سابق گورنر سندھ محمد زبیر کے پرتکلف ڈرائنگ روم میں ذرامحتاط الفاظ میں سوال کیا:’’گورنر‘‘ کے عہدے کیلئے ’’وفاداری‘‘ ضروری ہے یا اہلیت۔۔۔ اپنے حوالے سے تو وہ مطمئن تھے کہ جیل میں موجود سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کا انہیں گورنر بنانے کافیصلہ میرٹ پر تھا۔۔ مگر ان کی جگہ لینے والے تحریک انصاف کے گورنر عمران اسماعیل پر جو انہوں نے تابڑ توڑ حملے کئے اسے یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں۔۔۔ صرف ایک بات ان کی دل کو لگی کہ ایک میٹرک ’’پاس‘‘ آغاخان میڈیکل کالج ،آئی بی اے، زیبسٹ اور کراچی یونیورسٹی سمیت کم سے کم درجن بھر مقتدر یونیورسٹی کے چانسلر کی کم از کم اتنی اہلیت تو ہونی چاہئے کہ وہ معزز ملکی اور غیر ملکی مہمانوں کے سامنے بولنے نہیں تو دیکھنے کی حد تک ضرور پڑھا لکھا نظرآئے جس پر ہمارے محترم سابق گورنر کے بقول تحریک انصاف کے گورنر سندھ عمران اسماعیل قطعی پورا نہیں اترتے۔۔۔؟تاہم وفاداری کے حوالے سے محترم محمد زبیر نے اعتراف کیا کہ وزیراعظم عمران خان سے طویل وابستگی کے حوالے سے وہ اس معیار پر ضرور پورے اترتے ہیں۔۔۔ وطن عزیز کی اسے بد قسمتی ہی کہا جائے کہ ہماری ملکی سیاست میں ’’کمٹمنٹ‘‘، آئیڈیالوجی، اہلیت اور میرٹ سے زیادہ’’وفاداری‘‘ کو ہی اولیت دی جاتی ہے اور یہ برس، دو برس کا نہیںدہائیوں کا قصہ ہے۔۔ اور اب تو ہمارے سیاسی زعماء سینہ ٹھونک کر نہ صرف کہتے ہیں بلکہ اس پر عمل بھی کرتے ہیں کہ پارٹی کے وسیع تر مفاد میں حکومت کے سربراہ اور پارٹی قائد سے وفاداری ہی پہلی شرط ہے۔۔۔ متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کو اس بات کا کریڈٹ دیاجائے گا کہ جو دیگر سیاسی جماعت کے قائدین کی طرح الفاظ چبانے کے بجائے یہ دو ٹوک نعرہ لگاتے اور لگواتے تھے کہ(جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے،یہاں غداری پر موت کے جملے کو لغوی معنوں میں لیاجائے)تاریخ بڑی بے رحم ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ دستاویزات اور کتابوں میں محفوظ بھی ہوجاتی ہے۔۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے نامزد کردہ مسلم لیگ کے سیکریٹری جنرل اور پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کی تحریک آزادی کیلئے جو خدمات رہیں اس سے کون منکر ہوسکتا ہے۔ ایک نوابزادہ اور وزیراعظم ہوتے ہوئے، شہید ہوئے تو ان کے بینک اکاؤنٹ میں ہزار روپے بھی نہ تھے۔ مگر حب الوطنی سے مغلوب ہوکر بھری پارلیمنٹ میں غیر منقسم بنگال کے وزیراعظم حسین شہید سہروردی کو غدار وطن قرار دیتے ہوئے انہیں پاکستانی شہریت دینے سے ہی انکار کردیاتھا۔۔ آزادی کی جدوجہد میں بنگالی مسلمانوں کو جس طرح انتہا پسند ہندو بنگالیوں کیخلاف سہروردی صاحب نے منظم کیا اس کے صلے میں تو قیام پاکستان کے بعد انہیں نوابزادہ لیاقت علی خاں کے پائے کا عہدہ ملنا تھا مگر۔۔۔ کیونکہ وہ مسلم لیگی قیادت کی مروجہ وفاداری پر پورے نہیں اترتے تھے اس لئے ’’غداری‘‘ کے تمغے سے نوازے گئے ۔۔۔ یہی سلوک تحریک پاکستان کیلئے بے پناہ قربانی دینے والے دیگر قوم پرستوں سے بھی روا رکھاگیا۔۔۔ خان عبدالغفار خان، میر غوث بخش بزنجو، عبدالصمدخان اچکزئی۔۔ اور تو اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے میاں افتخار الدین یہ تو چند بڑے نام ہیں ورنہ قیام پاکستان کے بعد سیاستدانوں کی پوری ایک کھیپ تھی جسے محض اس لئے متعصب اورغدار ٹھہرایاگیا کہ وہ’’مسلم لیگ‘‘ اور اس دور کے حکمران وقت کے وفاداری کے معیار پر پورے نہیں اترتے تھے۔۔ مسلم لیگی حکومت اور پارٹی قیادت سے اختلاف کوغداری اور ملک دشمنی قرار دینے کا نتیجہ یہ نکلا کہ1958ء کا سن آتے آتیپاکستان کی بانی جماعت ’’مردوں کا قبرستان بن گئی‘‘۔۔۔ اور یوں جب فیلڈ مارشل محمد ایوب خان لیفٹ رائٹ کرتے ایوان اقتدار میں داخل ہوئے تو چہار جانب ’’میاؤں میاؤں‘‘ سے ان کا استقبال ہوا۔۔۔