لگتا ہے اس بات کو معذرت خواہانہ انداز میں بتارہا ہوں، آج دل چاہتا ہے ذرا دو ٹوک انداز میں اسے تسلیم کریں۔ ہم نے بیوروکریسی کو بہت گالیاں نکالی ہیں۔ اسے ہمیشہ نوآبادیاتی نظام کی میراث قرار دیا ہے۔ ہمیشہ اس بات پر اصرار کیا ہے کہ اس نوکر شاہی یا افسر شاہی نے ملک تباہ کر کے رکھ دیا۔ یہ کالے صاحب، انگریز کے جانے کے بعد ملک کے حکمران بن بیٹھے تھے اور انہوں نے کسی کو کام نہیں کرنے دیا۔ مجھے آج اعتراف کرنا ہے کہ اگر یہ سب باتیں درست بھی ہیں تو بھی یہ ایک حقیقت ہے کہ اس بیوروکریسی کے نظام کی تباہی نے ملک کو تباہ کردیا۔ آج اوریا مقبول جان نے عشرت حسین کے حوالے سے اس پورے انتظامی ڈھانچے کا جو تجزیہ کیا ہے، اس میں ایک بات بھی غلط نہیں ہے۔ مجھے اس بات کا احساس ایک عرصے سے ہے کہ اس انتظامی ڈھانچے کو برباد کر کے ہم نے ملک پر بہت بڑا ظلم کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جس طرح ذوالفقار بھٹو پر اس ملک میں بہت کچھ تباہ کرنے کا الزام ہے، اس طرح اس انتظامی ڈھانچے کو ملیامیٹ کرنے کا سہرا بھی ان کے سر بندھنا چاہیے۔ ذرا ترتیب سے بات کئے لیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں جو نظام ہمیں ورثے میں ملا، اس میں افسر شاہی کو ایک بنیادی اہمیت حاصل تھی۔ فوج بھی جب اقتدار میں آئی تو اس نے ملک کا نظام چلانے کے لیے اسی سول بیوروکریسی کا سہارا لیا۔ ایوب خان نے اس نظام کا اتنا احترام کیا کہ اس کے سہارے ہی اپنے مقاصد پورے کرتے رہے مگر اسے تہس نہس کر کے کوئی وردی پوش نظام رائج کرنے کی کوشش نہ کی۔ یہ نظام اتنا مضبوط تھا کہ جب ایک بیوروکریٹ الطاف گوہر کو سیکرٹری اطلاعات لگانا تھا تو قانون اس کی اجازت نہ دیتا تھا کہ وہ ذرا جونیئر افسر تھے۔ اس لیے انہیں قائم مقام سیکرٹری لگایا گیا حتیٰ کہ وہ اتنے سینئر ہو گئے کہ مکمل سیکرٹری کا منصب حاصل کرسکیں۔ اس وقت کے بیوروکریٹ اپنی ذہانت اور صلاحیتوں کے اعتبار سے بھی معتبر گنے جاتے تھے۔ بعض اوقات تو اتنے معتبر بن بیٹھے کہ ملک کے وزیراعظم گورنر جنرل اور صدر تک کے عہدوں پر جا پہنچے۔ تقسیم ہند سے پہلے بھی جب مسلم لیگ کو وفاق میں وزارت خزانہ اس خیال سے سونپی گئی کہ وہ ناکام ہو جائیں گے تو لیاقت علی خان نے یہ مرحلہ دو بیوروکریٹ کی مدد سے ہی طے کیا۔ یہ دونوں بعد میں ملک کے گورنر جنرل اور وزیراعظم بھی رہے۔ اس سے البتہ ایک خرابی پیدا ہونا بھی شروع ہوئی، سیاستدانوں کو جلد احساس ہو گیا کہ یہ انگریز کے تربیت یافتہ جلد ہی اقتدار کے سارے سرچشموں پر غالب آ جاتے ہیں۔ ابتدائی دنوں کا ذکر ہے کہ مشرقی پاکستان کے وزیراعلیٰ نورالامین نے شکایت کی یہ مغربی پاکستان کی بیوروکریسی ان کو چلنے نہیں دیتی۔ چوہدری محمد علی اس وقت حکومت پاکستان کے سیکرٹری جنرل تھے یعنی سب سے بڑے بیوروکریٹ۔ یہ بات میں نے خود ان سے براہ راست سنی ہے کہ انہوں نے اس مرحلے پر پیش کش کی وہ مغربی پاکستان کے سارے افسر واپس بلوا لیتے ہیں۔ نورالامین صاحب فوراً اچھل پڑے کہ آپ صوبائی حکومت کو مفلوج کرنا چاہتے ہیں۔ نورالامین ہمارے وہ سیاست دان تھے جو مشرقی پاکستان الگ ہونے کے بعد بھی باقی ماندہ پاکستان میں رہے اور ان کی حب الوطنی کا خدا نے انہیں یہ اجر دیا کہ وہ قائداعظم کے مزار سے متصل فاطمہ جناح، لیاقت علی خان اور سردار عبدالرب نشتر کے ساتھ دفن ہیں۔ اس میں مغربی پاکستان کا نام تو اس لیے آیا کہ اس وقت بیوروکریسی میں زیادہ لوگ اس خطے سے تھے، وگرنہ اصل معاملہ یہ تھا کہ سیاستدانوں کو بیوروکریسی کا کنٹرول کھٹکنے لگا تھا۔ یہ معاملہ پھیلتا گیا حتیٰ کہ مارشل لا لگ گیا اور سول بیوروکریسی نے خاکی بیوروکریسی کا کھل کر ساتھ دیا۔ نتیجہ یہ نکلا سیاست دانوں کے دلوں میں یہ بات راسخ ہوتی گئی کہ اصل فساد کی جڑ یہ افسر شاہی ہی ہے۔ یحییٰ خان پہلے شخص تھے جنہوں نے اس ادارے پر وار کیا۔ شاید 303 افسر نکالے تھے۔ یحییٰ کے مقاصد اور رہے ہوں گے، تاہم بھٹو صاحب نے آتے ہی اس ادارے پر ایسا وار کیا کہ کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔ بھٹوصاحب کے بہت سے ’’انقلابی‘‘ مقاصد تھے۔ انہیں اندازہ تھا کہ بیوروکریسی ان کی راہ میں حائل ہو گی۔ پہلے تو انہوں نے شاید 1100 افسر نکال دیئے۔ نام کرپشن ہی کا تھا۔ پھر ایک بیوروکریسی کے قانون میں اصلاحات کا اعلان کیا۔ اس کی تیاری میں بڑے بڑے جید بیوروکریٹ اور ٹیکنوکریٹ کی مدد حاصل کی گئی جہاں تک حافظہ کام کرتا ہے لوگ سٹاف کالج کے سربراہ ایک صاحب حسن حبیب ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے بڑے ذہین لوگوں کی مدد سے ایک قانون بنایا جس نے دو تین تصورات رائج کئے۔ ایک تو سول سروس یا بیوروکریسی کے سر سے آئینی تحفظ کا سایہ اٹھا لیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب افسران کو دستور اور قانون کا تحفظ میسر نہ تھا۔ سیاستدانوں کی بات نہ ماننے پر وہ برطرف کئے جا سکتے تھے۔ دوسرا تصور اس سے بھی بڑا خطرہ ثابت ہوا۔ یہ سنٹرل انٹری کا تصور تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ لازمی نہیں کہ آپ نوجوانی ہی میں بیوروکریٹ بن سکتے ہیں۔ ایک خاص عمر سے پہلے آپ امتحان دیں اور سب سے نچلے درجے سے شروع کریں۔ کچھ افقی اور عمودی حرکت کا تصور تھا۔ آپ اپنے فیلڈ میں ماہر ہیں تو آپ کو براہ راست اوپر والے سکیل میں لیا جاسکتا ہے۔ مقصد تو یہ تھا کہ آپ کی مخصوص مہارت کی وجہ سے آپ کی اعلیٰ گریڈ میں تعیناتی ہو سکتی ہے، تاہم ہوا یہ کہ ان دنوں اخبارات میں اس طرح کے اشتہارات آئے تھے کہ گریڈ 18 کے 40 افراد درکار ہیں یعنی خصوصی مہارت نہیں، بلکہ عمومی طریقے سے تقرریاں، یہ سارے تصور کی نفی تھی۔ کسی کو ترقی بھی دینا ہوتی تو بھی اس قانون کے تحت اسے وقت سے پہلے اعلیٰ گریڈ میں تعینات کردیا جاتا۔ بس اس نے بیوروکریسی کو تباہ کردیا۔ پہلے برطرفیاں، پھر آئینی تحفظ سے محرومی اور تیسرے براہ راست تعیناتیاں اور ترقیاں۔ رہی سہی کسر ایک چوتھی بات نے پوری کردی اور وہ یہ کہ حکومت نے بے شمار صنعتیں قومیا لیں۔ کئی ادارے حکومت کی ملکیت ہو گئے۔ حکومت نے کسی کو نوازنا ہوتا، اسے گریڈ 18 سے اٹھا کر کسی فیکٹری کا ایم ڈی لگا دیا جاتا۔ پھر وہ ان ساری مراعات کا حق دار ٹھہرتا جو اس عہدے کے شایان شان ہوتیں۔ بے شمار پیارے اور لاڈلے یوں نوازے گئے۔ یہ آج کی خود مختار کمپنیاں تو بہت بعد کا تصور ہے۔ زیادہ تنخواہ اور مراعات دینے کا تصور اس زمانے میں پیدا ہوا۔ دوسری تباہی مشرف نے مچائی جس نے شہری حکومتوں کا نظام لانے کے چکر میں ایک نیا انتظامی ڈھانچہ تشکیل دے ڈالا۔ ڈی سی کا عہدہ ختم کر دیا کہ یہ نوآبادیاتی دور کی یادگار ہے۔ پولیس نے ایک ایسی خودمختاری جس نے پولیس کو فعال تو نہ کیا، بلکہ بے لگام کردیا۔ بعض اوقات لگتا تھا کہ پولیس سٹیٹ بنا لیا۔ وہ ادارے بنائے ہی نہیں جو مقصود ہے۔ ایس پی، ڈی ایس پی وغیرہ کو نئے نام دے دیئے۔ اب وہ ڈی سی وغیرہ کے ماتحت نہ تھے، کہنے کو نومنتخب ناظم ان کا باس تھا مگر ان کی رپورٹ وہ نہ لکھتا تھا۔ پولیس کمیشن کا جو تصور تھا، وہ بھی مفقود تھا۔ اس پورے ڈھانچے پر الگ سے مطالعے کی ضرورت ہے۔ بھارت میں بھی وہی نظام تھا جو انگریز سے ہمیں ودیعت ہوا تھا۔ بھارت نے اس ڈھانچے کو توڑے بغیر اس میں ضروری تبدیلیاں کیں مگر ہماری تو نیت ہی اور تھی۔ بھٹو اور مشرف نے اپنے اپنے مقاصد کے لیے بیوروکریسی کا ایسا ستیاناس کیا کہ ہر افسر اپنی ترقی کے لیے اپنے باس کا محتاج ہوگیا۔ یہاں آ کر میں تھک گیا ہوں یا کالم میں تفصیل کی گنجائش نہیں پاتا۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مشرف کے بعد سول سروس نام کی کوئی شے باقی نہ بچی۔ اب اندازہ ہوتا ہے کہ سول سروس ہماری انتظامی مشنری کی ریڑھ کی ہڈی تھی۔ ہم نے اسے کچل کر رکھ دیا جس سے ہمارا سارا اعصابی نظام متاثر ہوا ہے اور ہم اپاہج ہو کر رہ گئے ہیں۔ اداروں کی تباہی تین طبقوں کے تصادم سے پیدا ہوئی ہے۔ خلافت عباسی کی تباہی بھی ایسے ہوئی۔ عرب اشرافیہ خلافت کی شکل میں، عجمی بیوروکریسی سلطانیت وغیرہ کے چکر میں اور ترک فوج جو بغداد سے باہر ڈیرے ڈالے بیٹھی تھی، ان کے تصادم نے سلطنت تباہ کردی۔ اب بھی یہی نقشہ دکھائی دیتا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کے 70 سال کا نقشہ کھینچا جا سکتا ہے۔ ضیاء الحق نے کیا کیا اور کیسے کیا، مشرف نے کیا تیر مارا، پھر سیاستدان کیسے راستے سے اکھڑے۔ مختصر یوں کہ میری اب بھی یہ رائے ہے کہ ملک مضبوط کرنا ہے تو پہلے اپنی بیوروکریسی کو مضبوط کیجئے۔ اب اسے ایک آزاد ملک کی بیوروکریسی ہونا چاہیے۔ پھر دوسرے اداروں کی مضبوطی شاید بہتر نتائج دے سکے۔ انگریز چلا گیا، اس کے نظام کی اخفی، انارکی اور بدانتظامی یہیں ہے۔ ذرا اس بات پر غور کیجئے۔ آج کل کے پورے فساد میں کہیں بیوروکریسی کا ذکر آتا ہے؟ ہم سمجھتے ہیں، وہ الگ بیٹھے وہی کلچہ کھا رہے ہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے، وہ سب فائدے اٹھا رہے ہیں، سوائے ذمہ داری کے بوجھ کے۔