈا نہیں دیکھتے۔ وہ صرف اپنے سردار کی پگڑی دیکھتے ہیں اور اس کے حکم کو سنتے ہیں۔ اس بار دو سردار ایک دوسرے کے مد مقابل تھے۔ اس لیے پوری برداری دو حصو ں میں بٹ گئی۔ انتخابی نتائج کے مطابق تو پیپلز پارٹی کا حمایت یافتہ امیدوار سردار محمد بخش مہر 89000 کے قریب ووٹ لیکر جیت گیا اور اس کا بھانجا 72000 کے قریب ووٹ لے پایا مگر گھوٹکی کے سارے صحافی اور سیاسی حلقے پورے یقین کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ محمد بخش مہر کی فتح کا سبب بلاول بھٹو زرداری کا گھوٹکی میں پڑاؤ نہیں تھا۔ پیپلز پارٹی کی وجہ سے اگر محمد بخش مہر کے ووٹوں میں اضافہ ہوا ہوگا تو وہ دوچار ہزار سے زیادہ ہر گز نہیں ہوا ہوگا۔ اگر پیپلز پارٹی کے انتخابی نشان اور بلاول بھٹو زرداری کے پرجوش خطابات محمد بخش مہر کی فتح کا سبب نہ بنے تو پھر ان کی جیت کی اصل وجہ کیا تھی؟ اس سوال کا جواب گھوٹکی کے سیاسی اور صحافتی حلقوں کے پاس یہ ہے کہ گھوٹکی میں 12000 سے 15000 ہزار ووٹ جے یو آئی کے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کی ہدایت پر مولانا راشد محمود سومرو نے اپنے حامیوں کو ہدایت کی وہ اپنا ووٹ پیپلز پارٹی کے امیدوار کو دیں۔ اس طرح جمعیت علمائے اسلام کی حمایت محمد بخش مہر کی فتح کا سبب بنی۔مذکورہ ضمنی انتخاب کے بعد گھوٹکی کی فضا خاموش ہے۔ مہر سردار حالیہ انتخاب میں ہونے نقصان کا جائزہ لے رہے ہیں۔ وہ سردار نسل در نسل اپنے قبیلے کے کندھوں پر سیاسی سواری کرتے آئے ہیں۔ ان کو سیاست سمجھنے کے لیے کسی یونیورسٹی جانے کی ضرورت نہیں۔ ان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اتحاد کی وجہ سے وہ کامیاب ہوسکتے ہیں اور انتشار ان کے لیے مکمل ناکامی کا سبب بنے گا۔ وہ ہمیشہ اپنے سرداری گھر کو تقسیم سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ خاندانی جائداد اور خاص طور پر زرعی زمینوں کو بچانے کے لیے شادی بیاہ بھی خاندان سے باہر نہیں کرتے۔ اس کے لیے وہ خاندانی انا کا خیال پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ اصل سبب ملکیت کے بٹوارے کا ڈر ہوتا ہے۔سندھ کے سردار صدیوں سے اپنے خاندان کو تقسیم ہونے سے بچانے کے لیے سرگرم عمل رہے ہیں مگر وقت بہت ظالم ہے۔ وقت کی گردش دریا کی لہروں جیسی ہے۔ جب کوئی بھی بند ٹوٹتا ہے تو سیلاب آتا ہے۔ اس سیلاب میں بہت کچھ بہہ جاتا ہے۔ انسان کے ہاتھ میں کوشش کے سوا اور کیا ہے؟ جمہوریت کا تقاضا یہ ہے کہ سرداری سیاست کا زوال اور عوامی سیاست کا عروج آئے ۔ یہ ممکن ہے کہ آصف زرداری کی قیادت والی پیپلز پارٹی کل یہ دعوی کرے کہ اس نے سندھ کی سرداری سیاست پر ضرب لگائی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ خود آصف علی زرداری کے لیے اپنے قبیلے کا سردار ہونا باعث فخر ہے۔ اس نے زرداری قبیلے کی سرداری کی پگڑی اس وقت باندھی تھی جب وہ ایوان صدر سے باہر آیا تھا۔ کیا ایک سابق صدر کے لیے یہ اعزاز کافی نہیں ہے کہ وہ ملک کا صدر رہا ہے؟ مگر آصف زرداری نے اپنے قبیلے کی پگڑی کو اہمیت دی ۔ آج بھی پیپلز پارٹی میں اہمیت مڈل کلاس کی نہیں بلکہ وڈیروں اور سرداروں کی ہے۔ اس لیے یہ دلیل تسلیم کرنا مناسب نہیں کہ پیپلز پارٹی سرداری مخالف سیاست کر رہی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ زرداری اپنے مفاد کی سرداری قائم کرنا چاہتے ہیں۔ گھوٹکی کا ضمنی انتخاب اس کا تازہ ثبوت ہے۔