کوئی کل بھی سیدھی نہیں ہے۔ نحوست کے سائے ہیں کہ پھیلتے ہی جا رہے ہیں۔ ایک طرف تو جو آفتیں نازل ہوئی ہیں ان کا غم ہے ‘ دوسری طرف روز کوئی نہ کوئی درفنطنی دل چھلنی کر جاتی ہے۔ دل کرتا ہے کہ چیخ چیخ کر کہا جائے کہ بھلے ہمارے دکھوں کا مداوا نہ کر سکو‘کم از کم اپنی زبان پر ہی قابو رکھو۔ ہم اخلاق کی آخری حدیں بھی پھلانگتے جا رہے ہیں۔اللہ رحم فرمائے اور بے بس عوام کو اس صبر کا اجر دے۔ اگر یہ کہوں کہ ملک کے سب ادارے ناکام ہو چکے ہیں تو غلط نہ ہو گا‘ لیکن پاکستان ایک ناکام ریاست نہیں ہے یہ بات ایک دوسرے سے متصادم لگتی ہے مگر ہے نہیں‘ خیر اس تمہید کہ یہیں ختم کرتے ہیں وگرنہ دل کے پھپھولے پھوڑتے پھوڑتے عمر گزر جائے گی۔ کورونا کی آڑ میں ہر چیز جائز ہو جائے گی۔ مجھے نہیں یاد پڑتا کہ ہمارے ملک میں کبھی آغاز ہی سے بتا دیا گیا ہو کہ اس سال ہم مثال کے طور پر صنعتی شعبے میں ترقی معکوس کریں گے یعنی جو کچھ بنایا ہے اسے بھی کھو دیں گے۔ گزشتہ برسوں میں تو اس کی گنجائش بھی تھی کہ ملک میں توانائی کا بحران تھا۔ بجلی تھی نہ گیس۔ کارخانے بند پڑے تھے۔ مارکیٹس اجڑ گئی تھیں۔ یہ جو ہم کہتے ہیں ہماری ایکسپورٹ کیوں نہیں بڑھیں تو ہم کچھ پیدا کریں گے تو اس کو برآمد کریں گے۔ ان برسوں میں تو ایسا نہیں تھا۔ آج انرجی کی ضروریات اس حد تک پوری ہو چکی ہیں کہ ہم نے اس شعبہ میں مزید سرمایہ کاری روک دی ہے۔ اب تو کارخانے چلنے چاہیے تھے۔ اب تو مینو فیکچرنگ میں اضافہ ہونا چاہیے تھا مگر بتایا گیا ہے نہیں ہو گا۔ بلکہ پہیہ الٹا چلے گا۔ ہم اس شعبے میں منفی ترقی کریں گے ۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ ہم نے بجٹ میں کبھی ایسی منصوبہ بندی کی ہوہم دو سال پہلے 5.8فیصد ترقی کر رہے تھے اگلے سال کے لئے 6.2فیصد کی منصوبہ بندی کی تھی۔ نئی حکومت نے آ کر کہا کہ تمہاری ایسی کی تیسی اب تبدیلی آ گئی ہے ہم 3.3فیصد ترقی کے خواہاں ہیں۔ سال کے آخر پر معلوم ہوا کہ ہم نے صرف 1.9فیصد ترقی کی ہے۔ اس سال وہ بھی منفی ہو گئی ہے سال کے شروع میں ہم نے 4فیصد کا اعلان کیا تھا باخبر حلقوں نے اطلاع دی کہ ہمیں بتا دیا گیا ہے کہ خبردار 2.4فیصد سے آگے نہ بڑھنا۔ اب اطلاع ملی ہے کہ یہ منفی .4فیصد بلکہ .38ہو گی۔ جبکہ پرانے اندازوں کے مطابق اس سال 7فیصد ہونا تھی۔ اگر کورونا کا اثر بھی ہوتا تو کم از کم چار ساڑھے چار فیصد تو رہ جاتی مگر ہم نے تو شروع ہی سے اپنے حوصلے پست رکھے۔ حفیظ شیخ ایک پیشہ ور معیشت دان ہیں‘ مگر ایسے منصب پر ہیں جو سراسر سیاسی ہے۔ اعداد و شمار میں ایسے چکر دیتے ہیں کہ گستاخی نہ ہو تو عرض کروں سراسر گمراہ کرتے ہیں جب پوچھا گیا 25ہزار بلین قرضہ ادا کیا تو یہ بتائیے لیاکتنا۔تکنیکی چکر بازیوں میں گول کر گئے۔ اگر ڈالر کی قیمت بڑھ جانے سے قرضہ بڑھا ہے تو یہ بھی آپ کا کیا دھرا ہے۔ اگر شرح سود میں اضافے سے اندرونی قرضے کی ادائیگیوں کا بوجھ پڑا ہے تو اس کا ذمہ دار کوئی اور نہیں۔ روپے کی قیمت کم کرنے سے آپ نے بتایا تھا کہ درآمدات بڑھیں گی ‘کتنی بڑھ گئیں۔ کچھ بتائیں گے۔ درآمدات کم کرنے سے آپ نے کیا حاصل کیا۔ کوئی بریک اپ دے کہ کتنا پیسہ مینیزچاکلیٹ‘اور منرل واٹر پر خرچ ہوتا تھا اور کتنا آئل ‘خوردنی‘ مشنری ‘ خام مال پر صرف ہوتا تھا۔ہمیں کہا کہ ترقی قرضے لے کر ہو رہی تھی یا بچت کر کے ترقی تو ہو رہی تھی۔ ملک میں خوشحالی تو آ رہی تھی۔ کون سا ملک قرضوں پر نہیں چلتا۔امریکہ کا انحصار تیسری دنیا کا وہ کون سا ملک ہے جہاں کی ترقی بیرونی سرمائے کی مرہون منت نہیں اب جو بجٹ آ رہا ہے اس کے جو اعداد و شمار سامنے آئے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ ہم نے پن بجلی ‘ڈیموں ‘سڑکوں ‘پلوں کے لئے رقم کم کر دی ہے امریکہ میں گزشتہ دہائی میں سب سے بڑا رونا یہ تھا کہ ان کا انفراسٹرکچر پرانا ہو رہا ہے اور تباہ ہو رہا ہے وہاں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر نہ ہوئی تو پیچھے رہ جائیں گے ان کا دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ امریکہ کا نظام تعلیم ایسے طالب علم پیدا نہیں کر رہا جو اختراع و ایجاد کی صلاحیت ان ملکوں سے زیادہ رکھتے ہوں جن کا امریکہ سے مقابلہ ہے۔ مطلب یہ کہ انفراسٹرکچر ان کے ہاں اتنا اہم ہے کہ وہ اسے جدت و اختراع کی صلاحیت کے برابر سمجھتے ہیں۔ جانے ہمیں کیا ہو گیا ہے ماہرین کی ایک فوج ظفر موجود موجود ہے مگر رزلٹ زیرو ہے۔ مجھے کبھی کوئی خوش فہمی نہیں تھی مگر کل سے جب اکنامک سروے آیا ہے۔ دل داغ داغ ہو گیا ہے۔ کورونا کے نام پر پوری دنیا پر آفت آئی ہوئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عالمی سطح پر یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ 83کروڑ افراد لقمے لقمے کو ترسیں گے اور دو ارب لوگ غربت کی سب حدیں پار کر جائیں گے۔ یہ سب درست مگر ہمیں تو امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی۔ ایسی قیادت دکھائی نہیں دیتی۔ عرض کیا نا کہ سب ادارے ناکام ہو چکے ہیں یہ درست ہے کہ بعض ادارے اپنی استعداد سے بڑھ کر کام کر رہے ہیں مگر منزل دور اور سفر آہستہ کی صورت حال ہے۔ کورونا ہے‘ ٹڈی دل ہے‘ نالائقی ہے ہڑ بولا پن ہے اور بیچارے عوام ہیں۔ ایسا انتقام کا شوق ہے کہ شہباز شریف کورونا کا شکار ہوئے اور ہم ان کا تمسخر اڑا رہے ہیں۔ حد ہوتی ہے اس پر داد دینا پڑتی ہے آرمی چیف کی کہ انہوں نے فون کیا اور مزاج پرسی کی۔ ہم فرما رہے ہیں اپوزیشن تو چاہتی ہے کہ لوگ مریں اور ہم پروپیگنڈہ کریں کہ دیکھو حکومت نالائق ہے۔ اس مائنڈ سیٹ کے ساتھ ملک نہیں چلا کرتے۔ ہم میڈیا والے بھی ذمہ دار ہیں کہ سب رطب یا بس نشر کئے جا رہے ہیں بعض ایسے لوگ ہیں کہ انہیں ٹی وی پر لانا قومی جرم ہونا چاہیے صرف کورونا سے بچائو کے ایس او پیز ہی نہیں ہیں۔ ملک چلانے کے بھی ایس او پیز ہیں۔ واللہ ان پر عمل نہیں ہو رہا۔ وہ جو بسوں میں لکھا ہوا ایک بے وزن شعر ہوا کرتا تھا۔ اسے وزن میں لکھتا ہوں: کمال ڈرائیور نہ انجن کی خوبی خدا کے سہارے چلی جا رہی ہے یہ ملک بھی خدا کے سہارے چلایا جا رہا ہے۔ اسی لئے عرض کیا تھا یہ ناکام نہیں ہوا نہ ہو گا۔ یہ تو صرف ہمیں اپنے گناہوں کی سزا مل رہی ہے۔بجٹ آئے گا چند دن ہم اس پر بحث کریں گے پھر کسی دوسری مصیبت کے اسیر ہو کر اسے بھول جائیں گے۔ بحث بھی کیا کریں گے۔ انہوں نے صاف کہہ دیا ہے کہ بجٹ آئی ایم ایف بنا رہا ہے۔ اللہ اللہ خیر صلا‘ ہمیں نوید دی گئی ہے کہ آئی ایم ایف نے ہمیں کورونا سے نپٹنے کے لئے قرضہ دیا ہے۔ ہماری ادائیگیاں مؤخر ہو رہی ہے۔ پیرس کلب نے فیصلہ کر لیا ہے۔ سعودی حکومت اور چین بھی کرنے والا ہے۔ ہم پر ادائیگیوں کا دبائو کم ہو گیا ہے۔ پتا ہے۔ اس کا مطلب کیا ہے یہ جو قرضہ مؤخر ہو رہا ہے یہ معاف نہیں ہو رہا بلکہ ہمارے قرضے میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ آئی ایم ایف کی جے۔ حفیظ شیخ نے پھر وہی رٹی رٹائی بات دہرائی ہے کہ آئی ایم ایف کوئی ہمارے پیچھے منتیں کرتا تو نہیں پھر رہا تھا کہ ہم سے قرضہ لو۔یہ تو ہماری ضرورت ہے جو ہم اس کے پاس گئے۔ اچھا بھئی ٹھیک ہے‘ ایسے میں سی پیک کا قرضہ کیا برا تھا۔ اس سے یقینا کم شرائط ہوتیں صاف کہو‘ ہم امریکہ کے سامراجی شکنجے سے نکلنے کی سکت نہیں رکھتے۔ ابھی چین ہمارے لئے اس کا متبادل نہیں ہو سکتا۔ اس لئے بھی کہ ہمارے تو ذاتی مفادات بھی مغرب میں ہیں‘ چین میں نہیں۔ہمارے تو بچے بھی وہاں پڑھتے ہیں اور ادھر ہمیں اور بہت سا فائدہ ملتا ہے۔