Common frontend top

محمد اظہارالحق


کامیابی کی کنجی جوش نہیں ہوش ہے


سالہا سال سے بیساکھیوں پر چلنے والے سے اچانک بیساکھی لے لی جائے توگر پڑے گا۔ اسے بتدریج‘ اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ہوگا۔ پاکستانی معیشت برسوں سے نہیں‘ عشروں سے بیساکھیوں پر کھڑی تھی۔ بیرونی قرضوں کی بیساکھیاں‘ اندرونی قرضے‘ اسحاق ڈار صاحب نے قومی بچت کے ادارے تک کو نچوڑ کر رکھ دیا۔ بیوائوں اور بوڑھوں کے لیے منافع کی شرح کم کرتے گئے۔ یہاں تک کہ پہلے سے تقریباً نصف رہ گئی۔ اقربا پروری کی بیساکھیاں‘ دوست نوازی کی بیساکھیاں‘ قومی اداروں کو طاعون زدہ کردیا گیا۔ سب کچھ ظفر حجازیوں‘ محمد سعیدوں‘ توقیر شاہوں‘ خواجہ ظہیروں‘ سعید
منگل 11 دسمبر 2018ء مزید پڑھیے

زلف عنبربار سے کژدم بکھیر اژدر نکال

اتوار 09 دسمبر 2018ء
محمد اظہارالحق
’’ختم نبوت‘ ناموس رسالت پر کوئی سودے بازی نہیں کی جا سکتی اور دینی مدارس امتیازی سلوک برداشت نہیں کریں گے۔‘‘ ایک مذہبی رہنما کے اس تازہ ترین بیان پر غور کیجئے۔ کیا دونوں فقروں میں کوئی باہمی تعلق ہے؟ پہلا سوال ذہن میں یہ اٹھتا ہے کہ ختم نبوت اور ناموس رسالت پر کس نے سودا بازی کی ہے؟ یا سودا بازی کی پیشکش کی ہے؟ نام بھی تو معلوم ہو؟ نعوذ بااللہ کیا ختم نبوت اور ناموس رسالت پر سودے بازی ہو سکتی ہے؟ کیا کسی میں اس کی جرأت ہے؟ میڈیا کے اس بدترین دور میں کوئی کچھ بھی کہہ سکتا
مزید پڑھیے


ایک خوش بیان کا تذکرہ

هفته 08 دسمبر 2018ء
محمد اظہارالحق
قاضی گل حسین صاحب کو دیکھا کبھی نہیں مگر بچپن اور لڑکپن کی وہ یادیں جنہوں نے ساری زندگی دامنِ دل نہ چھوڑا‘ قاضی صاحب کا نام ان یادوں کا ایک جزو رہا ہے۔ نہیں معلوم قاضی صاحب کی دوستی کا آغاز دادا جان کے ساتھ کب ہوا اور کیوں کر ہوا۔ اُس کچّے سن میں اتنا شعور ہی کہاں تھا کہ باتیں کرید کرید کر پوچھی جاتیں اور لکھ لی جاتیں۔ مگر دادا جان جب بھی اپنا لکھنے پڑھنے کا کام کر رہے ہوتے ہیں اکثر و بیشتر ان کے پاس ہوتا۔ فارسی ادبیات عالیہ کی تدریس کے علاوہ علاقے میں
مزید پڑھیے


ایجنسیاں کہاں ہیں؟ کیا واقعی بے خبر ہیں؟؟؟

جمعرات 06 دسمبر 2018ء
محمد اظہارالحق
گورنر ہائوس کی دیواریں گرا کر لوہے کی باڑ لگانے کا حکم سنا تو محمد تغلق یاد آ گیا۔ دارالحکومت دہلی سے ہزاروں میل دور، جنوبی ہند میں لے گیا۔ کچھ جاتے ہوئے لقمۂ اجل بنے۔ بعض کے صرف اعضا پہنچے۔ جب مقیم ہو چکے تو واپسی کا حکم صادر ہوا۔ ابراہام ایرالی نے Delhi Sultanate میں اس کی روح فرسا تفصیلات نقل کی ہیں۔ تو کیا وزیر اعظم کے ذہن میں یہ نکتہ تھا کہ یہ دیواریں انگریزی حاکمیت کی علامت ہیں؟ اور اس امر کی غمازی کرتی ہیں کہ حکمرانوں اور عوام کے درمیان رکاوٹیں ہیں؟ مگر وہ مقصد
مزید پڑھیے


اصلاحات کمیشن کا سربراہ کسی سیاستدان کو بنائیے ورنہ…

اتوار 02 دسمبر 2018ء
محمد اظہارالحق
نوجوان شوکت علی یوسف زئی نے اگر ایسا کہا ہے تو غلط کہا ہے! خلاق عالم کا ایک نظام ہے۔ اس نظام میں مداخلت کی کوشش ہمیشہ ناکام ثابت ہوتی ہے۔ بڑ ہانکنا متین لوگوں کو زیب نہیں دیتا۔ اگر وہ متین ہوں تو۔ جنرل ضیاء الحق کا اقتدار پاکستان کے اطراف و اکناف پر یوں چھایا ہوا تھا جیسے سیاہ گھٹائیں برسات میں افق سے افق تک چھا جاتی ہیں۔ محسن کاکوروی نے کیا زندہ جاوید اشعار کہے ؎ سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل برق کے کا ندھے پہ لاتی ہے صبا گنگا جل آتش گل کا دھواں
مزید پڑھیے



