یقینا اسے ایک خوش آئند قدم ہی قرار دیا جائے گا کہ جی ایچ کیوکے بڑوں نے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل اسد درانی کو نہ صرف طلب کیا بلکہ ایک حاضر لیفٹیننٹ کرنل کو یہ ذمہ داری بھی سونپی کہ وہ فوراً سے پیشتر اپنی رپورٹ پیش کریں۔ دفاعی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ زیادہ سے زیادہ ہفتہ دو لگنے چاہئیں یوں بھی یہ کوئی گتھلیوں میں گندھی سازش اور ہمالیہ سے اونچا ٹاسک نہیں کہ مہینوں بلکہ برسوں لگ جائیں۔ یہ کوئی سقوطِ ڈھاکہ… اوجھڑی کیمپ… ایئر مارشل (ر)اصغر خان کیس اور اسامہ بن لادن جیسا اسکینڈل بھی نہیں… ماضی میں پاکستان کی طاقتور ترین ایجنسیوں یعنی ملٹری انٹیلیجنس المعروف ایم آئی اور انٹر سروسز انٹیلی جنس یعنی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ محترم ریٹائرڈ جنرل (ر) اسد درانی نے اپنے ہم منصب ’’را‘‘ کے سربراہ امرجیت سنگھ دْلَت کے ساتھ بینکاک اور استنبول کے پرفضا مقامات پر ملاقاتیں کیں… آدتیا سنہا نامی ایک ممتاز لکھاری نے دونوں انٹیلی جنس سربراہوں کو گھنٹوں ریکارڈ کیا… اور کوئی سوا لاکھ الفاظ کے مسودے کو Spy Chroniclesکا نام دے کر کتابی صورت میں سمیٹ کر بڑی دھوم دھام سے نئی دہلی میں اس کی رونمائی کردی۔ یقینا کتابوں کا مسودہ ایک نہیں کئی بار نظر ثانی کیلئے محترم جنرل (ر) اسد درانی کی نظر سے گزارا ہوگا۔اس محنتِ شاقہ پر جو پرکشش معاوضہ ہمارے ریٹائرڈ جنرل موصوف کو ملے گا یقینا اس سے ہمیں غرض وغایت نہیں رکھنی چاہئے۔ مگر کارگل۔کشمیر۔ممبئی جیسے حساس موضوع پر جس میں ہمارے ہزاروں فوجی جوانوں اور معصوم شہریوں خاص طور پر مظلوم کشمیریوں کی جو ہلاکتیں ہوئیں… اْس پر جو ریٹائرڈ جنرل موصوف نے اپنی رائے اور موقف کا اظہاربغیر لگی لپٹی تحریری صورت میں کردیا ہے۔ اس پر حاضر لیفٹیننٹ کرنل کو اپنی رپورٹ تیار کرنے اور اس میں ریٹائرڈ جنرل اسد درانی کو قرار واقعی سزا تجویز کرنے میں کوئی مشکل تو نہیں پیش آنی چاہئے۔ کسی طول طویل اگر مگر سے بظاہر تو نہیں گزرنا چاہئے کہ بہر حال حالیہ برسوں میں ہماری ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے ماضی سے نہ صرف بہت کچھ سکھا ہے بلکہ عملی طور پر بھی یہ ثابت کردیا ہے کہ اب افواج پاکستان کے بڑے مزید کسی ایوبی، ضیاالحقی، مشرفی مہم جوئی کی بحیثیت ایک ادارہ اجازت نہیں دیں گے۔ جنرل پرویز کیانی اور جنرل راحیل شریف کو بھی بڑی دہائیاں دی گئیں… اپریل 2014 کے دھرنے میں تو لگتا تھاکہ امپائر کی انگلی آج اٹھی کہ کل۔ یوں موجودہ آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ اور اس سے بڑھ کر ماضی کے مقابلے میں چیختی چنگھاڑتی آئی ایس آئی کے سربراہ نے جن کا نام ذہن پر زور ڈالنے کے بعد یاد نہیں آیا حالیہ دنوں میں کئی نازک مرحلوں پربڑے تحمل اور بردباری سے کام لیا۔ اب آجاتے ہیں ہم اس کتاب پر۔ سیاست کے بارے میں کہا جاتا ہے : یہاں پگڑی اچھلتی ہے اسے میخانہ کہتے ہیں فی الوقت تو وارات کی نوعیت ہی ایسی ہے۔ ساری دنیا کی ایجنسیوں اور فوجی جنرلوں نے ماضی میں درجنوں بلکہ سینکڑوں کتابیں لکھی ہیں مگر عموماً ہماری دلچسپی کا باعث امریکہ ، بھارت اور پاکستان کے فوجی خاص طور پر خفیہ ایجنسی کے سربراہوں اور اہلکاروں کی تحریروں پر کہ تینوں ملکوں کے تعلقات میں جو سرد و گرم بلکہ جنگ و جدل رہی اس میں ایسے بے شمار واقعات و سانحات ہیں کہ اوّل تو ان میں سے بیشتر کی دستاویزات داخل دفتر کردی گئیں… یا انہیں دیمک چاٹ گئی… مگر خفیہ ایجنسیوں کی بیشتر پالیسیاں، حکمت ِعملیاں اور کاروائیاں (جنہیں ہمیشہ تخریبی نوعیت کا ہی کہا جاتا ہے حالانکہ ان ایجنسیوں کے سرخیل اسے اپنے ملک کے قومی مفاد میں ہی قرار دیتے ہیں) زبانی کلامی زیادہ ہوتی ہیں۔ ان پر سے پردہ صرف اْسی وقت اٹھتا ہے جب خود اس ایجنسی کے سربراہ یا نمبر دویا تین ریٹائرڈ ہونے کے بعد بزعم ِخود طرم خان بن کے کسی گھوسٹ رائٹر کے قلم سے یہ دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ اگر اْس نازک گھڑی پر وہ آگے بڑھ کر یہ جرأت مندانہ قدم نہ اٹھاتے تو ملک (میرے منہ میں خاک ) تباہی کے دہانے پر نہیں بلکہ گہری کھائی میں جا پڑا ہوتا… کس کس کا نام لیا جائے۔ چلیں ریٹائرڈ جنرل اسد درانی سے پہلے افغان جنگ کے دوران جنرل ضیاء الحق کے دور کے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل اختر عبدالرحمن پر آجاتے ہیں… موصوف جنرل نے اپنے کارہائے نمایاں پر صاحب طرز کالم نویس اور ادیب محترم ہارون الرشید سے ایک کتاب لکھوائی ’’فاتح‘‘… 80 کی دہائی میں لکھی جانے والی اس کتاب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا شمار اردو کی ان کتابوں میں آتا ہے جس کے ریکارڈ توڑ ایڈیشن شائع ہوئے۔ایک تو روسیوں کے خلاف افغانوں کے شانہ بشانہ لڑائی پر موصوف جنرل (ر) عبدالرحمٰن کی لن ترانیاں اْس پر ہمارے محترم بزرگ صحافی دوست کا انداز بیاں… موصوف جنرل کا دعویٰ تھا کہ وہ ہی اصل میں اس افغان جنگ کے فاتح ہیں جس نے کابل پر مجاہدین کا سبز پرچم ہی نہیں لہرایا بلکہ سوویت یونین جیسی سپر پاور کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ روسیوں کیخلاف اس جنگ میں سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے درمیان کیسی مثالی دوستی تھی… اور کروڑوں بلکہ اربوں ڈالر کے ہتھیاروں کی لین دین اور شپمنٹ کتنی صاف اور شفاف تھی… یہ کس طرح ہوائی اور بحری جہازوں میں مشرق وسطیٰ کے ممالک سے پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد پہنچتی تھی اور پھر کس خفیہ انداز میں سی آئی اے کے ایجنٹ اسے آئی ایس آئی کے اہلکاروں کے حوالے کرتے تھے… اور پھر یہ محفوظ مقامات پر پہنچانے کے بعد جنگجو مجاہدین میں کس منصفانہ طور پر تقسیم ہوتے تھے… طبیعت مچل رہی ہے کہ پوری کتاب ہی من و عن آگے چل کر اپنے کالموں کیلئے محفوظ کردوں کہ ایک طلسم ہوشربا ہے… یہ لیجئے… ذکر شروع ہواتھا موصوف ریٹائرڈ جنرل اسد درانی اور امرجیت سنگھ دلت کی کتاب Spy Chronicles کا… کہ جو کہیں دور پیچھے رہ گئی… اور میں ہوں کہ سرپٹ 30 سال قبل لائبریریوں میں دفن جنرل عبدالرحمن کی ’’فاتح‘‘ کا ذکر لے بیٹھا۔ اب ایک اور مجبوری آڑے آرہی ہے… جی ہاں صفحہ تمام ہوا مگر ابھی اس ہنگامہ خیز کتاب کی ایک لائن بھی نہیں آئی… جس پر موصوف جنرل اسد درانی پر کمیشن بٹھادیا گیا ہے جو کورٹ مارشل کردینے تک کی سفارش کرسکتا ہے… وعدہ رہا کہ آئندہ صرف اس کتاب پر ہی گفتگو ہوگی۔ مگر چلتے چلتے ذرا جھلکی کے طور پر کتاب کے تعارف میں لکھے را کے سربراہ امر جیت سنگھ دلت کے چند دلچسپ جملوں سے لطف اندوز ہولیں… دُلت لکھتے ہیں:کشمیر ۔سال 2015 میں کشمیر پر ٹریک 2 میٹنگ کے حوالے سے ہم اردن میں تھے۔ میری بیوی کبھی کبھار سگریٹ پی لیتی ہے جبکہ بیگم درانی اسموکنگ، ڈرنکنگ کی سخت مخالف۔ پھر بھی دونوں میں گاڑھِی چھنتی… اس کتاب کے تعارف میں امرجیت سنگھ دلت اپنا بیانیہ دیتے ہوئے جس مزاح کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں جبکہ جنرل اسد درانی کی تعارفی تحریر لیفٹ رائٹ کرتی نظر آتی ہے۔