حضرت’’ غوث اُلاعظم ‘‘، شیخ عبدالقادر جیلانی / گیلانی ؒ کا ایک شعر ہے… سی صدوشصت نظرر اتبۂ بندہ راست! بندہ را مرتبہ بنگرز کُجاتا بہ کجُاست! یعنی ’’(اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ) میں اپنے بندے پر ہر روز تین سو ساٹھ (360) مرتبہ نظر ڈالتا ہوں،تاکہ اس بات سے اندازہ لگائوں کہ میرا بندہ کہاں سے کہاں تک پہنچ گیا ہے‘‘؟ پرسوں 8) مئی کو)میں نے حضرت ’’غوث اُلاعظم‘‘کے ایک فرزند ، سابق وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات و صحت و 92میڈیا گروپ کے ایڈوائزر، سیّد انور محمود گیلانی کی ’’دعوت افطار و گفتار‘‘ میں مہمانوں کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ کے تقریباً دو اڑھائی سو بندوں (فرزندانِ پاکستان و دختران پاکستان) کو دیکھا اور اُن سے ملا جن پر (بقول حضرت غوث الاعظم ؒ) اللہ تعالیٰ ہر روز تین سو ساٹھ بار نظر ڈالتے رہے ہیں اور اب بھی ڈال رہے ہیں۔ سیّدانور محمود صاحب سے میرا تعلق 1973ء میں ہوا اور 1992ء میںدوستی ہو گئی۔ میرا تجربہ ہے کہ انفارمیشن گروپ کے "Serving" اور "Retired" سینئر افسران ، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے سینئر ترین کارکنان "Retired" ہو کر بھی کبھی "Tired" نہیں ہوتے اور بعض تو "King Maker" کا کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک۔ ریٹائرمنٹ کے بعد سیّد انور محمود، دوستوں کے اعزاز میں دعوت افطار و گفتار سجاتے 12 سال ہو گئے ہیں۔ موصوف اس شاہ خرچی کے اس لئے متحمل ہیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعدانہوں نے ’’ملٹی نیشنل کمپنیوں‘‘ کے مسائل حل کرنے کے لئے "Consulting and Advocacy" کا ادارہ قائم کر رکھا ہے، جس میں کئی ریٹائرڈ ’’سول اینڈ ملٹری بیورو کریٹس‘‘خدمات انجام دے رہے ہیں۔میں نے مسلسل دیکھا کہ ’’انفارمیشن گروپ کے سینئر رکن کی حیثیت سے،خاص طور پروفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات کی حیثیت سے سیّد انور محمود نے حکمرانوں کو مالکان اخبارات و الیکٹرانک میڈیا اور سینئر صحافیوں اور اینکرپرسنز کے ساتھ ہمیشہ نیکی کرنے کا مشورہ دیا اور ان سے بھائی چارا کرنے کابھی۔ معزز قارئین!۔ سید انور محمود کا رُوحانی سلسلہ ہندوستان کے بادشاہ فیروز شاہ تغلق کے دَور کے صوبہ بہار کے شہر پٹنہ سے کچھ دور موضع ’’بہار شریف‘‘ کے ’’فیضِ عالم‘‘ حضرت سید مخدُوم شاہ شرف الدین سے ہے۔ فیروز شاہ تغلق نے اپنے ایک درباری کو ایک بہت بڑی جاگیر کے کاغذات دے کر حضرت سید مخدُوم شاہ شرف اُلدّینؒ کی خدمت میں بھیجا۔ حضرت مخدوم صاحب بادشاہ کے دربار میں تشریف لے گئے اور بادشاہ سے کہا کہ ’’درویشوں کو جاگیروں کی ضرورت نہیں ہوتی، میں آپ کو جاگیر کے کاغذات واپس کرنے آیا ہوں۔