مجھ پہ ہنستے تو ہیں پر دیکھنا روئیں گے رقیب

هفته 01 دسمبر 2018ء
محمد اظہارالحق
اکبر الٰہ آبادی نے شبلی نعمانی کو دعوت نامہ بھیجا تو لکھا: آتا نہیں مجھ کو قبلہ قبلی بس صاف کہوں کہ بھائی شبلی تکلیف اٹھائو آج کی رات کھانا یہیں پکائو آج کی رات حاضر ہے جو کچھ دال دلیہ سمجھو اس کو پلائو قلیہ اکبر کو قبلہ قبلی نہیں آتا تھا، ہمیں یہ سو دن کا حساب سمجھ میں نہیں آتا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے سو دن کی جو اڑائی تھی، اسی وقت باخبر لوگوں کو معلوم تھا کہ یہ سیاسی بات ہے۔ تیس چالیس برس کی لوٹ مار کے بعد ایک ایسی حکومت آئی ہے جس نے جھاڑو پھیرنے کے بجائے دوسرے تمام
مزید پڑھیے


قیصر کا حصہ قیصر کو اور پوپ کا پوپ کو

جمعرات 29 نومبر 2018ء
محمد اظہارالحق
جناب احسن اقبال نے کرتارپور کوریڈور اقدام کو سراہا۔ یہ حمایت سیاسی پختگی کی علامت ہے۔ لگتا ہے اہل سیاست زیادہ بالغ نظر ہورہے ہیں۔ ذہنی سطح بلند ہورہی ہے۔ جن ملکوں میں جمہوری سفر کئی سو سال پہلے شروع ہوا، وہ اب اس سطح پر پہنچ چکے ہیں کہ ’’اپنے‘‘ اور ’’پرائے‘‘ کے گرداب میں پڑے بغیر سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید کہہ سکتے ہیں۔پارٹیوں کے اندر ’’اصلی‘‘ انتخابات ہوتے ہیں۔ ارکان کھل کر پارٹی کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں اور ضرورت پڑے تو پارٹی کے سربراہ کو گلی کاراستہ بھی دکھا دیتے ہیں۔ اسی طرح مخالف پارٹی
مزید پڑھیے


آٹھ لاکھ روپے کی چربی

منگل 27 نومبر 2018ء
محمد اظہارالحق
دل دہل گیا۔ جانے کیا ایمرجنسی تھی! ابھی گائوں جانے کا کوئی پروگرام نہیں تھا۔ میں بھی انہی بدقسمت لوگوں میں سے ہوں جو گائوں واپس جا کر بسنے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں مگر شہر ایک کمبل ہے جو چھوڑتا نہیں۔ ویسے فرق ہی کیا ہے‘ ایک طرف لاہور‘ کراچی‘ اسلام آباد اور دوسری طرف نیویارک‘ لندن‘ سڈنی جا کر بس جانے والوں میں۔ لاہور‘ کراچی‘ اسلام آباد والوں کی ساری زندگی اس منصوبہ بندی میں گزر جاتی ہے کہ بچے نوکریوں پر لگ جائیں تو واپس گائوں چلے جائیں گے۔ کھیتی باڑی کریں گے‘ حویلی کو پکا کریں گے‘
مزید پڑھیے


عمر کٹ جائے آنے جانے میں

هفته 24 نومبر 2018ء
محمد اظہارالحق
یہ الوداعی نظر تھی۔ مسجد نبویؐ کے بیرونی گیٹ نمبر5سے باہر نکل رہا تھا۔ پلٹ کر دیکھا، اس سفرِ زیارت کے دوران گنبدِ خضریٰ کا یہ آخری دیدار تھا۔ زمین نے پائوں جکڑ لیے۔ کئی بار ہوائی اڈوں اور ریلوے اسٹیشنوں پر اپنے پیاروں کو الوداع کیا۔ مگر یہ کیفیت ہی اور تھی۔ چلنا شروع کیا۔ دو قدم چلا، پھر پلٹ کر دیکھا۔ وہیں کھڑا ہو گیا۔ ایک ایک کرن نور کی، جو گنبد سے نکل رہی تھی، آنکھوں میں بھر لینا چاہتا تھا۔ ایک ہُوک دل میں اٹھی… کاش میں یہیں رہ جائوں! اس دربار کا جاروب کش ہو
مزید پڑھیے


ملے گی اُس کے چہرے کی سحر آہستہ آہستہ

منگل 20 نومبر 2018ء
محمد اظہارالحق
نہیں! بیورو کریسی ہشت پا نہیں! یہ آکٹوپس سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ آکٹو پس کو مار سکتے ہیں۔ یہاں معاملہ کچھ اور ہے۔ بیورو کریسی پیرِتسمہ پا ہے ؎ ہشیار! کہ پیرِ تسمہ پا ہے یہ ضُعف سے کانپتا زمانہ بیورو کریسی تحریکِ انصاف کی گردن پر سوار ہے۔ ٹانگیں گلے میں حمائل کیے۔ رہائی ہو تو کیسے۔ رہائی ہو بھی نہیں سکتی۔ تحریکِ انصاف کے فرشتوں کو بھی معلوم نہیں کہ اصل مسئلہ کیا ہے؟ فواد چوہدری، افتخار درانی اور دوسرے عمائدین کے نزدیک یہ مسئلہ ترجیحی ہی نہیں! رہے شفقت محمود تو خود بیورو کریسی کے اُس برہمن گروپ
مزید پڑھیے








اہم خبریں