سٹیٹ بنک کے اعداد و شمار کے مطابق وفاقی حکومت نے مالی سال 2024ء میں جولائی سے فروری تک 3ہزار 3سو 95ارب روپے کا قرض لیا جو کہ گزشتہ سال کی نسبت 59فیصد زیادہ ہے۔ کوئی بھی ملک اپنے وسائل اور اخراجات میں توازن قائم کیے بغیر ترقی نہیں کر سکتا۔مہذب ممالک اگر قرض لیتے ہیں تو اس بات کو یقینی بھی بناتے ہیں کہ قرض کو ملکی وسائل میں اضافے اور قومی ترقی کے لئے استعمال کیا جائے۔ وطن عزیز میں گزشتہ تین دھائیوں سے حکمرانوں نے جتنے قرض لئے شاہی اخراجات اور کرپشن کی نذر ہو گئے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ پاکستان کو قرضوں کے سود کی ادائیگی کے لئے مزید قرض لینے پڑ رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اس صورت حال میں حکومت اپنے اخراجات میں کمی کرتی مگر حکمرانوں کی اپنی عیاشیوں اور لوٹ مار کے لئے جب عالمی قرض کم پڑنے لگا تو مقامی بنکوں سے قرض لینا شروع کر دیا اور حکومت 21سے 22 فیصد سو پردمقامی بنکوں سے قرض لے رہی ہے جس کا ثبوت جولائی تا دسمبر تک سود کی مد میں 4ہزار 2سو ارب ادائیگیوںمیں سے 88فیصد مقامی بنکوں کواداکرنا ہے۔ حکومت نے کرپشن کے سدباب اور اخراجات میں توازن قائم نہ کیا تو ملک کے ڈیفالٹ کا خطرہ بڑھ سکتا ہے ۔بہتر ہو گا حکومت مزید قرضے لینے کے بجائے شرح سود کم کرے تاکہ مقامی بنک حکومت کے بجائے سرمایہ کاروں کو قرض دینے پر مجبور ہوں اور ملکی معیشت اپنے پائوں پر کھڑی ہو سکے۔