فیلڈ مارشل ایوب خان اور جنرل یحییٰ خان کے دور کے بارے میں بہت کچھ لکھاجاچکاہے۔۔ اور پھر فوجی جنرلوں کا تو وفاداری کے حوالے سے اپنا ڈسپلن ہوتاہے۔۔ دونوں فوجی حکمرانوں نے جو کچھ کیا انہوں نے اسے اپنی زندگی میں ہی بھگتا۔ اپنے وقت کے طاقتور ترین فوجی سربراہان مملکت میں سے ایک کا اپنے گاؤں میں گمنامی میں انتقال ہوا تو دوسرے کاپنڈی کی ایک خستہ حال کوٹھی میں۔۔۔ دہائی سے اوپر بڑے کروفر سے حکومت کرنے والے دونوں فوجی حکمرانوں کا پاکستان کی سیاسی تاریخ کے اوراق الٹتے ہوئے جب بھی ذکر آتا ہے تو مشکل ہی سے ذکر خیر سے ان کے نام لئے جاتے ہیں۔رہے ہمارے قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو توغیر ملکی ڈگریوں اور علم و حکمت کے خزانے سے لیس ہونے کے باوجود جب سقوط ڈھاکہ کے بعد بچے کھچے پاکستان میں عنان اقتدار سنبھالا تو سندھ کا گورنر بڑے فخر سے اپنے ٹیلنٹڈ کزن کو لگایا۔۔ پنجاب میں اپنے ہاتھوں سے بنائے شیر پنجاب غلام مصطفی کھر کو گورنر لگایا۔ البتہ بلوچستان اور اس وقت کے صوبہ سرحد میں چونکہ نیشنل عوامی پارٹی کو حکومتیں دی گئی تھیں اس لئے گورنر انہیں کے نامزد کردہ لگے۔ مگر ابھی سال دو ہی گزرے ہوں گے کہ ایک کے بعد دوسرے گورنروں، وزیروں، مشیروں کو ایوان اقتدار سے ٹھڈے اور دھکے دے کر نکال باہر کیاگیا کہ کسی نے اشارے کنائے میں کسی پارٹی آئیڈیالوجی سے مغلوب ہوکر بھٹو صاحب کی مطلق العنانی کو چیلنج کرنے کی جسارت کرڈالی۔پاکستان پیپلزپارٹی جیسی ترقی پسند عوامی جماعت کا جب سیکریٹری جنرل جنرل ٹکا خان کو بنایاگیا تو ان کی سب سے بڑ ی خو بی ان کی’’وفاداری‘‘ ٹھہرائی گئی۔۔۔ جنرل ضیاء کے دس سالہ دور میں تو ان کی ’’چھڑی‘‘ سے وفاداری ہی پہلی شرط ہوتی تھی۔ سانگھڑ کے غریب محمد خان جونیجو کو جو روایتی گارڈ آف آنر ملا اس سے وہ ایسی خوش فہمی میں مبتلا ہوئے کہ اپنے منسٹرو جنرل کو ہی چیلنج کر بیٹھے۔۔۔ نتیجہ برطرفی اور پھر بیماری ،بے بسی میں موت۔۔۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور محترم میاں نواز شریف کی تین دہائی میں باری باری آنے والی عوامی حکومتوں کی تفصیل میں گیا تو کئی کالموں کا کھاتہ کھل جائے گا۔۔۔ جبکہ میں گفتگو تحریک انصاف کی نومولود حکومت پر سمیٹنا چاہتاہوں۔۔۔ جس کے قائد عمران خان22سال کی طویل کٹھن جدوجہد کے بعد مسند اقتدار پر بیٹھے ہیں۔۔۔ کیا برسوں سے برسراقتدار کرپٹ فرسودہ دوپارٹیوں کے ہوتے ہوئے عمران خان کی باری آسکے گی۔۔۔ اس پر صرف ایک ردعمل ہی پر اکتفا کروں گا کہ پی پی کے سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے بھائی نے الیکشن سے ہفتے بھر پہلے بھرے مجمع میں دہاڑتے ہوئے خان صاحب سے اپنی نفرت کااظہار اس طرح کیا تھا کہ اگر عمران خان وزیراعظم بن گئے تو وہ اپنے ہاتھوں سے خود کو گولی مارلیں گے۔ ابھی تک موصوف کی خودکشی کی خبر نہیں آئی۔ مگر سیاسی طورپر پنجاب میں ان کی جماعت اور خود اس کے سرخیلوں کی ’’ سیاسی موت‘‘ کب کی واقع ہوچکی ہے۔۔۔ تحریک انصاف کی حکومت کے بقول شخصے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں۔۔ مغرب کی ایجاد کردہ اصطلاح کے مطابق اب کسی حکومت کی کارکردگی کیلئے100دن کا پیمانہ بنادیا گیاہے۔۔ یاد رہے کہ یہ سو دن پلک جھپکتے گزر جاتے ہیں۔ جس وقت آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے ان سو دنوں میں دس دن گزرنے کے بعد 90دن رہتے ہیں۔پہلے بھی لکھاتھا کہـ’ آغاز تو اچھا ہے‘‘۔۔مگر بڑے اور اہم عہدوں پر لگتا ہے ابھی بھی پیمانہ وفاداری ہی ہے۔۔۔ فخر امام اور ڈاکٹرفہمیدہ مرزا جیسے تجربہ کاراسپیکر کے مقابلے میں کھلاڑی اسد قیصر معذرت کے ساتھ’’جچا‘’‘ نہیں۔۔ دوسری مثال گورنر سندھ عمران اسماعیل کی دے کر رخصت لوں گا کہ کالم اپنے آخری دم پر ہے ۔پھر ذرا روایتی صحافی ہوں’’گھنے بالوں پر اولے‘‘ گرانا۔۔۔ آداب اور اخلاقیات کے حوالے سے بھی مناسب نہیں۔