اس ملک کا غریب 73برسوں سے غربت کا قرنطینہ کاٹ رہا ہے۔ 73سالوں سے اس ملک کے وسائل اور اس کے خزانے، یہاں کی کرپٹ اشرافیہ کی چراگاہ بنے رہے ہیں۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 73سالوں کی تاریخ،دراصل قومی خزانے پر اربوں، کھربوں کے وائٹ کالر ڈاکوئوں کی سفاک داستان ہے۔ یہاں کے غریبوں کے منہ سے نوالے چھین کر، دولت بیرون ملک محفوظ بنکوں میں رکھی جاتی رہی۔ منی لانڈرنگ، بے نامی اثاثے، پانامہ، سرے محل، سوئس بنک تو…یہاں کے نامی گرامی حکمرانوں کی کرپشن کی سپرہٹ کہانیاں ہیں۔ لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ اس ملک کے خزانوں اور وسائل کو چاٹتے دولت مند اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے طفیلیوں کا ایک ہجوم ہے، جن کے چہرے میں اور آپ نہیں پہچانتے…مگر جن کے لیے اس ملک کی اس ملک کی تجارتی اور مالی پالیسیاں بنائی جاتی رہیں تا کہ ان کے کاروبار پھلتے پھولتے رہیں۔ دولت کے انبار بڑھتے رہیں۔اس ملک کا قانون، آئین، ضابطے، آئینی ترمیمیں، اشرافیہ کی چوکھٹ پر پڑی رہی ہیں۔ مگر اب اس ملک پر کرونا وائرس کی مشکل میں ایسی افتاد آن پڑی ہے کہ پہلی بار مقتدر حلقوں میں غریب شہر کا تذکرہ ہے اور بندۂ مزدور کے تلخ اوقات کی بات ہو رہی ہے۔ کرونا کا آسیب ہر لمحہ اپنے پنجے گاڑ رہا ہے۔ اس وقت تک اس پراسرار وائرس کو شکست نہیں دی جا سکتی جب تک مکمل لاک ڈائون نہ کیا جا سکے اور اس لاک ڈائون میں دیہاڑی دار مزدور، روز کا روز کمانے والے غریب پاکستانیوں کی بقا کا مسئلہ درپیش ہے۔ ایک دیہاڑی دار، کیسے سیلف آئسولیشن میں جا سکتا ہے کیونکہ اسے اپنی روٹی کے لیے روز کنواں کھودنا پڑتا ہے۔ گھر میں بیٹھ کر وہ بھوکا مر جائے گا۔ ریاست اسے اس کی گھر کی دہلیز پر عرصۂ قرنطینہ میں، راشن روٹی کی ضمانت دے اور اگر 7کروڑ مزدور کرونا وائرس کے پھیلائو کے اس حساس مرحلے پر گھروں میں نہ بیٹھے تو ماہرین کا کہنا ہے کہ وائرس کا پھیلائو ہاتھ سے نکل جائے گا کہ سینکڑوں مریضوں کی تعداد ہزاروں تک چلی گئی تو اس سرزمین پر حشر بپا ہو جائے گا۔ حکومتی ٹیم پہلے ہی اس وائرس کے پھیلائو کے اولین مرحلے میں اسے کنٹرول کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ چین میں جنوری کے مہینے سے کرونا تباہی مچا رہا تھا تو اس وقت ہنگامی اقدامات کر لینے چاہئے تھے۔ تفتان بارڈر پر جس مجرمانہ غفلت کا ارتکاب ہوا اس پر بہت کچھ کہا جا رہا ہے جو وقت گزر گیا اس پر کچھ نہیں ہو سکتا مگر اب لمحۂ موجود میں صحیح فیصلے بروقت لیے جا سکتے ہیں۔ افسوس کہ ہم میں لیڈر شپ کا افسوسناک فقدان دکھائی دیتا ہے۔ دوبار کرونا کے مسئلے پر عوام سے خطاب فرما چکے ہیں اور اس خطاب کے ایک ایک لفظ سے خدشے، وسوسے، ابہام اور خوف ٹپکتا رہا۔ ایک لیڈر کبھی بھی بزدل نہیں ہوتا اور جو بزدل ہوتا ہے وہ لیڈر نہیں ہوتا۔ رہنما کو ہمیشہ مشکل حالات میں مشکل فیصلے کرنا ہوتے ہیں۔ اس کا جذبہ پژمردہ قوم میں بھی ایک نئی روح پھینک سکتا ہے۔ اگر ہو جذبہ تعمیر زندہ، تو پھر کس چیز کی ہم میں کمی ہے۔ مگر ہم بدقسمت ہیں کہ ہمارے اندر اسی جذبہ تعمیر کی کمی رہی۔ لیڈر کمفرٹ زون سے باہر نکل کر قوم کی رہنمائی کرنا ہے اور ہمارے حکمران عملاً کرونا سے خوف زدہ قرنطینہ کیے بیٹھے ہیں۔ وقت کے اس کھٹن مرحلے پر جب کسی ملک کا حکمران اپنی قومی سے خطاب کرتا ہے مشکل حالات میں اس کی طرف دیکھتے ہوئے لوگ یہی توقع رکھتے ہیں کہ وہ عزم اور حوصلے کو بلند رکھنے والے فیصلے کرے۔ اپنے تاریخی فیصلوں سے ملک کے غریب لوگوں کو احساس دلائے گی کہ ریاست ماں کی طرح ان کا خیال رکھے گی۔ مگر وزیر اعظم کی کنفیوژن سے بھری تقریر کا مختصر مفہوم ہی تھا کہ کرونا پھیلے گا اور ہم کچھ نہیں کر سکتے…مگر آپ نے گھبرانا نہیں۔ ہمارے ملک میں جہاں جمہوریت کے ثمرات بھی بس اشرافیہ تک پہنچتے ہوں وہاں اقتدار کے بندوبست میں شریک لوگوں کے اللوں تللوں پر، ایسے تمام غیر ترقیاتی اخراجات کا بہائو اس طرف سے روک کر غریب عوام کی جانب موڑنے کا کوئی ایک آدھ فیصلہ ہی وزیر اعظم صادر فرما دیتے۔ تو آج قوم انہیں ہیرو سمجھتی! زلفی بخاریوں، فردوس عاشق اعوانوں اور اس نوع کی دوسری خوشامد پرست مخلوق میں گھرے ہوئے، وزیر اعظم کی سماعت تک اگر یہ بات پہنچے تو عرض یہ ہے کہ 73سالوں سے اس ملک کے غریب کا حق، اس ملک کے امرا اور اشرافیہ نے کھایا اور وہ عملاً غربت کے قرنطینہ میں اپنی زندگی جیتا رہا۔ اس ملک کا دولت مند ریسٹورنٹ ایک وقت کے کھانے کا جتنا بل ادا کرتا ہے غریب اتنے پیسوں میں پورا مہینہ اپنا کنبہ پالتا ہے۔ وہ شہر کے پررونق شاپنگ مالوں، کھانوں سے مہکتے ریستورانوں، تفریح کے لمحوں سے آسودہ لگژری سینما ہائوسز، قہقہوں سے لبریز تھیٹروں سے بے گانہ، سانس کو سانس سے جوڑے رکھنے کی ایک کڑی مشقت میں مصروف رہا ہے۔ اس ملک کے حکمران، پالیسی میکر، اس ملک کی اشرافیہ، اس غریب شہر کی نسلوں کے بھی قرض دار ہیں۔ آج کرونا کی بلائے ناگہانی نے آپ کو بطور حکمران اس جگہ پر لا کھڑا کیا ہے کہ غریب شہر کے اس قرض کا کفارہ ادا کریں۔ یہ وہ قرض ہے جو گزشتہ 73برسوں سے واجب الادا ہے۔ حالات کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار مقتدر حلقوں کی ہائی پروفائل میٹنگوں میں میرے ملک کے غریبوں، دیہاڑی داروں اور بھوکے ننگے لوگوں کا تذکرہ ہو رہا ہے۔ بڑا فیصلہ کیجیے اور ملک کے خزانوں کا رخ غریب کی جانب موڑ دیجیے۔ حدیث کا مفہوم ہے تمہیں کمزور لوگوں کے صدقے سے رزق دیا جاتا ہے۔ میرا ایمان کہتا ہے کہ اس کی برکت سے کرونا کی آفت کو قابو پانے میں غیب کی مدد بھی آپ کے شامل حال ہو جائے گی۔ غربت کے قرنطینہ میں زندگی گزارتے غریب شہر کو اس کا حق دیجیے سروائیوفنڈ کا اعلان کریں اور 73برسوں سے واجب الادا قرض کا کفارہ ادا کریں۔