آٹے‘تیل‘ گیس‘ پٹرول،دوائوں‘ دالوں‘سبزیوں‘چاول کپاس‘گنے وغیرہ کی مد میں اور نیز و مزید وغیرہ وغیرہ کی مد میں قوم کے ساتھ جو ہاتھ ہو گئے ہیں‘ قوم اس پر ہاتھ مل رہی ہے کہ اس کے ہاتھ پلے اب کچھ نہیں رہا ،سوا اس کے کہ خالی ہاتھ اٹھا اٹھا کر دعائیں دے‘ خالی ہاتھوں کو رہ رہ کر دیکھے اور رہ رہ کر ہاتھ ملے۔درآمدی چینی بازار میں 82روپے کلو اور یوٹیلٹی سٹور پر 68روپے کلو دستیاب ہے ۔خاص طور سے چینی کا ذکر کریں تو ایوب خان کا دور یاد آیا اور ساتھ ہی ایک باب گم گشتہ بھی۔ ایوب خان کے دور میں چینی 25 پیسے سستی ہوئی تھی تو ملک بھر میں غل مچ گیا تھا۔ یاد رہے کہ ایک روپے کا کرنسی نوٹ اور ایک روپے میں آٹھ اخبار کو جایا کرتے تھے۔ اب غل کا خاص نشانہ ایوب خان کا ایک وزیر تھا جسے چینی چور کا قومی خطاب ملا تھا۔ایک صدی پیچھے چلے جائیں یعنی 1915ء کی بات ہے کہ پنجاب بھر کی انگریزی چھائونیوں میں غداروں کو بڑی تعداد میں گولوں اور گولیوں سے اڑایا گیا۔ اس دور میں نواب اکبر ہوتی کا شمار چوٹی کے محبان وطن میں ہوا کرتا تھا۔ اکیلے اسی نے تین سو غدار توپ دم کئے۔ یعنی توپوں کے منہ پر باندھ کر گولے داغ دیئے۔ اب عظیم محب وطن نے ترکی کی مشہور کیلی پولی کی جنگ میں انگریزوں کے شانہ بشانہ لوگوں کو تیہ تیغ کیا۔ یہ عظیم خبر رساں بھی تھا۔ ایوب خان کا مشہور چینی چور اسی اکبر کا بیٹا تھا۔ خدا… کنندا یں عاشقان پاک طنیت را۔ ٭٭٭٭٭ چینی کے بحران نے جتنے جھنڈے گاڑے‘ اس سے کچھ زیادہ ہی گندم کے بحران نے گاڑے۔ گندم کے ماجرے میں لطیفہ یہ کہا گیا کہ پہلے لاکھوں ٹن گندم غائب کی گئی۔ (ثابت ہوا کہ صرف آدمی لوگ لوگ ہی نہیں‘ گندم کی بوریاں بھی لاپتہ ہو جایا کرتی ہیں)۔ یہ بوری بند گندم سرحد پار کر کے افغانستان کو نکل گئی‘ پھر روس سے درآمد کی گئی اور کس قیمت پر۔ پتہ چلا کہ سستی گندم کا ٹینڈر نظر انداز کر کے مہنگا ٹینڈر منظور کیا گیا۔ 14 اگست کے ٹینڈرکی بولی 233 ڈالر فی ٹن تھی‘ وہ منظور نہیں کیا گیا‘ ڈیڑھ ماہ بعد 2 اکتوبر کو279 ڈالر فی ٹن والا ٹینڈر شرف منظوری سے شرف ہوا۔یہ 36 ڈالر فی ٹن کا ثواب دارین کس نے کمایا‘ ایمانداری کی گنگا میںجم جم کون نہایا؟ اب پنجاب کے کاشتکار کہہ رہے ہیں کہ جس کا بھائو روس سے گندم کا اس سے پانچ سو روپے سستی ہم سے لے لو یعنی حکومت ساڑھے سولہ سو سے اوپر مان ہی نہیں رہی کہ اسے غریبوں کے آٹے کا بہت خیال ہے۔ ٭٭٭٭٭ کاشتکاروں نے احتجاجی مظاہرہ کیا تو پولیس نے ان پر کیمیکل ملا پانی توپوں سے پھینکا اور ایک افسر یہ کہتا ہوا سنا گیا کہ ان پر زہر ملا پانی پھینکو‘ انہیں چھٹی کا دودھ یاد دلادو۔ اس کے بعد شیلنگ بھی ہوئی اورلاٹھی چارج بھی۔ ایک کسان رہنما اشفاق لنگڑیال اس کے ہفتے میں جاں بحق ہوا۔ سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویزالٰہی نے اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کسانوں پر ایسا ظلم کبھی نہیں ہا‘ اشفاق لنگڑیال کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔نہیں جائے گا کیا مطلب‘ پرویزالٰہی صاحب وہ رائیگاں جا چکا۔ حکومت قرار دے چکی کہ مرحوم دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہوئے۔ اب آپ جانیں اور آپ کی اتحادی ریاست۔ ٭٭٭٭٭ خبر شائع ہوئی ہے کہ گردشی قرضوں میں اضافے کی وجہ سے خطرے کی گھنٹی بج گئی۔ تیل اور گیس کا گردشی قرضہ سولہ ارب روپے سے بھی بڑھ گیا جس سے ملک میں تیل اور گیس کا بڑا بحران پیدا ہونے کا خطرہ منڈلانے لگا۔قرضے میں اضافے اور خطرے کی گھنٹی کا تعلق تو انصاف سرکار کے حسن کارکردگی بلکہ کمال کارکردگی سے ہے اس لیے اس پر تبصرے کی ضرورت نہیں۔ بڑے بحران کا خطرہ کیوں پیدا ہوا۔ یہ سوال البتہ جواب طلب ہے۔ معاملہ حیران کن اس لیے ہے کہ ملک میں ہر بحران تب پیدا ہوا جب وزیراعظم نے اس سے متعلقہ معاملے کا نوٹس لیا۔ تیل گیس کی دستیابی کا وزیراعظم نے ابھی تک کوئی نوٹس لیا۔ پھر بحران کیا بلااجازت ہی منڈلانے لگا؟ بہت بے ادب ہے۔ وزیراعظم اس بے ادبی کا نوٹس لیں تاکہ ان کے نوٹس لینے والے فارمولے کی عزت اور رٹ قائم رہے۔ ٭٭٭٭٭ شیخ رشید نے جہانگیر ترین کی وطن واپسی کا خیر مقدم کیا ہے اور بعض تجزیہ نگاروں نے اس خیر مقدم کا مطلب لیاہے کہ ترین صاحب تحریک انصاف میں واپس آنے والے ہیں۔واپسی؟ وہ تحریک سے گئے ہی کب تھے۔ شاید قارئین میں سے کسی کو یاد ہو کہ کئی ماہ پہلے لکھا تھا کہ کچھ بھی نہیں ہوا‘ محض‘ شکر رنجی ہے جو بظاہر شکر کے مسئلے پر پیدا ہوئی اور جلد ہی رنجی دور ہو جائے گی‘ شکرباقی رہ جائے گی۔ رہی ہوا کہ نہیں؟ ٭٭٭٭٭ ایوان صدر کے مکین کا جی تکے کباب کھانے کو مچلا‘ چنانچہ سیدھے بابو محلے جا پہنچے۔ خوب جی بھر کے تکے کھاکے۔ اس دوران آس پڑوس کا سب علاقہ ’’علاقہ غیر‘‘ بنا رہا کسی کو آنے جانے کیا‘ دم مارنے کی اجازت نہیں تھی۔ ایک شخص نے تکے کھانے تھے‘ اس کے لیے کتنوں کا روزگار بند کردیا۔ کیا یہی تبدیلی ہے۔ میاں‘ تبدیلی کا پتہ بابو محلے والوں کو آج چلا‘ باقی ملک میں تو کب کی دھوم مچی ہے۔ ویسے یہ مکین زندہ دل آدمی ہیں۔ ایوان صدر میں فلم دیکھنے کا مزہ کیا ہے‘ جانتے ہیں‘ بھلے سے ڈیڑھ دو ملین خرچ ہو جائیں۔ کبھی مشاعرہ کراتے ہیں تو کبھی ’’بوفے‘‘ میں یادوں کا منہ مرجیلا کراتے ہیں۔ ایسا زندہ دل اور سخی صدر ہر ملک کو کہاں ملتا ہے۔ ٭٭٭٭٭ مریم نواز کے بارے میں پختونخوا کے ایک مشہور وزیر وہی بلیک لیبل شہد والے نے نازیبا اور ناشائستہ ریمارکس جلسہ عام میں کہے۔ دوسرے تو خیر‘ ایک اینکر پرسن نے اس پر افسوس کیا اور عمران خان سے مطالبہ کیا کہ اس کا نوٹس لیں۔