Sorry Chiefسپرد کالم کرتے ہی خیال آیا کہ ایک ذرا سی ملاقات کو فسانہ بنا دیا۔آبادی کے پھلتے پھولتے جن کو قابو میں لانے کے لئے اگر ہمارے محترم چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے وزیر اعظم عمران خان کو مدعو کرلیا تو ایسی کون سی قیامت ٹوٹ پڑی ۔اور یہ جو میں نے چھ دہائی قبل پاکستان کے پہلے چیف جسٹس سر عبد الرشید کے پاکستان کے پہلے شہید وزیر اعظم لیاقت علی خان کی دعوت قبول نہ کرنے کی ’’ جرأ ت رندانہ ‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے اس وقت ساری قوم کے واحد نجات دہندہ کی ملاقات پر جو ملامتی کالم باندھا۔ ۔ ۔ وہ قطعی طور پر صحافت کی معروضی حقیقت پسندی پر پورا نہیں اترتا ۔بلکہ بڑی حد تک آزاد عدلیہ سے تعصب کے ہی زمرے میں آئے گاکہ ہمارے محترم چیف جسٹس ثاقب نثار سے پہلے کے عدلیہ کے سربراہان نے کیسے کیسے ستم اٹھائے۔اور تو اور ،’’چوہدری کورٹس‘‘تو ابھی کل کی ہی با ت ہے کہ جس نے ایسی سر کش بینچوں اور باروں کو لاکھڑا کیا کہ جس نے باقی اداروں کی چیخیں نکال دیں۔لاہور سے میرے ایک کرم فرماسینئر لائر نے مجھے یاد دلایا کہ یہ بجا کہ چیف جسٹس سر عبد الرشید بڑے پائے کے قانون داں اور قابل فخر جج تھے ۔ مگر ان ہی چیف جسٹس سر عبد الرشید کے دور ہی سے تو وطن عزیز میں اعلیٰ عدالتوں سے مبریٰ ’’اسپیشل ٹربیونل‘‘ کی روایت پڑی اور وہ بھی احاطۂ عدالت میں نہیں بلکہ جیل کے چار پھاٹکوں کے اندر۔اُن کی مراد راولپنڈی سازش کیس سے تھی جس کے سارے تانے بانے تو پنجاب میں بُنے گئے مگر عدالت سندھ کی حیدر آباد جیل میں لگائی گئی۔تاکہ ملزمان کو زیادہ سے زیادہ اذیت پہنچائی جائے کہ ملزمان کے اہل خانہ کو پشاور،اسلام آباد اور لاہور سے ایک تکلیف دہ سفر سے گزرنا پڑتا تھا۔ اس زمانے میں سفر بسوں اور ٹرینوں سے ہوتے تھے ۔ رہائش کے لیے بھی کوئی فور،فائیو تو کیا،ون ٹو اسٹارہوٹل بھی نہ ہوتا تھا۔اور پھر یہ پاکستان کے پہلے چیف ہی تھے جن کے ہوتے ہوئے انگریز کے پروردہ بیوروکریٹ غلامحمد کے تابناک سیاسی سفر کا آغاز ہوا۔ جس نے جمہوریت کے ایک کے بعد دوسرے بلکہ سارے ہی ستونوں کو مسما ر کردیا۔میرے محترم سینئر لائر دوست نے یاد دلایا کہ چیف جسٹس سر عبد الرشید کے بعد آنے والے جسٹس محمد منیر نے تو اپنے چھ سالہ چیف جسٹسی کے دور میں اعلیٰ عدالتی ،آئینی قوانین کی دھجیاںبکھیر یں اُس پر تو کالم نہیں کتابیں چاہئیں۔اُن کا کہنا تھا کہ محترم جسٹس منیر کے حوالے سے محض ان کے اعمال میں پہلی دستورساز اسمبلی کا توڑا جانا لکھا جاتا ہے۔مگر اُس سے بڑی عدالتی بددیانتی اُن سے یہ سرزد ہوئی کہ مشرقی پاکستان کی اُس وقت کی اپوزیشن ’’جگتو فرنٹ‘‘ کی منتخب حکومت کو گورنر جنرل کے حکم سے توڑ کر ایک پٹھو حکومت کو مسلط کیا گیا تو اُس وقت کے چیف جسٹس نے اُس پر ایسی مہر ثبت کی کہ وہ بعد کے عدالتی فیصلوں کے لئے ایک مثالیہ یعنی ریفرنس بن گئی۔اور یہ 1954میں جگتو فرنٹ کی حکومت کا خاتمہ ہی تھا جو سولہ سال بعدــ ــ"سقو طِ ڈھاکہ"کی بنیاد بنا۔ اور پھر ہمارے یہی چیف جسٹس محمد منیر تھے جن کے ہوتے ہوئے فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے مارشل لاء کو نظریہ ٔ ضرورت کے تحت نہ صرف تسلیم کیا گیا بلکہ محترم جسٹس منیر احمد نے ریٹائرمنٹ کے بعد ایوب خان جیسے فوجی آمر کے دور میں وزارت قانون کا عہدہ بھی قبول کیا۔اکتوبر 1958 سے نومبر 1971تک بڑے پائے کے چیف جسٹس رہے ۔