معزز قارئین!۔ ہم ہر سال ’’یوم دفاع ‘‘(Defence Day) مناتے ہیں لیکن، 23 مارچ2019ء کو ہم نے ’’ یوم پاکستان‘‘ (Pakistan Day) کو بھی ’’یوم دفاع‘‘ (Defence Day) کے طور پر منایا ۔ قومی یکجہتی اور فوجی طاقت کا شاندار مظاہرہ کِیا گیا۔ اِس بار ریاستِ پاکستان کے چاروں ستونوں (پارلیمنٹ، حکومت، عدلیہ اور میڈیا) سمیت مسلح افواجِ، پاکستان کے سارے طبقوں اور عوام نے متحد ہو کر ’’ یوم پاکستان‘‘ منایا۔ پاکستان کی مسلح افواج کی شاندار پریڈ میں دوست ممالک (عوامی جمہوریہ چین ، جمہوریہ تُرکیہ ، سعودی عرب ، بحرین ، رومانیہ اور آذر بائیجان ) کے دستوں نے بھی حصّہ لِیااور دشمن  ؔ کو مُنہ توڑ جواب دینے والے ٹینکوں، میزائلوںاور جنگی طیاروں کی گھن گرج اور دیگر جنگی سامان کی نمائش ۔ پاکستان کے تمام نیوز چینلز پر یہ مناظر پوری دُنیا کو دِکھائے گئے۔ قومی نغمے اور جنگی ترانے بھی  بجائے گئے۔ سُبحان اللہ!۔ 

معزز قارئین!۔ لاہور میں ’’ مفسرِ نظریہ ٔ پاکستان‘‘ جناب مجید نظامی کے بسائے ہُوئے ’’ ڈیرے ‘‘(ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان) میں اب تحریکِ پاکستان کے دو نامور کارکنان، سابق صدر ِ پاکستان جناب محمد رفیق تارڑ اورسابق چیف جسٹس فیڈرل شریعت کورٹ میاں محبوب احمد کی قیادت میں دو نظریاتی ادارے ’’نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ اور ’’تحریکِ پاکستان ورکرز ٹرسٹ‘‘ سرگرم عمل ہیں ۔مَیں نے برادرِ عزیز سیّد شاہد رشید کی فرمائش پر 20 فروری 2014ء کی چھٹی سہ روزہ ’’ نظریۂ پاکستان کانفرنس‘‘کے لئے ملّی ترانہ لکھا تھا ۔ جس پر مجھے جنابِ مجید نظامی نے ’’ شاعرِ نظریۂ پاکستان‘‘ کا خطاب دِیا تھا ۔

1947ء میں ہجرت کے بعد ہمارا خاندان تحریکِ پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ ) کارکن رانا فضل محمد چوہان کی قیادت میں پاک پنجاب کے شہر سرگودھا میں آباد ہُوا تھا ۔ مَیں نے 1956ء میں میٹرک پاس کِیا اور پہلی نعت لکھی۔ 1960ء میں صحافت کا مسلک اختیار کِیا۔ فروری 1964ء سے ستمبر 1965ء تک مَیں سرگودھا میںجنابِ مجید نظامی کے روزنامہ ’’ نوائے وقت‘‘ کا نامہ نگار رہا ۔ 2 جنوری 1965ء صدارتی انتخاب میں فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کے مقابلے میں ، قائداعظمؒ کی ہمشیرہ مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناحؒ امید وار تھیں۔ مادرِ ملّتؒ کی انتخابی مہم کے دوران دسمبر 1964ء میں مجھے اور میرے صحافی دوست تاج اُلدّین حقیقت امرتسری کو لاہور میں کونسل مسلم لیگ کے لیڈر میاں منظر بشیر کے گھر مادرِ ملّت ؒ سے ملاقات کا شرف حاصل ہُوا۔ اُسی وقت تحریکِ پاکستان کے دو کارکنان ، لاہور کے مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری اور پاکپتن شریف کے میاں محمد اکرم کی بھی مادرِ ملّت ؒ سے ملاقات ہُوئی۔ مرزا شجاع اُلدّین بیگ کا آدھے سے زیادہ خاندان امرتسر میں سِکھوں سے لڑتا ہُوا شہید ہوگیا تھا۔ مرزا شجاع اُلدّین بیگ موجودہ چیئرمین"PEMRA" پروفیسر محمد سلیم بیگ کے والد صاحب اور میاں محمد اکرم ، اردو اور پنجابی کے معروف شاعر اور سینئر صحافی سعید آسیؔ کے والد صاحب تھے ۔ 

