Common frontend top

سجاد میر


ایک اور پاکستانی


ایک اور پاکستانی چل بسا۔ وہ پیدائش سے پہلے بھی پاکستانی تھا۔ اس کا گھر ساہیوال میں کربلا روڈ پر تھا جو میرے گھر سے گویا بالکل متصل تھی۔ وہاں ایک بورڈ لگا ہوا تھا۔ عزیز پاکستانی، ان عزیز پاکستانی کی خوبی یہ تھی کہ انہوں نے پاکستان بننے سے بہت پہلے اپنے ساتھ پاکستانی لکھنا شروع کر دیا تھا۔ طارق عزیز اسی پاکستانی کا بیٹا تھا۔ جی ہاں، یہی طارق عزیز جو پاکستان ٹی وی کا پہلا اینکر تھا اور جس کے پروگرام نیلام گھر نے برسوں کامیابی کے جھنڈے گاڑے رکھے۔ وہ مجھ سے بہت سینئر تھا۔ کالج
جمعرات 18 جون 2020ء مزید پڑھیے

ہمارے دوست محمد فیضی

بدھ 17 جون 2020ء
سجاد میر
جب میں لاہور سے کراچی منتقل ہوا۔ یہ جولائی 1973ء کی بات ہے تو مرے کیسے میں صرف تین سکّے تھے جن کے بارے میں مجھے معلوم تھا کہ یہ کراچی کی مارکیٹ میں چل سکتے ہیں۔ تین افراد کے حوالے مرے ساتھ تھے کہ کراچی جا کر ان سے رابطہ کروں گا اور آئندہ کی حکمت عملی طے کروں گا۔ ایک منور حسن‘ دوسرے ڈاکٹر عارف علوی اور تیسرے دوست محمد فیضی۔ منور صاحب کو فون کیا تو کہنے لگے ابھی رکشا پکڑوں اور اسے بتائو فیڈرل بی ایریا جانا ہے۔ پل پار کر کے فلاں سمت مڑو‘ پھر
مزید پڑھیے


خدا کے سہارے

هفته 13 جون 2020ء
سجاد میر
کوئی کل بھی سیدھی نہیں ہے۔ نحوست کے سائے ہیں کہ پھیلتے ہی جا رہے ہیں۔ ایک طرف تو جو آفتیں نازل ہوئی ہیں ان کا غم ہے ‘ دوسری طرف روز کوئی نہ کوئی درفنطنی دل چھلنی کر جاتی ہے۔ دل کرتا ہے کہ چیخ چیخ کر کہا جائے کہ بھلے ہمارے دکھوں کا مداوا نہ کر سکو‘کم از کم اپنی زبان پر ہی قابو رکھو۔ ہم اخلاق کی آخری حدیں بھی پھلانگتے جا رہے ہیں۔اللہ رحم فرمائے اور بے بس عوام کو اس صبر کا اجر دے۔ اگر یہ کہوں کہ ملک کے سب ادارے ناکام ہو چکے ہیں
مزید پڑھیے


کیا مدبرانہ شان ہے ہماری

جمعرات 11 جون 2020ء
سجاد میر
اس وقت تین بلائیں ہیں جو پاکستان کو گھیرے میں لئے ہوئے ہیں۔1۔ایک تو کورونا جس کے بارے میں عالمی ادارے کہتے ہیں کہ ہم اس کا بندوبست کرنے میں پھسڈی نکلے ہیں۔ ایشیا پیسفک میں وطن عزیز خطرناک ممالک میں چوتھے نمبر پر ہے اور ہم نے جس طرح اس بیماری کا مقابلہ کیا اس میں جو چاہیں ہم کہیں وگرنہ اس معاملے میں ہمارا نمبر بہت پیچھے ہے۔ سو سے بھی پیچھے۔ غالباً 137واں ۔بنگلہ دیش ‘ بھارت سب کے حالات ہم سے بہتر ہیں۔ اب صورت حال یہ آن پہنچی ہے کہ عالمی ادارہ صحت نے ہمارے
مزید پڑھیے


بس کرو‘ اب بس

پیر 08 جون 2020ء
سجاد میر
ایک اشتہار کبھی کبھی اب بھی چلتا ہے۔ سیاست دانوں کے دوچار لڑائی جھگڑے کے بیانات دکھا کر ایک بچہ آتا ہے جو ہاتھ سامنے کر کے کہتا ہے۔ بس کرو اب بس۔ ان دنوں یہ کیفیت ہے کہ سچ مچ اپنی ساری متانت طاق میں رکھ کر اسی طرح یہ کہنے کو دل کرتا ہے کہ بس کرو اب بس ۔فرض کرو آپ کسی پارٹی کے ساتھ نہیں ہیں ۔مگر غور کیجیے آپ ان میں کسی کا بیان سن سکتے ہیں۔وفاقی حکومت کے ترجمانوں پر تو رونا آتا تھا۔ اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایک جاتا ہے
مزید پڑھیے



