ملک بھر میں آٹے کی عدم دستیابی بحران کی صورت اختیار کر گئی ہے‘ حکومت نے اس بحران کو ختم کرنے کے لئے چارہ جوئی شروع کی ہے تاہم اس کے لئے زیادہ باعث تشویش امر یہ ہے کہ اس معاملے کو حزب اختلاف موثر سیاسی حملے کی صورت استعمال کرنے کے قابل ہو گئی ہے۔ حکومت پر ذمہ داری اس حد تک ضرور بنتی ہے کہ وہ فوڈ کنٹرولروں ‘ ضلعی انتظامیہ اور پرائس کنٹرول میکنزم کے باوجود صورت حال کو بدترین سطح پر پہنچنے کا اندازہ قبل از وقت نہ کر سکی۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے حکومت سے سوال کیا ہے کہ اضافی گندم کا سٹاک کہاں گیا؟ کیا گندم سمگل ہوئی یا حکومت نے فروخت کی؟ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت نے گندم برآمد کرنے والے ملک کو گندم درآمد کرنے والا بنا دیا۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے 40ہزار میٹرک ٹن گندم افغانستان بھیج کر دانستہ بحران پیدا کیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے عمران خان پر مخصوص دوستوں کو نوازنے کا الزام بھی عاید کیا۔ گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان اپنی ضروریات سے کہیں زیادہ گندم پیدا کر رہا ہے۔ قومی ضروریات کے لئے گندم کے ذخائر محفوظ بناتے وقت ہمسایہ ملک افغانستان کی ضروریات کو بھی پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ صدیوں سے افغانستان کے علاقے پنجاب میں کاشت گندم پر گزارا کرتے آ رہے ہیں۔ اگر حکومت نے برادر ہمسایہ ملک کو گندم فراہم کی تو پہلے اپنے سٹاک کے اعداد و شمار کو ضرور پیش نظر رکھا ہو گا۔ اس سلسلے میں حکومت سے اگر کوتاہی ہوئی ہے تو اسے اپنی غفلت کو تسلیم کر کے اصلاح احوال کے لئے اقدامات کرنا چاہئیں۔حکومت کلی طور پر نہ سہی مگر اس بحران کی بڑی ذمہ دار ضرور ہے۔ ذمہ داری کی وجہ وہ اختیار ہے جو اسے گندم کی پیداوار‘ برآمد‘ ذخیرہ اور انتظامی فیصلوں کا حق دیتا ہے۔ گندم زاید از ضرورت جنس سے کس طرح قلت میں تبدیل ہوئی‘ حکومتی وزراء اور ان کے ماتحت سرکاری مشینری خاص طور پر محکمہ خوراک و زراعت کیا کر رہا تھا۔ آٹا بحران کن لوگوں کی وجہ سے پیدا ہوا اور حکومت وقت سے پہلے اس کا اندازہ کیوں نہ لگا سکی ان سب معاملات کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ یہ تحقیقات اس لئے بھی ضروری ہیں کہ 2008ء میں جب ق لیگ کی حکومت اپنی مدت پوری کر رہی تھی تو اسے غیر مقبول بنانے میں جس بحران نے اہم کردار ادا کیا وہ اسی طرح کا آٹا بحران تھا۔ بادی النظر میں یہ صرف حکومت کی کوتاہی دکھائی نہیں دیتی بلکہ اس کے پس پردہ ایک مخصوص ایجنڈا رکھنے والا گروہ سرگرم ہے جو حکومتی اقدامات کو غیر موثر کر رہا ہے اور اس کی رٹ کو چیلنج کرتا نظر آتا ہے۔ آٹا بحران میں فلور ملز مالکان اور چکی مالکان کا الگ الگ موقف سامنے آیا ہے۔ فلور ملز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ وہ حکومت کے مقررہ نرخوں پر آٹا فروخت کر رہے ہیں جبکہ چکی مالکان کہتے ہیں انہیں ملز والوں کی طرح رعایتی نرخوں پر گندم نہیں ملتی اس لئے وہ بجلی اور افرادی قوت کے اخراجات شامل کر کے آٹے کی قیمت بڑھانے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ حکومت نے زبردستی کی تو چکیاں بند کر دی جائیں گی۔ دوسری طرف ملز مالکان کے دعوئوں کے باوجود مارکیٹ میں آٹے کے تھیلے مہنگے فروخت ہو رہے ہیں۔10کلو کا تھیلا 580روپے اور 20کلو کا 1200روپے کے لگ بھگ مل رہا ہے۔ بحران سے قبل 20کلو کا تھیلہ 800روپے میں فروخت کیا جا رہا تھا۔یہ بجا کہ بڑا صوبہ ہونے کی وجہ سے آٹا بحران پنجاب کے لئے زیادہ تشویشناک ہے مگر صوبہ سندھ جہاں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ وہاں بھی حالات اچھے نہیں۔ صرف انتظامی اور حکومتی غفلت کو ذمہ دارسمجھا جائے تو گزشتہ برس وفاق نے سندھ کو 4لاکھ ٹن گندم خریدنے کا کہا مگر صوبائی حکومت نے صرف ایک لاکھ ٹن گندم خریدی۔ اگر صوبائی حکومت نے اس وقت باقی تین لاکھ ٹن گندم بھی ذخیرہ کی ہوتی تو سندھ کی حد تک آٹا بحران نہ ہوتا۔سندھ سمیت اس بحران کا ہر علاقے میں موجود ہونا ظاہر کرتا ہے کہ گندم اور آٹے کے کاروبار سے منسلک لوگ ایسی قوتوں کے ہاتھ میں کھیل رہے ہیں جو ملک کو مستحکم دیکھنے کی روادار نہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت ان دنوں مشکل کا شکار ہے۔ ایک طرف اتحادیوں کو منانے کا معاملہ ہے دوسری طرف اپنے وزراء کی باہمی چپقلش‘ تحریک انصاف کے دیرینہ کارکن الگ سے نظر انداز ہونے پر شکوہ کناں ہیں۔ ان تمام مسائل کے باوجود حکومت کو سابق حکومتوں پر اخلاقی برتری رہی ہے۔ بجلی اور گیس کے نرخوں میں مسلسل اضافہ کیا گیا‘ نئے ٹیکس لگائے گئے‘ کچھ ٹیکسوں میںاضافہ کیا گیا۔ بینکوں اور کاروباری اداروں پر نئے ضابطے نافذ ہوئے۔ ان سے عام آدمی کی جیب پر بوجھ پڑا لیکن وہ خاموش رہا کہ عشروں سے لوٹ مار کی شکار ریاست کو اصلاح احوال کے لئے مشکل فیصلے کرنا پڑ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن نے جب بھی پی ٹی آئی حکومت یا وزیر اعظم عمران خان کے خلاف کوئی تحریک چلانا چاہی اسے عوام نے مسترد کر دیا۔ حال ہی میں مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کا انجام سب کے سامنے ہے۔ آٹے کا غائب ہونا اور اس بحران سے متعلق سوالات نے کمزور پوزیشن پر کھڑی اپوزیشن کو پہلی بار موقع دیا ہے کہ وہ عمران خان کی حکومت کے خلاف عوامی رائے کو اپنے حق میں استعمال کر سکیں۔ یہ صورت حال کچھ عرصہ برقرار رہی تو پی ٹی آئی ق لیگ کی طرح ایک ناخوشگوار انجام کو پہنچ سکتی ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وزیر اعظم اپنی ٹیم پر نظرثانی کریں۔ حکومتی کمزوریوں کو دور کریں۔ مافیازکے خلاف فوری اور سخت کارروائی کر کے عوام کو پیغام دیں کہ ذخیرہ اندوزوں اور بددیانت افراد کے لئے حکومت کے دل میں کوئی جذبہ رحم نہیں۔