معزز قارئین!۔ ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں مَیں نے پاکستان کے غازیوں اور شہیدوں کی شان میں کئی مضامین اور دو ملّی ترانے لکھے ۔ ایک ترانہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہُوا اور دوسرا ’’محکمہ تعلقاتِ عامہ مغربی پاکستان ‘‘ کی شائع کردہ ملّی نغموں کی ضخیم کتاب میں شائع ہُوا ۔ میرے دوست ( سابق وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات ) سیّد انور محمود جب 1999ء میں ڈائریکٹر جنرل ریڈیو پاکستان تھے تو، اُنہوں نے کئی ملّی نغموں کو دوبارہ ریکارڈ کروایا۔ میرا درج ذیل ملّی ترانہ پٹیالہ گھرانہ کے جناب حامد علی خان نے گایا… 

اے مادرِ وطن ، ترے پیاروں کی خیر ہو!

…O…

 زُہرہ نگاروں، سِینہ فگاروں کی خیر ہو!

اے مادرِ وطن ، ترے پیاروں کی خیر ہو!

…O…

دُنیا میں بے مثال ہیں ، اربابِ فن ترے!

ہر بار فتح یاب ہُوئے ، صف شکن ترے!

شاہ راہِ حق کے شاہ سواروں کی خیر ہو!

اے مادرِ وطن ، ترے پیاروں کی خیر ہو!

…O…

پھیلے ہُوئے ہیں ، ہر سُو، وفائوں کے سِلسلے!

مائوں کی پر خُلوص دُعائوں کے سِلسلے!

مضبوط ، پائیدار ، سہاروں کی خیر ہو!

اے مادرِ وطن ، ترے پیاروں کی خیر ہو!

مَیں 1969ء میں لاہور شفٹ ہُوا اور 11 جولائی 1973ء کو مَیں نے لاہور سے اپنا روزنامہ ’’سیاست‘‘ جاری کِیا۔ مختلف تقاریب میں میری جنابِ مجید نظامی سے ملاقات کا سلسلہ بڑھ گیا ۔ مئی 1991ء سے مارچ 2017ء تک ( مختلف ادوار میں )  ’’نوائے وقت‘‘ میں میرے کالم ’’سیاست نامہ‘‘ شائع ہوتا رہا ۔ مَیں نے مختلف اوقات میں جنابِ مجید نظامی کی شخصیت اور قومی خدمات پر اردو اور پنجابی میں 6 نظمیں لکھیں ۔ 

معزز قارئین!۔  16 مارچ سے 23 مارچ 2019ء تک ’’ ایوانِ کارکنان ِ تحریکِ پاکستان‘‘ اور ’’ ایوانِ قائداعظمؒ (جوہر ٹائون لاہور )میں کئی نظریاتی تقاریب کا انعقاد کِیا گیا تھا۔ سیّد شاہد رشید نے میری (شاعرِ نظریۂ پاکستان) کی صدارت میں محفلِ مشاعرہ کا اہتمام کِیا تھا۔ مجھ سے سینئر شاعر اور صحافی علاّمہ اصغر علی کوثر وڑائچ مہمان خصوصی تھے اور 91 سالہ سینئر وائس چیئرمین ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ ڈاکٹر شیخ رفیق احمد سٹیج پر میرے ساتھ تشریف فرما تھے ۔ تلاوتِ قرآن ِ پاک کا اعزاز۔ طالبعلم حسنات اختر نے حاصل کِیا۔ پاکستان کے معروف نعت خوان الحاج اختر حسین قریشی صاحب نے میری لکھی ہُوئی نعت ِ رسول مقبولؐ خُوش الحانی سے پڑھ کر ماحول میں نُور بکھیر دِیا۔۔ نعت کے دو شعر ہیں …

’’یوں ضَو فِشاں ہے ، ہر طرف ، کردار آپؐ کا!