‘‘ بادشاہ مسکرایا اور بولا کہ ’’حضرت مخدُوم صاحب قبلہ! میں آپ سے جاگیر کے کاغذات اس شرط پر واپس لوں گا کہ میرے درباری آپ کے ساتھ اشرفیوں کے توڑے لے کر جائیں گے‘‘ حضرت مخدومؒ! نے بادشاہ کی شرط منظور کر لی۔ پھر چشم فلک نے دیکھا کہ ’’دہلی میں آگے آگے حضرت مخدوم صاحب ؒ اور ان کے چند مرُیدین تھے اور اُن کے ساتھ بیل گاڑیوں میں اشرفیوں کے توڑے لادے بادشاہ کے درباری ۔ حضرت سیّدمخدوم شاہ شرف اُلدّین ؒ نے ساری اشرفیاں راستے میں کھڑے لوگوں میں بانٹ دیں اور خالی ہاتھ ’’بہار شریف‘‘ واپس چلے گئے۔ سیّد انور محمود صاحب کے والد مرحوم سیّد محمود شاہ گیلانی ؒ اور ان کے بزرگوں نے قیام پاکستان میں اہم کردار ادا کیا لیکن سیّد محمود شاہ گیلانی ؒ نے اپنے بزرگوں کی ’’گدی نشینی‘‘ قبول کرنے کے بجائے ریلوے میں ملازمت کر لی تھی۔ میں نے دیکھا اور اب بھی دیکھ رہاہوں کہ سیّد انور محمود گیلانی ایک پھل دار اور سائے دار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لوگ درخت کا پھل کھاتے ہیں۔ اُس کے سائے میں بیٹھتے ہیں۔ اُس کی ٹہنیاں بھی کاٹ کر لے جاتے ہیں، اُس پر پتھر بھی مارتے ہیں لیکن اس کے باوجود درخت پھل دینا بند نہیں کرتا۔ میں نے کئی احسان فراموشوں کو سیّد صاحب پر زبانی اور تحریری طور پر تنقید کے پتھر مارتے اور پھر ان کے پائوں پڑتے بھی دیکھا ہے۔ فارسی کے نامور شاعر حافظ شیرازیؒ نے کہا کہ...... ’’بادوستاں تلطّف ،بادشمناں ،مدارا‘‘ ’’یعنی دوستوں کے ساتھ مہربانی اور دشمنوں کے ساتھ مدارات‘‘۔ میں نے سیّد انور محمود کو اسی اصول پر عمل پیرا ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔حافظ شیرازی ؒکا ایک اور شعر ہے کہ....... درختِ دوستی بنشاں کہ ، کام دِل بیار آرد ! نہالِ دُشمنی برکُن کہ، رنج بیشمار آرد! یعنی ۔’’دوستی کا درخت لگا، اس طرح دل کا مقصد پھل لاتا ہے، دشمنی کا پودا اکھاڑ پھینک کیونکہ یہ بے شمار تکلیفیں دیتا ہے‘‘۔ سیّد انور محمود اس مشورے پر عمل پیرا ہیں۔ ’’دعوتِ افطار و گفتار‘‘ میں ۔سیّد انور محمود صاحب دوستی کے درخت لگانے پر یقین رکھتے ہیں۔ سیّد انور محمود صاحب کے سماجی ،ثقافتی ، علمی و ادبی پروگراموں کو کامیاب بنانے میں ان کی اہلیہ ۔ اُردو اور پنجابی کی نامورشاعرہ و ادیبہ بیگم نیرّ محمود کا بھی بہت ہی اہم کردار ہے۔سیّد انور محمود اور بھابھی نیّر محمود نے میرے دو بیٹوں اور دو بیٹیوں کی شادی میں شرکت کی ۔ایک بیٹے کی شادی میں اسلام آباد سے باہر باراتی بن کر بھی گئے۔16 اگست 2009ء کو سیّد انور محمود اور بھابھی نیّر محمود کے بیٹے سیّد بلال محمود کی شادی قرار پائی تھی۔میں نے سیّد بلال محمود کا سہرا لکھا اور شادی سے تین دن پہلے ان کے گھر جا کر سُنایا تو سیّد انور محمود اور بھابھی نیّر محمود آبدیدہ ہو گئے ، بھابھی صاحبہ نے میرے سر پر وار کر 5 ہزار روپے میرا صدقہ دیا۔ اس سے پہلے جولائی 1995ء میں میرے کالموں کا انتخاب ’’سیاست نامہ 1 ‘‘ شائع ہوا۔ میں نے اُس کا انتخاب سیّد انور محمود کے نام کیا اور اس میں حافظ شیرازی کا یہ شعر شامل کیاکہ … از چشم زخم زہر ، مُبادت گزندازانکہ! دردلبری بغایتِ خُوبی رسیدہ! یعنی ’’(خدا کرے کہ) زمانے کی نظر بد سے تجھے نقصان نہ پہنچے کیونکہ تو دلبری میں خوبی کے کمال کو پہنچ گیا ہے‘‘۔ معزز قارئین!میں پچھلے سال بیماری کے باعث سیّد انور محمود کی دعوتِ افطار و گفتار میں شریک نہیں ہو سکا تھا ۔ میں صحت یاب ہو گیا لیکن نکاہت کے باعث میرا اسلام آبادی داماد معظم ریاض چودھری مجھے دعوت افطار و گفتار میں لے گیا۔میں سابق وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات برادرِ عزیز اشفاق احمد گوندل کی میز پر بیٹھا تھا اور میرے ساتھ انفارمیشن گروپ کے دو سینئر ارکان میاں شبیر انور ،رشید احمد چودھری اور سینئر صحافی برادران عزیز ہارون الُرشید ، عبدالودود قریشی، عظیم چودھری اور پاکستان اخبار فروش فیڈریشن کے نامور قائد ٹکا خان بھی براجمان تھے ۔1981ء سے میرے دوست سابق وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات سلیم گل شیخ ہماری میز پر آئے اور انہوں نے مجھ سے بھرپور جپھی ڈالی۔میں نے اپنے 30 نومبر 2004ء کے کالم میں لکھا تھا کہ ’’مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا سلیم گل شیخ سے میری دوستی صدیوں سے ہے میں نے اس کالم میں یہ فلمی شعر بھی جڑ دیا تھا ...... سو سال پہلے ، مجھے تم سے پیار تھا! آج بھی ہے اور کل بھی رہے گا! انفارمیشن گروپ کے سیّد طارق امام اوررائے ریاض احمد خان کے علاوہ صحافی برادری کے حنیف خالد ، فاروق اقدس، حافظ محمد طاہر سے بھی مل کر بہت خوشی ہوئی۔ انفارمیشن گروپ کی دو خواتین ایڈیشنل سیکرٹری وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات جنابہ زاہدہ اور انفارمیشن سروسز اکیڈمی کی ثریا جمال نے میری بحالی صحت پر مجھے مبارکباد دی تو میں نے ان کے سروں پر شفقت سے ہاتھ رکھا تو مجھے اپنی بہنیں اور بیٹیاں یاد آ گئی ۔ چیئرمین پیمرا پروفیسر مرزا محمد سلیم بیگ بہت ’’Rush ‘‘لے رہے تھے۔ سیّد انور محمود گیلانی نے مجھے مخاطب کرکے بیگ صاحب سے کہا کہ اثر چوہان صاحب ! مرزا سلیم بیگ ہماری اخلاقی اقدار کی حفاظت اور ان کے فروغ کے لئے ہمہ تن مصروف ہیں۔ معزز قارئین! ۔پاکستان کی رُوحانی شخصیت’’A Living Legend‘‘( سیّد انور محمود گیلانی کی طرف سے)مہمانین کیلئے Food For Thought۔تھی اس تقریب میں وزیر اعظیم کی معاونِ خصوصی محترمہ فردوش عاشق اعوان اور 2وفاقی وزراء شیخ رشید احمد اور فواد چوہدری بھی شریک تھے۔میرا جی چاہا کہ مَیں اُستاد شاعر مِیر تقی میرؔ کے شعر میں۔میر’’میرکے بجائے وزیر لکھ کر آپ کی خدمت میں پیش کروں؟ ہم ہُوئے تم ہُوئے وزیر ہُوئے! سب اُسی زُلف کے اسیرہُوئے! کتنے خوش قسمت ہیں۔سیّد انور محمود، گیلانی؟