جسٹس فضل ِ حق، جسٹس حمود الرحمان ،جسٹس محمد یعقوب علی ۔ ۔ ۔ لیکن ان سارے محترم و معزز چیفوں کی بینچوں نے ایوبی آمریت کے سارے سیاہ قوانین پر اپنی مہریں ثبت کیں۔یہ تو اگر بھٹو صاحب جیسا پاپولر عوامی رہنما ایوبی ایوان چھوڑ کر اقتدار میں نہ آتا اور شاعرِ عوام حبیب جالبؔجیسے شاعر ’’ایسے دستور کو صبح بے نو ر کو‘‘جیسی نظم کا نعرہ ٔ مستانہ بلند نہ کرتے تو بغیر کسی نکسیر پھوٹے ایوب خان سے اقتدار ان کے پیشرو جنرل یحییٰ خان کومنتقل ہوجاتا؟یقینا جنرل یحییٰ خان کو اقتدار بھی منتقل ہوا ۔ایک حد تک انہوں نے انتخابات بھی منصفانہ کرائے ۔مگر یحییٰ خان اور اس کے ٹولے کے سر میں سودا سمایا ہوا تھا کہ و ہ اقتدار 70کی منتخب اسمبلی کے حوالے نہیں کریں گے۔اور اس کے لئے وہ اس حد تک آگے گئے کہ ملک ہی دو لخت کردیا۔ معذرت کے ساتھ اس وقت کی عدلیہ نے ان جنرلوں کی چھڑی کی نوک پر فیصلے دئیے۔نام لیتے ہوئے بھی اچھا نہیں لگ رہا۔۔ ۔ مگر اگر تلہ سازش کیس ٹربیونل کے چیف جسٹس کو عوامی غیض و غضب سے بچنے کے لئے ننگے پیر بھاگتے ہوئے ڈھاکہ کے گورنر ہاؤس میں پناہ لینی پڑی ۔اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ عاصمہ جہانگیر کیس میں غاصب جنرل یحییٰ خان کے خلاف فیصلہ بھی دیا جاتا ہے تو اس کی رخصتی کے بعد جب وہ اپنے گھر میں زندگی کے آخری دن کاٹ رہا تھا ۔بھٹو صاحب کو یہ کریڈٹ جائے گا کہ انہوں نے ملک کو سن 1973کا پہلا متفقہ آئین دیا۔مگر ہمارے قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو بھی انہی فوجیوں کے بوٹوں کے راستے پر چل پڑے۔۔۔جن کے نزدیک آئین چند صفحوں کا چیتھڑا ہوتا ہے۔اپنے اقتدار کے پہلے ہی چند مہینوں میں آئین میں پانچ ایسی ترمیمیں لا چکے تھے جس سے آزادی اظہار اور جمہوریت کی روح کا گلا گھونٹ دیا گیا۔اس دوران سب سے بڑی عدالت کی کرسی پر کوئی اور نہیں جسٹس حمود الرحمان اور جسٹس محمد یعقوب علی جیسے جید جج بیٹھے تھے۔سو اگر فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کے حکم پر جسٹس انوارالحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی توثیق کی تو اس پر حیرت کیا۔ یہاں تک پہنچا ہوں ،ایک بار پھر لگا کہ میرا غصہ محض عدلیہ پہ غالب آرہا ہے،جو ریاست کا محض ایک ستون ہے۔ ریاست کے دیگر دو ستون یعنی پارلیمنٹ یعنی سیاسی جماعتیں اور جرنیل بھی تو اس پورے دور میں عدلیہ کے شانہ بہ شانہ جمہوریت کی قبر کھودنے میں معاون و مدد گار رہے ۔یہ لیجئے، بات شروع ہوئی تھی ایک معصوم ملاقات کی ۔جو ہمارے چیف جسٹس اور ہمارے وزیر اعظم عمران خان کے درمیان ایک نیک مقصد کے لئے ہوئی جس پر میں کالم پہ کالم باندھ رہا ہوں کہ بات ابھی محض سن '77تک پہنچی ہے۔جنرل ضیاء الحق کے دس سالہ دور میںتو کوڑے جیسی ازمنہ وسطیٰ کے دور کی سزاؤں پر ہمارے جج حضرات انگوٹھے لگاتے تھے۔اس پورے دس سالہ دور میں ساری چھوٹی بڑی بینچوں میں سے کسی ایک میں بھی جرأت و ہمت نہیں ہوئی کہ وہ ضیاء الحق کے آمرانہ قوانین کے خلاف کوئی حرف حق لکھتا۔جنرل ضیاء الحق کے نامزد کردہ وزیر اعظم محمد خاں جونیجو کی حکومت کی برطرفی کے خلا ف جو فیصلہ آیا وہ بھی ان کے گزرنے کے بعد ۔میں شہید بی بی بینظیر اور شریف خاندان کے دور کی طرف آنا چاہتا ہوں جس میں ہمارے معزز و محترم ججز حضرات خوب کھل کھیلے ۔حتیٰ کہ یہ اصطلاح بھی خلق ِ خدا کی زبان پر آئی کہ لاڑکانہ کی وزیر اعظم کے لئے ایک فیصلہ اور لاہور کے وزیر اعظم کے لئے دوسرا۔۔۔ (جاری ہے)