ارض و سماء ، ہے حلقۂ انوار ، آپؐ کا!

…O…

مولا علی ؑ و زَہراس، حسنؑ اور حُسینؑ سے!

عرشِ برِیںسے کم نہیں ، گھر بار آپؐ کا!‘‘

ڈاکٹر شیخ رفیق احمد صاحب نے ۔’’ اے میرے قائد ؒ!‘‘۔ کے عنوان سے اپنی وہ نظم پڑھی، جو موصوف 1946ء میں اسلامیہ کالج لاہور کے جلسہ تقسیم اسناد میں پڑھ کر قائداعظمؒ کے دستِ مبارک سے انعام بھی وصول کر چکے تھے ۔ تین شعر ہیں …

زورِ حیدر ؑ ،فکرِ طارقؓ، عزمِ خالد ؓ بن ولید!

اے مرے قائد، تری آنکھوں میں ،آتے ہیں نظر!

…O…

منتشر مِلّت کو ،تو نے کردِیا ، شیراز ہ بند!

جو شکستہ پا تھے ، ہیں اب ،صاحبانِ بال و پر!

…O…

فرقہ بندی، خُود فروشی، بے اصولی، مکر و شر!

عظمتِ کردار کے آگے ، تری ہیں بے اثر!

یوں تو علاّمہ اصغر علی کوثر ؔنے اپنے کلام ِ بلاغت نظام کا دریا ہی بہا دِیا تھا لیکن، میرے ہاتھ صرف اُن کی ایک رُباعی آئی ہے ، اِسی پر اکتفا کرلیں…

اے رنگِ سمن! آنچ نہ آئے تجھ پر!

اے حُسنِ چمن ! آنچ نہ آئے تجھ پر!

…O…

مجھ پر جو گزرتی ہے ، وہ گزرے لیکن!

اے خاکِ وطن ! آنچ نہ آئے تجھ پر!

معزز قارئین!۔ مَیں نے مسلح افواجِ پاکستان کی پریڈ میں ’’باوردی دُخترانِ پاکستان‘‘ کو بھی، شوقِ شہادت میں برق رفتار دیکھا لیکن ’’ ایوانِ کارکنانِ تحریکِ پاکستان ‘‘ کے مشاعرہ میں بھی ۔’’دُخترانِ پاکستان ‘‘ (شاعرات) ڈاکٹر عارفہ صبح خان ، ڈاکٹر پروفیسر سعدیہ بشیراور بیگم صفیہ اسحاق ، کا کلام بھی حُب اُلوطنی سے معمور تھا / ہے اور فرزندانِ پاکستان (نظریاتی شُعراء حضرات ) جناب جاوید احمد عابد ، سیّد عمران نقوی اور رانا حامد ولید بھی ’’اردو ادب کے خالد بن ولید ‘‘ نظرآتے ہیں ۔ سیّد عمران نقوی نے جنابِ قائداعظم ؒپر میری نظم پڑھی ، جس کے صِرف تین اشعار پیش کرتا ہُوں …

نامِ محمد مصطفیٰؐ ،نامِ علی  ؑ، عالی مقام!

کِتنا بابرکت ہے ، حضرت قائداعظمؒ کا نام؟

…O…

ٹوٹ کر، گِرنے لگے، ہر سُو، اندھیروں کے صَنم!

رَزم گاہ میں ، آیا جب، وہ عاشقِ خَیرُ الانامؐ!

…O…

سامراجی مُغ بچے بھی ، اور گاندھی کے سپُوت!

ساتھ میں رُسوا ہوئے، فتویٰ فروشوں کے اِمام!

محفلِ مشاعرہ کے با اعتماد سٹیج سیکرٹری۔ سیّد عمران نقوی تھے اور حسب سابق ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے پانچ درویش ۔ ناہید عمران گل ، محمد سیف اللہ چودھری، علاّمہ نعیم احمد، حافظ عثمان احمد اور حمزہ چغتائی نے اپنی انتظامی صلاحیتوںکی پھر دھاک بٹھا لی۔ کیا ہی اچھا ہو کہ آئندہ بھی پاکستان کے سارے ’’قومی ایام‘‘ (National Days) کو بھی ’’ یوم دفاع ‘‘(Defence Day) کے طور پر منایا جائے؟۔