تحریک انصاف کی 22سال کی سیاسی جدوجہد کا کل حاصل عمران خان کی کرز میٹک شخصیت اور 2011ء کے مینار پاکستان کے جلسے میں انصاف، میرٹ ،مساوات اور بلا امتیاز احتساب کے ذریعے خوشحال پاکستان کے لیے پاکستانیوںکی امیدیں تھیں۔ مینار پاکستان میں لاکھوں کے ہجوم نے عمران خان کو عام پاکستانیوں کے علاوہ عملی سیاست سے دور سیاسی تجزیہ کاروں کی توجہ کا مرکز بھی بنا دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ آصف علی زرداری ان تجزیہ کاروں کو سیاسی اداکار کہا کرتے تھے۔ اب اسے ان سیاسی تجزیہ کاروں کے مشوروں کا اثر کہیے یا پھر کپتان کی اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے کی بیتابی کا نتیجہ کہ عمران خان تحریک انصاف کے نظریات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اقتدار اور الیکٹ ایبلز کی ضرورت کے قائل ہو گئے۔ نظریے کے نام پر عملی ضرورت کی اس سوچ نے جسٹس وجیہہ الدین اور حامد خاں ایسے قانون اور انصاف پسندوں کو 2018ء کے الیکشن سے پہلے ہی پس منظر میں دھکیل دیا اور اقتدار کی سیاست کے بادشاہ گروں نے تحریک انصاف اور عمران خان پر گرفت مضبوط کر لی۔ تبدیلی کی دعویدار تحریک انصاف میں اس ’’تبدیلی‘‘ کا ہی کمال تھا کہ اقتدار کے 22 ماہ میں ہی عام آدمی کی امید مایوسی میں بدل گئی اور قومی خزانہ لوٹنے والے عوام کو ’’بندہ تو ایماندار ہے‘‘ اور’’ نااہل‘‘ کے کوسنے دینے لگے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کوسنوں کا اگر کوئی حقدار ہے تو وہ عوام نہیں عمراں اور ان کی ٹیم ہے۔ عوام کا اگر کوئی قصور ہے بھی تو بس اتنا کہ لوٹ مار کی وجہ سے غربت کی ماروں کا عمران خاںاور تحریک انصاف کی عملی صلاحیت اور ہوم ورک کے دعوئوں پر یقین کرلینا ہے!! آج اپوزیشن اگر بندہ تو ایماندار ہے مگر نااہل کا طعنہ دے رہی ہے تو اس کی وجہ عمران خاں کی حکومت میں آنے سے پہلے ہوم ورک نہ ہونا ہے۔ اگر تحریک انصاف نے ہوم ورک کیا ہوتا تو عمران خاں کو احتساب کے ایجنڈے پر عملدرآمد کرنے میں اس حد تک ناکامی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ کپتان کو اس بات کا ادراک ہوتا کہ اشرافیہ کے احتساب کے دوران ان کو سابق حکمرانوں کی وفادار افسر شاہی کے علاوہ قانونی موشگافیوں کا بھی سامنا ہو گا۔ ہوم ورک ہوتا تو ان حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے لائحہ عمل بھی واضح ہوتا۔ کوئی حکمت عملی ہوتی تو بیورو کریسی سے کام لینے کا طریقہ کار اور احتساب کی راہ میں حائل قانونی پیچیدگیوں کا حل قانون ساز اسمبلی سے نکالنے کی سعی کی جاتی۔ یہ ہوم ورک نہ ہونے کا ہی نتیجہ ہے کہ عمران خاں کی حکومت اڑھائی سال تک انصاف اور احتساب کے عمل میں حا ئل قانونی رکاٹوں کو دور کرنے کی بجائے عوام کو سابق حکمرانوں کی لوٹ مار کے قصے سنا کر اور افسروں کو تبدیل کر کے من چاہے نتائج کے حصول کے لئے اپنی قوت صرف کرتی رہی۔ حاصل کیا ہوا؟؟ احتساب کے عمل میں رکاوٹ بنے والے قانونی سقم دور نہ ہونے کی وجہ سے عدالتوں سے لوٹ مار کے مقدمات میں نہ صرف قومی خزانہ لوٹنے والوں کو ریلیف ملتا رہا بلکہ عدالتیں کمزور مقدمات پر حکومتی اداروں کی سرزنش بھی کرتی رہیں اس کے باوجود بھی حکومت کا طرز عمل این آر او نہیں دون گا ایسی لفاظی تک ہی محدود رہا وہ اقبال ساجد نے کہا ہے نا: پچھلے برس بھی بوئی تھیں لفظوں کی کھیتیاں اب کے برس بھی اس کے سوا کچھ نہیں کیا عمران کے وزیروں مشیروں کی لفظوں کی کھیتیوں ، بے ڈھنگے احتساب اور مسلسل ناکامیوں کی وجہ سے حکومت کے ہمدرد صحافی اور تجزیہ کار بھی مایوس ہونا شروع ہو گئے پاکستانی اور عالمی میڈیا میں کتنے ہیں جو صرف دو سال کے اقتدار میں ہی عمران خان کا دفاع کرنے سے عاجز نہیںآئے جو ان کی محبت میں ایمانداری کو جواز بنا کر دفاع کر رہے تھے اور قوم کو یہ دلاسہ دے رہے تھے کہ کیونکہ سینٹ میں اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے قانون سازی ممکن نہ تھی سینٹ الیکشن کے بعد عمران خان قانونی سازی کر کے پوری قوت سے احتساب کے عمل کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے ان کی یہ خوش فہمی بھی عمران خان کے الیکٹ ایبلز کی فلاسفی نے دور کر دی ہے۔ جہانگیر ترین کے دفاع میں حکومتی ارکان اسمبلی کے دبائو سے اسمبلی میں قانون سازی کا وہم ہی دور نہیں ہوا بلکہ وزیر اعظم کی ملاقات سے پہلے ترین کے خلاف تحقیقات کرنے والے ڈاکٹر رضوان سے کیس وآپس لنیے کے فصیلے نے تحریک انصاف کی ’’تبدیلی‘‘ کے چہرے سے نقاب بھی اتار دی تو رہی سہی کسر سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کے انکشافات نے پوری کر دی ہے۔ حکومتی مشیران جو بھی کہیں مگر بشیر میمن کے انکشافات نے تحریک انصاف کے انصاف کے دعوے پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے ترین گروپ کے دبائو پر وزیر اعظم سے ملاقات سے پہلے ڈاکٹر رضوان سے کیس کی وآپسی اور شریف خاندان کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات بنانے سے انکار پر بشیر میمن کو ریٹایر منٹ سے چند ہفتے ہہلے استعفیٰ دینا پر مجبور کرنے سے عوام پر عمران خان کی ایمانداری اور کرشماتی شخصیت کے جادو کا سحر بھی ٹوٹ چکا ہے۔ ایف آئی اے کے سابق ڈی جی ایف آئی اے کادعویٰ کہ میں نے وزیراعظم سے کہا تھا کہ شہباز شریف کو گرفتار کرنا ہمارا مینڈیٹ نہیں ہے اور میرا موقف تھا کہ بغیر شواہد مقدمات نہیں بنائے جا سکتے۔ اس کے جواب میں وزیراعظم آفس کا میاں شہباز شریف پر مقدمات قائم کرنے کے اسرار کو قومی خزانہ لوٹنے والوں سے بیزاری، احتساب کے عمل میں قانونی پیچیدگیوں کے باعث فطری ردعمل کی تسلی دے کر دل کو سمجھا بھی لیا جائے تو بھی بشیر میمن کا یہ الزام کہ وزیراعظم نے یہ بھی کہا تھا کہ عارف نقوی میرا دوست ہے لیکن تم نے اسے تباہ کردیا تحریک انصاف کے بلا امتیاز احتساب کے دعوئوں کی نفی اور وزیراعظم کے ایمانداری پر داغ ہے اور عمران کی شخصیت کا جادو توڑنے کے لیے کافی ہے۔ یہ الگ بات کہ جادو کے ٹوٹنے کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کے عوام کا ہوا جو ستر سال سے قوم کی تقدیر بدلنے اور خوشحالی کی امیدیں لگائے بیٹھے تھے عمران خان کی سیاست کو اگر دو سطروں میں بیان کرناپڑے تو یہی کہا جا سکتا کہ تحریک انصاف کی 22 سال کی سیاسی جدوجہد کا حاصل پاکستانیوں کی تبدیلی کی امید تھی تو 22 ماہ کی کارکردگی تحریک انصاف کے نظریہ کی موت اور عوام کی امیدوں کا قتل ہے !!