کراچی اور ڈاکٹر سلیم حیدر

جمعرات 04 جون 2020ء
سجاد میر
چلئے آج میں آپ کو ایک نئی شخصیت سے متعارف کراتا ہوں۔اگر آپ اسے جانتے بھی ہوں گے تو اب تک بھول چکے ہوں گے۔ ایک زمانہ تھا کہ اس کا نام الطاف حسین کے ساتھ ساتھ لیا جاتا تھا۔ طے یہ ہو نا تھا کہ سندھ میں غیر سندھیوں خصوصاً مہاجروں کی قیادت کون سنبھالتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ناگزیر ہو گیا تھا۔ سندھی قوم پرستوں نے اس طرح فضا گرم کر رکھی تھی کہ لگتا تھا وہ سب سے پہلے اپنی اسمبلی میں پاکستان کی قرار داد پاس کرنے والے صوبے کو کہیں دور نہ لے
مزید پڑھیے


یوم تکبیر

هفته 30 مئی 2020ء
سجاد میر
شہزاد احمد جتنے بڑے شاعر تھے اتنے ہی شاندار فقرے باز بھی تھے۔تخلیق کار میں یہ صلاحیتیں مل جائیں تو کئی بار کمال اظہار پاتی ہیں چنانچہ جب 28مئی کو پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کیا تو شہزاد نے اس پر بے ساختہ تبصرہ کیا۔ اب ادب دو طرح کا ہو گا ایک وہ جو 28مئی سے پہلے کا ہے اور دوسرا جو اس کے بعد لکھا جائے گا۔ اس فقرے کو آپ اگر جغرافیائی تقسیم سمجھنے کا گناہ نہ کریں بلکہ ایک تخلیقی تقسیم کے طور پر لیں تو اس کا مفہوم درست طور پر سمجھ آ سکتا ہے۔انسانوں کی
مزید پڑھیے


پی آئی اے اور پاکستان

جمعرات 28 مئی 2020ء
سجاد میر
ایک تو کورونا کا عذاب تھا اور دوسرے عید سے ایک آدھ دن پہلے ایک ایسا قومی سانحہ ہو گیا جس نے پوری قوم کو مزید مغموم کر دیا۔ پی آئی اے کے طیارے کو اس نوعیت کا حادثہ پیش آیا کہ ا س نے شہری ہوا بازی کی دنیا میں ایک ہلچل مچا دی۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ہم ایسے معاملات کو سنجیدگی سے لینے کے بجائے اسے بھی سیاست کی نذرکر دیتے ہیں۔ ایک تو دکھ اس بات کا تھا کہ اس حادثے پر سربراہ حکومت کی حیثیت سے جو ردعمل عمران خاں کی طرف سے
مزید پڑھیے


مرے مے خانے سلامت رہیں

جمعرات 21 مئی 2020ء
سجاد میر
میں فکر میں پڑ گیا ہوں ہمارے شراب خانے کب کھلیں گے۔ ان پر سے لاک ڈائون کب اٹھے گا۔ ہمارے اقبال نے دہائی دی تھی کہ: تین سو سال سے ہیں ہند کے مے خانے بند اب مناسب ہے ترا فیض ہو عام ساقی اصل میں ذہن کہیں سے کہیں چلا جاتاہے۔ مضمون میں برطانیہ کے شراب خانوں پر پڑھ رہا تھا جس میں رونا رویا گیا ہے کہ کیا برطانیہ کے شراب خانے کورونا کا وار سہہ سکیں گے۔ برطانیہ والے کہتے ہیں ہمارے شراب خانے پہلے ہی مشکل صورت حال سے دوچار تھے۔ کم از کم گزشتہ تین سو سال
مزید پڑھیے


ڈر لگتا ہے

پیر 18 مئی 2020ء
سجاد میر
ویسے تو ہم نے ہر دور کو کم از کم پاکستان کے حوالے سے نازک دور کہا ہے، مگر موجودہ ایام جو ہم پر بیت رہے ہیں، بلاشبہ نازک ترین ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ صدی دو عظیم جنگوں کی صدی تھی، سرد جنگ کے عروج کا زمانہ تھا، اقتصادی کسادبازاری کا دور تھا، اور اب معلوم ہوا ہے کہ اس میں ایک زمانہ وہ بھی آیا تھا کہ لوگ جنگِ عظیم کو بھی بھول گئے تھے۔ یہ ایک عالمگیر وبا کے دن تھے جس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس سے نکلنے کے
مزید پڑھیے








اہم خبریں